Daily Roshni News

شاہکار افسانہ ابا جان۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود۔۔۔قسط نمبر1

شاہکار افسانہ ابا جان

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شاہکار افسانہ ابا جان۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود)انا کو غریبوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ عید کے دن کسی نہ کسی غریب بچے کو گھر لے آتے، اسے اپنے ہاتھوں سے نہلاتے، نئے کپڑے پہناتے اور ایسا کر کے وہ خوشی سے نہال ہو جاتے تھے۔ رمضان کے آخری ہفتے میں وہ غریبوں اور ضرورت مندوں میں نئے کپڑے تقسیم کرنا شروع کر دیتے تھے اور عید کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ معروف ادیب و کالم نگار ڈاکٹر طاہر مہ کے قلم سے ایک افسانہ

ابا کو یاد کرتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں…. کیسے کریم النفس تھے ابا …. بہت پیار کرنے والے، بڑھ کر گلے سے لگا لینے والے …. مجھے تو انہوں نے اتنی بار گلے سے لگایا ہے اور میری پیشانی اور رخساروں کو اتنی بار چوما ہے اور سینے سے لگا کر اتنی بار بھینچا ہے، کہ ان کی جنونی محبت سے میرے دل میں آنسوؤں کا تالاب بن گیا ہے۔

جب بھی انہیں سوچتا ہوں، آنکھوں کے سامنے ان کی تصویر آجاتی ہے۔ سر پر ٹوپی ، مختصر سی داڑھی، آنکھوں میں نرماہٹ، ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور اس مسکراہٹ میں اداسی کی ایک غیرمحسوس کی آمیزش….!

جب تک زندہ رہے بیماری نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ مدت دراز تک تو ان کی بیماری کا ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا۔ بدن پر چھوٹے چھوٹے سرخ سرخ سے آبلے ابھر آتے تھے اور کبھی کبھی دائیں بازو میں ایسی شدت کی تکلیف اٹھتی تھی کہ درد سے روپڑتے تھے۔ ویسے وہ تھے بھی رقیق القلب ….!

نظر انداز کی جانے والی باتوں کا بھی اثر قبول کر لیتے تھے ! بڑا گہرا اثر ….!

پھر ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتی تھیں۔ مجھ میں بھی شاید انہی کی عادت آئی ہے۔ ذراسی بات پر آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔ لاکھ چاہتا ہوں کہ اپنے آپ پر قابو رکھوں لیکن آنسو ہیں کہ انڈ تے چلے آتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انا کی کہانی کہاں سے شروع کروں۔ ان کے بچپن سے ، جب وہ فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی ہوتے تھے یا ان کی جوانی سے جب وہ مسافر ٹرین میں کھٹی میٹھی گولیاں بیچا کرتے تھے یا ادھیڑ عمری سے جب وہ خوش حال ہو گئے تھے اور ان کے وارڈ روب میں کئی شیروانیاں، کالی اور سفید …. اور آدھے درجن جوتوں کے جوڑے رکھے رہتے تھے۔

وہ بہت خوش لباس اور بہت صفائی پسند تھے۔ انی جو تھے وہ انا کے چھوٹے بھائی تھے۔ ابا انہیں بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔ دونوں بھائیوں میں ایسی محبت تھی جس کی کوئی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ دونوں ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کا عہد کر کے اللہ میاں کے پاس سے آئے تھے لیکن یہ عہد پورا نہ کر سکے کیونکہ اللہ نے ابا میاں کو پہلے بلالیا۔ یہ بات ابی کو پسند نہ آئی اور انہوں نے اپنا عہد اس طرح نبھایا کہ ڈھائی تین سال بعد وہ بھی اتنا کے پاس چلے گئے۔ اللہ ہی کو معلوم کہ وہاں ان کی ملاقات انا سے ہوتی ہے یا نہیں۔ انا اور انی کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا، ابی آگ تھے ،انہا پانی۔ ایک شعلہ تھا، دوسرا شبنم۔ ابی کو پل بھر میں غصہ آجاتا تھا اور وہ جب چراغ پا ہوتے تھے تو سارے گھر کو سر پر اٹھا لیتے تھے اور انا کو تو جیسے غصہ آتا ہی نہ تھا اور بھی آتا تھا تو وہ خاموش ہو جاتے تھے، سر جھکا لیتے تھے۔ اتنا خوش پوش تھے، تو ابی کو کپڑوں کی ذرا پروانہ تھی۔ جب دیکھو ایک قمیض اور لنگی میں ملبوس، بس تہواروں اور شادی بیاہ کے موقع پر پاجامہ کرتہ پہنتے تھے۔ ورنہ ایسے رہتے تھے کہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور دکھائی دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے اسکول کے زمانے میں، میں بہت فیشن ایبل ہوتا تھا۔ ایک دن میرے اردو کے استاد نے طنزیہ لہجے میں کہا ”اپنے چچا کو دیکھا ہے، کیسے رہتے ہیں اور کیسے کپڑے پہنتے ہیں اور ایک ذرا تم اپنے آپ کو دیکھو“۔

مجھے بڑی شرم آئی، کیونکہ ہم جماعت بننے لگے تھے لیکن میں نے فیشن ترک نہ کیا۔ اب عمر کی چالیسویں حد عبور کرتے ہوئے میں بالکل ابی جیسا ہو گیا ہوں۔ میری بیوی اور بیٹیاں کہتی ہیں ” آپ کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے کپڑوں کی بالکل بھی پروا نہیں “۔

بچپن میں، میں پہنے اوڑھنے کے معاملے میں اتبا جیسا تھا اور عمر جیسے جیسے گزرتی جارہی ہے، میں ابی جیسا ہوتا جا رہا ہوں۔ ہاں تو میں اتا اور ابی کی اٹوٹ محبت کے بارے میں بتارہا تھا۔ جب دونوں بھائیوں کی شادی کا مرحلہ آیا تو ابی نے کہا ہم دونوں بھائی، دو سگی بہنوں کو بیاہ کر لائیں گے تاکہ ہم ساتھ ساتھ رہ سکیں ورنہ ہماری بیویاں ہمیں جدا کر دیں گی۔ اس طرح اماں اور امی جو سنگی بہنیں ہیں، باری باری بیاہ کر کے گھر لائی گئیں۔ یہ سن کر آپ ہنسیں گے کہ ان دونوں بہنوں میں کبھی بھی نہیں بنی، لیکن چونکہ بہنیں تھیں، اس لیے ایک چھت کے نیچے گزارا ہو گیا۔

ایا اور ابی کتابوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ شہر میں دوا کا نہیں تھیں۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم والی دکان پرانی بیٹھا کرتے تھے اور شہر کے بازار میں واقع دکان کا کار و بار اباد یکھا کرتے تھے۔ ابی بہت محنتی تھے۔ صبح پانی بیچے جب ہر طرف اندھیرا ہوتا تھا، اٹھ جاتے تھے۔ گائے کے لیے چارہ کاٹتے، اسے چارہ دیتے ، اس کا دودھ دوہتے اور پھر اسٹیشن چلے جاتے، کیونکہ اخبارات کی ایجنسیاں بھی ان کے پاس تھیں۔ کراچی اور ڈھاکہ سے اخبارات کے جو بنڈل آتے، انہیں اپنے ہاتھوں سے ہاکروں میں تقسیم کرتے۔ کبھی کوئی با کر کم پڑ جاتا تھا تو سائیکل پر رکھ کر خود ہی اخبار تقسیم کرنے نکل کھڑے ہوتے۔ تفریح وغیرہ کا ان کی زندگی میں کوئی گزر نہ تھا۔ رات گئے واپس گھر۔۔۔جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2025

Loading