شمع فروزاں | عبدالله جان جمالدینی
کتاب: شاہ محمد مری
ترتیب و تدوین۔۔۔ عابد میر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شمع فروزاں | عبدالله جان جمالدینی۔۔۔ ترتیب و تدوین۔۔۔ عابد میر )طوالت کے باعث مضمون دو حصوں میں شئیر کیا جائے گا (حصہ اول) شاہ محمد کا کہنا ہے کہ وہ ساتویں کلاس میں اپنے گاؤں سے کئی میل دورڈ کی کے ہائی سکول میں پڑھ رہا تھا، اور یہ ۱۹۶۷ء کا سال تھا کہ اس کے والد کو قتل کر دیا گیا۔ یہ نہ قبائلی دشمنی تھی اور نہ ہی جائیداد کا جھگڑا تھا، بلکہ فکر و عمل کا اختلاف تھا۔ اس کے والد حاجی محمد مراد مرحوم ایک دین دار انسان تھے، اور اپنے لوگوں کو علم سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے علاقے میں سکول ، ہسپتال اور سڑکیں بنوانا چاہتے تھے۔ اور کچھ لوگ ان کے اس عمل کو پسند نہیں کر رہے تھے۔
حاجی مراد کا قصور بس اتنا ہی تھا۔ وہ علم کی شمع روشن کرنا چاہتے تھے۔ اس کی پاداش میں انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حاجی محمد مراد صوفی منش انسان دوست ، اور علم دوست انسان تھے۔ قبائلی معاشرے کی ان قوتوں نے انہیں راستے سے ہٹا دیا جو قبائلی عوام کو علم سے بے بہرہ اور دور رکھنا چاہتی تھیں۔ ان قوتوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ قبائلی عوام بے خبر اور گنوار ر ہیں تا کہ یہ با اختیار لوگ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔
شاہ محمد کی عجب طبیعت ہے کہ وہ اپنے بارے میں ، اپنے اجداد اور بزرگوں کے کے بارے میں کبھی نہیں بولتا۔ حالانکہ یہ عادت اکثر لوگوں میں ہوتی ہے۔ اپنے بارے میں تو میرا یہی خیال ہے۔ ہے بے بختی یہ شاہ محمد کا تکیہ کلام ہے، جو مجھے پسند ہے اس کے معنی ہیں، سانحہ، بد قسمتی ۔ جب کوئی بات یا واقعہ شاہ محمد کو اچھا نہ لگے تو وہ یہ تکیہ کلام استعمال کرتا ہے۔ ) شاہ محمد کو قدرت نے اپنے والد کے اس انسان دوستانہ اور نیک مشن کو جاری اور زندہ رکھنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہمیں فطرت کے اس عمل کا احسان مند ہونا چاہیے۔
شاہ محمد نے خود بھی بہت اعلیٰ اور اچھی تعلیم ، نیز اچھے انسانوں کی سر پرستی میں صحیح تربیت و پرورش حاصل کی ۔ ان اچھے انسانوں کے علاوہ اپنے برادر بزرگ میر میر و خان مری کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اس کے اچھائی کے عمل میں کبھی بھی مخل نہیں ہوئے ۔ یوں وہ اور اس کے خاندان کے دیگر افراد علم کے زیور سے بہرہ ور ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
اب تو شاہ محمد کا گاؤں علم کا گہوارہ بن رہا ہے۔ اس نے اپنے والد حاجی محمد مراد شہید کے نام سے گاؤں میں ایک بڑی لائبریری اور مطالعہ گاہ قائم کی ہوئی ہے۔
تعلیم سے فارغ ہو کر شاہ محمد نے کئی اچھے کام کیے ہیں۔ اس نے نو عمری میں نوجوان ڈاکٹروں اور دیگر ترقی پسند انسانوں کو بہت متحرک کرنے کی کوشش کی۔ ترقی اور آگہی اس کا مطمع نظر ہے۔ ڈاکٹروں میں تنظیم کاری کے علاوہ اس نے علم دوست دانشوروں سے رابطہ کر کے ترقی پسند لکھاریوں کو یکجا کرنے میں بڑا گرم جوشی اور محنت سے کام کیا۔
میرا مقصد صرف ڈاکٹر شاہ محمد مری کی تعریف کرنا نہیں (اگر چہ یہ مقصود بھی ہے ) ، میرا نظریہ ہر اچھے عمل کی تعریف کرنا ہے ، خواہ وہ کسی بھی گوشے سے آئے ۔ نیک عمل ہی ایسی چیز ہے، جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ میں عمل کرنے والے کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھتا۔ صرف اس کا نتیجہ اور مقصد منظور نظر ہوتا ہے۔ نیک عمل میں اسے سمجھتا ہوں جو انسان کی بھلائی، ترقی اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا جائے۔ میں جب سے شاہ محمد کے قریب ہوں، مجھے اس کا ہر عمل اس مقصد کے لیے معلوم ہو رہا ہے۔ میں نے اسے کبھی اپنی تعریف کرتے نہیں سنا۔ میرے نزدیک وہ نہ شہرت طلب انسان ہے، نہ جاہ طلب۔ ان چیزوں سے وہ دور ہے ۔ جو لوگ نیک مقصد کے لیے کام کرتے ہیں ، وہ اپنی شہرت کے طلب گار نہیں ہوتے۔
شاہ محمد میری نگاہ میں ، اس پسماندگی ، جہالت اور بے بختی کے ماحول میں ایک شمع فروزاں ہے، ایک روشن قندیل ( عین ممکن ہے، اور چین لفظ Candle شاید اسی یورپی لفظ سے آیا ہو ) میرے خیال میں وہ ایک مسلسل جلتا چراغ ہے، اور زندگی کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے۔
شاہ محمد نے ( روشنی کے ( اس عمل کو پھیلانے اور آگے بڑھانے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے اچھے لوگوں کے ساتھ اشتراک عمل کیا۔ ڈاکٹر امیرالدین مرحوم، پیارے دوست شیام کمار اور سرور خان کے ساتھ مل کر بہت کچھ کیا ہے۔ کئی برسوں سے ترقی پسنداد بیوں کا اتحاد اور تقریبات۔ کراچی کے دانشوروں ، ادیبوں اور قلم کاروں سے مل کر انہیں کوئٹہ بلا کر تقریبات منعقد کیں۔ حقوق انسانی کی محترم جدو جہد کرنے والی نامور شخصیات کو بلوا کر بلوچستان میں اس تحریک کو بڑھانے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری اور ترقی پسند خیالات رکھنے والے اس کے دیگر دوستوں نے ڈاکٹروں میں ترقی پسند گروپ منظم کرنے کی کوشش کی ۔ جگہ جگہ میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا۔ الغرض شاہ محمد انسانوں کی خدمت میں ہمیشہ اور ہمہ تن مصروف رہا ہے۔ اور اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے۔ خدا اسے لمبی عمر دے۔ بڑا دکھ تو یہ ہے کہ اس کے نہایت ہی نیک، قابل اور ہمہ تن کام میں مگن ساتھی ڈاکٹر امیر الدین ان سب ہم خیال دوستوں اور خصوصاً شاہ محمد کو تنہا چھوڑ کر موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے؟ ہے بے بختی کیا کیا جا سکتا ہے!
ڈاکٹر شاہ محمد مری کو اپنے نیک اور دانش مند والد کی محبت تو کم ہی نصیب ہوئی۔ کم عمری میں ہی والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔ البتہ نیک ، سادہ اور رحم دل ماں کی محبت اور مامتا سے وہ وابستہ رہے۔
میں نے شاہ محمد سے ان کے قلمی نام شان گل کے بارے میں پوچھا کہ کیا تمہارے کام کی نسبت سے تمہیں شان گل کہا جاتا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ میری والدہ شاہ بول سکتی تھی مگر محمد نہیں، کیونکہ ان کے خاوند ( شاہ محمد کے والد ) کا نام محمد مراد تھا، اور مشرقی بلوچستان میں خواتین اپنے شوہر کا نام نہیں لیتیں ۔سو، رواجاً محمد کہنا ان کے لیے ممنوع ٹھہرا۔ لہٰذا انہوں نے دوسرا پیارا نام گھڑا: شان گل ۔ وہ بچپن سے ہی پیار سے مجھے اس نام سے پکارتی تھیں ۔ سو، یہ ان کی محبت کی نشانی ہے۔ اس لیے میں نے ایک مقدس کاز اور عمل سے اس نام کو وابستہ کیا، یعنی تحریر کے مقدس کام ہے۔ اور اب تک میں جگہ جگہ اس نام کو استعمال کر رہا ہوں ۔ ضیا الحق کے مارشل لا میں اس نام سے بہت تحریریں لکھیں۔
شاہ محمد کے بچپن کو تصور میں لاتے ہوئے اور اس کے موجودہ عمل کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں جب اس کے والد کی شاہد ہوئی تھی اور وہ بچہ تھا تو اُس نے اس واقعہ کو یقین نہایت درد و الم سے محسوس کیا ہوگا۔ پھر شعور کے ارتقا کے ساتھ ساتھ وہ سوچتا ہو گا کہ اس شہادت کو کس طرح اپنے عمل اور زندگی کا حصہ بنایا جائے ۔ تب اسے سکول میں اور بعد ازاں علامہ اقبال کی کتاب بانگ درا کو پڑھتے ہوئے اُن کی مشہور نظم بچے کی دعا پسند آئی ہو گی ۔ تب وہ یوں سوچتا اور بولتا ہوگا۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب میرے اللہ ہر برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس راہ پر چلانا مجھ کو
پس یہ نظم اس کی زندگی کا نصب العین بن گئی۔ یوں بھی شاہ محمد علاہ اقبال کو خوب پڑھتا ہے۔
جب اس کی والدہ فوت ہوئی تو ‘بانگ درا سے علامہ اقبال کی طویل نظم والدہ محترمہ کی یاد میں کو سنگت کے صفحات پہ چھاپ کے اس نے اپنے غم کا اظہار کیا۔ اس نے مجھے بھی کلیات اقبال ، تحفتاً دی تھی۔
شاہ محمد خوش قسمت ہے کہ اسے چار سال لاہور کے علمی، ادبی اور سیاسی ماحول میں زندگی
گزارنے کا موقع ملا۔ وہ اچھے انسانوں اور دانشوروں کی صحبت میں رہا۔ اس نے اس صحبت سے کما حقہ استفادہ کیا۔ خصوصاً محترم می آراسلم اور مظلمی فرید آبادی کی صحبت سے۔ انہی کی رفاقت میں اس نے اچھی اور عظیم صحافت کا پیشہ سیکھا۔ بلکہ کچھ عرصہ ان کے مشہور پر چھے عوامی جمہوریت’ کی ادارت بھی کی ۔ سی آر اسلم اور دیگر احباب ضیا مارشل لا کے دور میں جب جیل میں ڈال دیے گئے تو اپنا پر چہ اس مری بلوچ کے حوالے کر گئے تھے۔ اپنے بے بختی ! طرفہ تماشا دیکھئے ہی آر اسلم کی کمٹمنٹ ، دانش مندی اور انسانی خدمات کے بارے میں مجھے شاہ محمد کے ذریعے ہی معلوم ہوا۔ سیاست دانوں اور خود پسند لیڈروں کی طرح ایک مرض بائیں بازو کے لوگوں اور ترقی پسندوں میں کافی عرصہ تک رہا ہے؛ یعنی ایک دوسرے سے نفرت اور ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ۔ اس وجہ سے سنی سنائی باتوں نے مجھے اس حجر پر تمر اور اچھے انسان سے دور رکھا۔
میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ بڑھاپے اور اس طویل علالت میں مجھے شاہ محمد اور ان کے نیک رفقا کی سنگت نصیب ہوئی، اور زندگی میں ماہنامہ سنگت نصیب ہوا۔ اور میں ماہتاک سنگت اور شمع فروزاں سے وابستہ ہوا، جو ہر طرف روشنی پھیلا رہا ہے۔ اس کے توسط سے اچھے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور فیض حاصل رہا۔
شاہ محمد نے جو راستہ چنا ہے اور جس سمت کو وہ جا رہا ہے، وہ نہایت ہی نیکی کی راہ ہے۔ اس میں وہ سب کو آگہی علم اور روشن خیال کی طرف لے جارہا ہے۔ خدا کرے وہ ہمیشہ زندہ رہے، یہ نیک کام کرتا رہے اور کئی شاہ محمد پیدا کرے۔
ڈاکٹر شاہ محمد نے بہت اچھا کیا کہ اپنے فکر و عمل کو پھیلانے کے لیے تحریر کی راہ اپنائی ہے اور اس کے ذریعے اپنی فکر دوسرے لوگوں بالخصوص نو جوان ادیبوں ، طالب علموں اور دانش وروں میں پھیلا رہا ہے۔
* **
جب سے ڈاکٹر شاہ محمد مری سے قربت نے قربت نصیب ہوئی ہے اور خصوصاً اس کی تالیفات اور تصانیف نظر سے گزری ہیں، میں انہیں بغور پڑھتا ہوں ۔ خصوصاً اس کی صحافیانہ خدمات نوکیں دور اور اب سنگت ، جے میں ہر ماہ نہایت غور اور دلچسپی سے پڑھتا ہوں ، اس لیے مجبور ہوں کہ اس کے بارے میں اپنی
رائے تحریر کروں ۔
ڈاکٹر شاہ محمد میرے خیال میں کوئٹہ اور بلوچستان کا ایک ابھرتا ہوا جینیس ہے۔ یقیناً اس سے اختلاف رکھنے والے میری اس رائے سے متفق نہیں ہوں گے۔ مگر میں اپنے ضمیر اور شعور کے مطابق اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک جینٹس ہے، ایک نابغہ روزگار۔
ماہتاک سنگت اور اس سے پہلے نوکیں دور کی پالیسی نہایت واضح اور ہر دلعزیز رہی ہے۔ سب سے پہلے انسان دوستی ، رواداری ، علم و آگہی کی تشہیر، سائنسی، سماجی علم اور ترقی! نسی ، سماجی علم اور ترقی پسندی کو سماج میں پھیلانا ، مردم آزاری سے گریز ، تنگ نظری ، ہر قسم کی شاؤنزم ( مذہبی نسلی، لسانی ) کے خلاف ، غرض انسانی جد جہد، تجربہ اور سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں آج کل سوشلسٹ ، ترقی یافتہ ، سیکولر، جمہوریت پسند عوام اور مخلوق میں جو انسانی اقدار مقبول ہو رہی ہیں، یہ سنگت کی پالیسی کا حصہ اور مطمع نظر ہیں۔