شاہکار افسانہ ابا جان
تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شاہکار افسانہ ابا جان۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود)بات ہے۔ میں نے تمہار انحط پڑھ لیا ہے۔ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ میں تو اسے اپنے ہاتھوں سے پوسٹ کروں گا۔ تم سے غلطی یہ ہوئی کہ تم نے ہمیں نہیں بنایا اور کارڈ پر اسکول کا پتہ دے دیا۔ یاد رکھو، کبھی کوئی کام پوشید در کچھ کر نہ کرو“۔ ان کی باتوں سے مجھ میں غیر معمولی اعتماد پیدا ہو گیا۔ ان کا سکھا یا ہوا سبق آج تک مجھے یاد ہے۔ یہ واقعہ انا کے علم میں بھی آیا، لیکن انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ انہیں بچوں سے بہت پیار تھا۔ مجھے ایک واقعے کے سوا انہوں نے کبھی نہیں ماردہوا یہ تھا کہ میں محلے کے کسی غریب بچے کی پٹائی کر کے گھر آکر پچھپ گیا تھا۔ اس کی ماں شکایت لے کر گھر پہنچ گئی۔ ابا کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس عورت کے سامنے مجھے مارا اور بہت بری طرح سے مارا۔ جب مارتے مارتے تھک گئے تو مجھے اس عورت کے حوالے کر دیا، یہ کہہ کر ا گر آپ اسے مارنا چاہتی ہیں تو میری طرف سے پوری اجازت ہے۔ اماں چھڑانے آئیں تو انہیں ڈانٹ دیا۔ میں اس پٹائی پر حیران تھا کیوں کہ ابا تو کبھی مارتے ہیں نہ تھے، شاید مار نا جانتے بھی نہ تھے۔ لیکن اس دن وہ بدلے ہوئے انہا تھے۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ انا کو مقصہ اس بات پر آیا تھا کہ میں نے ایک غریب عورت کے غریب بچے پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ آیا کو غریبوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ عید کے دن کسی نہ کسی غریب بچے کو گھر لے آتے، اسے اپنے ہاتھوں سے نہلاتے، نئے کپڑے پہناتے اور ایسا کر کے وہ خوشی سے نہال ہو جاتے تھے۔
رمضان کے آخری ہفتے میں وہ غریبوں اورضرورت مندوں میں نئے کپڑے تقسیم کرنا شروع کر دیتے تھے اور عید کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حالانکہ ابا میرے نزدیک کنجوس تھے۔ اس لیے کنجوس تھے کیونکہ ایک دن وہ بستر پر ڈھیروں نوٹوں کی گڈیاں اور ریزگاری پھیلائے بیٹے تھے۔ وہ نوٹوں کو گنتے جاتے اور ایک طرف رکھتے جاتے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے ریز گاری میں سے ایک چوٹی اٹھائی اور میرے حوالے کر دی۔
چوٹی اس زمانے میں اہمیت بھی رکھتی تھی، لیکن مجھے یہ رقم بہت کم لگی اور میں نے دل میں سوچا کہ ابا کنجوس ہیں۔ ایسا سوچتے ہوئے میں اُن دنوں کو بھول گیا جب انا میرے اسکول کھانے کے وقفے کے دوران آتے تھے اور اپنے ہمراہ انواع اقسام کے پھل وغیرہ لاتے تھے، ان پھلوں کو وہ اپنے ہاتھوں سے چھیل چھیل کر مجھے کھلاتے تھے اور مجھے بڑی شرم آتی تھی۔ میں حیا سے زمین میں گڑا جاتا تھا کہ دوسرے بچے کیا سوچیں گے۔ ان کے ابا تو آ کر اسکول میں ان کی تواضع نہیں کرتے ۔ پھر میرے انا ایسا کیوں کرتے ہیں ….؟ میرا معصوم ذہن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے پاتا تھا اور میں دعا کرتا تھا کہ انا اسکول نہ آئیں اور میرے لیے پھل وغیر ہ نہ لائیں۔
ابا کی باتیں کہاں تک یاد کروں۔ ایسے شفیق اور محبتی اباد نیا میں نہ ہوں گے ۔ اماں سے بھی انہیں ایسی ہی محبت تھی۔ ان کے لیے رات گئے واپسی پر پھولوں کے گجرے خرید کر لاتے۔ صبح میری آنکھ ان ہی پھولوں کی خوشبو سے کھلتی جو سرہانے پڑے مبک
رہے ہوتے۔ابی ماشاء اللہ سے کثیر العیال تھے۔ چھ سات بیٹیوں پر فقط ایک بیٹا تھا اور ہم دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ دونوں بھائی بچوں میں کوئی فرق و امتیاز نہیں کرتے تھے۔ میری خالہ جنہیں میں امی کہتا تھا، اپنے بیٹے کو بہت چاہتی تھیں، ویسا لگاؤ نہیں مجھ سے نہ تھا۔ جب کہ انی مجھ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ بچپن میں، میں ایک بار ایسا بیمار پڑا تھا کہ بیچنے کی امید نہ رہی تھی۔ بدن کا خون چرا کر رہ گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا خون دینا پڑے گا۔ تب ابی نے مجھے خون دیا۔ بعد میں ، میں یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ میرے جسم میں میرے پیارے ابی کا خون دوڑ رہا ہے۔
انا اور ائی کے ایک اور بھائی تھے جنہیں ہم بچے، چھوٹے ابا کہا کرتے تھے۔ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور میرے ہوش سنبھالنے تک وہ آدھے ڈاکٹر بن چکے تھے۔ چھوٹے آبا، دادا، داد کی اور اپنے بھائیوں کی آنکھوں کا تارا تھے۔ ان کے بارے میں بھی پھر آپ کو بتاؤں گا کیونکہ وہ ایک زمانے تک میرے آئیڈیل رہے تھے۔ چھوٹے اپاڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے کراچی چلے گئے تھے۔ کراچی جانے سے پہلے وہ کچھ عرصہ ڈھا کہ میں مقیم رہے۔
انا جب بھی بیماری ہوتے تو وہ ڈھا کے چھوٹے انا کے پاس چلے جاتے یا پھر پار نقی پور، جہاں ایک ڈاکٹر معین الدین بہت اچھے ڈاکٹر تھے ، ان کی انتہا سے گہری دوستی ہو گئی تھی، ان ہی کے گھر رہتے، غالباً وہ ابا سے کوئی فیس و غیر ہ بھی نہیں لیتے تھے۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے ایک سال قبل ابا کراچی گئے۔ چھوٹے ابا کراچی منتقل ہو چکے تھے اور ایئر پورٹ پر ہیلتھ آفیسر تھے۔ دادی بھی ان کے ساتھ تھیں لیکن دادا ہم لوگوں کے ساتھ تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ یہاں چھوٹے ابا کی شادی ملے پائی۔ راج شاہی سے کراچی کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ ہوائی جہاز کا کرایہ بھی خاصا بن جاتا تھا۔ چنانچہ ہم سب کی نمائندگی اتم نے کی اور وہ شادی میں شرکت کے لیے کراچی پہلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے پھلوں کا ایک ٹوکرا بھیجوایا۔ تحفے تحائف بھی ہم سب کے لیے کیجے۔ مجھے یاد ہے جس صبح انہیں سفر در پیش تھا، اس رات انہوں نے مجھے ہلوایا، میں سو رہا تھا، آنکھیں ملتا ہوا اٹھا، ابا نے مجھے دیکھا تو پیار سے کہا:
کل صبح میں کراچی جارہا ہوں، بتاؤ تمہارے لیے کیا لے کر آؤں ….؟
میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، کیا جواب دوں۔ خاموش رہا۔ وہ میرے لیے کچھ بھی تو نہیں لاسکے۔ ان کے جانے کے غالباً ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی ایک دو پیر ٹیلی گرام موصول ہوا۔ وہ دنیا سے چلے گئے تھے۔ گھر میں اس جانکاہ اطلاع سے کہرام مچ گیا لیکن میں بالکل نہیں رویا۔ رویا اس وقت جب اپنی نے سینے سے لگا کر ایک آہ بھری آواز میں کہا ” بیٹا! میں تیراہا۔ میں اتنی کے سینے سے چمٹ گیا اور شہدا کا بندھن ٹوٹ گیا۔ اتنی بار بار یہی کہتے رہے ” نہ رو بینا!
میں تیر ابا“۔ابا کراچی میں منوں مٹی تلے دفنا دیے گئے اور میں آخری بار ان کا چہرہ دیکھنے کی آس دل میں چھپائے آنسو بہاتا رہا۔ ان کا انتقال 27 رمضان المبارک شب قدر کو ہوا۔ وہ ہر رمضان کو اسی شام دعوت افطار کا گھر یر اہتمام کرتے تھے جس میں دوستوں، عزیزوں اور محلے والوں کو مد عو کرتے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سے جیسے سارا شہر گھر میں امڈ آیا ہو۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2025