شوگر اور صحت مندزندگی
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شوگر اور صحت مندزندگی)ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے بہت ے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ شوگر کا کسی وبا کی مانند پھیلنا بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بڑی عمر کے افراد میں شوگر کے مریضوں کی تعداد بیس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جس میں بیشتر خواتین ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر اس مرض کو اچھی طرح سمجھ کر شروع ہی میں کنٹرول کر لیا جائے تو آئندہ آنے والی بہت سی مشکلات میں خاصی کمی ہو سکتی ہے، بصورت دیگر یہ ایک مرض کئی پیچیدگیوں اور بیماریوں کو دعوت دے سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر دس سیکنڈ میں دونئے افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں، جبکہ ہر دس سیکنڈ میں ایک شخص اس مرض کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہا ہے۔ اس مرض کے تدارک کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر جد و جہد کرنا ہوگی تاکہ شوگر کے مرض کو روکنے میں مدد مل سکے۔ اس وقت دنیا میں 24 کروڑ سے زائد افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں اس تعداد میں روز بروزاضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جو جنوبی ایشیاء میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ انٹر نیشنل شوگر فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کےمطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2025ء تک شوگر کے مریضوں کی تعداد تینتس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ شوگر کے مریضوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی بہت بڑی تعداد اپنے مرض سے بے خبر ہے، خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں تو شوگر میں مبتلا بے شمار افراد اس بات سے واقف ہی نہیں ہیں کہ انہیں اس مرض نے آگھیرا ہے، شاید اسی وجہ سے کئی ترقی پذیر ممالک میں شوگر کا مرض اموات کا چوتھابڑا سبب بن چکا ہے۔
ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ شوگر کو معمولی بیماری سمجھ کر نظر انداز بھی کر دیتے ہیں، ماہرین کی نظر میں شوگر کئی بیماریوں کی ماں ہے۔ اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے ہم سب کو انتہائی احتیاط برتنی ہو گی۔
اکثر لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ یہ بیماری صرف شکر یا شکر سے بنی اشیائے خوردنی کا زیادہ استعمال کرنے والوں کو ہوتی ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اکثر مریض ڈر، خوف اور وہم میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو ان غذائی اجزاء سے یکسر محروم کر دیتے ہیں جو ان کی صحت مندی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماری انہیں دل، دماغ، گردوں اور پیروں کی پیچیدگیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔
دنیا میں 24 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، 1985ء میں دنیا میں 3 کروڑ افراد شوگر کے مریض تھے، جو 2000ء میں 15 کروڑ ، 2003ء میں 19 کروڑ 40 لاکھ ہو گئے تھے۔ 22 سال کے دوران شوگر کے مریضوں میں 21 کروڑ سے زائد جبکہ گزشتہ سات برسوں کے دوران 9 کروڑ 60لاکھ یعنی 64 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔
عالمی سطح پر سالانہ 38لاکھ 20 سے 79 سال کے بالغ افراد شوگر اور اس سے ہونے والے امراض کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں، ۔ شوگر دنیا میں ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ شوگر پر تحقیق کرنے والے عالمی اور ملکی اداروں نے جو اعداد و شمار دیے ہیں ان کے مطابق عددی اعتبار سے شوگر کے مرض میں مبتلا سب سے زیادہ بالغ افراد 6 کروڑ 70لاکھ مغربی بحر الکاہل کے ہیں، دوسرے نمبر پر 5 کروڑ 30لاکھ یورپی بالغ باشندے اس موذی مرض کا شکار ہیں، جبکہ فیصدی اعتبار سے مشرقی میڈی ٹرینین اور وسطی مغربی خطے کے 9 اعشاریہ 2 فیصد اور شمالی امریکہ کے 8 اعشاریہ 4 فیصد بالغ افراد شوگر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں ماہرین کی پیشگوئی کے مطابق اگر حالات میں بہتری پیدا نہ ہوئی تو آئندہ 18 برس کے دوران میں غذائی اجزاء سے یکسر محروم کر دیتے ہیں جو ان کی صحت مندی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماری انہیں دل، دماغ، گردوں اور پیروں کی پیچیدگیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔
دنیا میں 24 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، 1985ء میں دنیا میں 3 کروڑ افراد شوگر کے مریض تھے، جو 2000ء میں 15 کروڑ ، 2003ء میں 19 کروڑ 40 لاکھ ہو گئے تھے۔ 22 سال کے دوران شوگر کے مریضوں میں 21 کروڑ سے زائد جبکہ گزشتہ سات برسوں کے دوران 9 کروڑ 60لاکھ یعنی 64 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ عالمی سطح پر سالانہ 38لاکھ 20 سے 79 سال کے بالغ افراد شوگر اور اس سے ہونے والے امراض کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں، ۔ شوگر دنیا میں ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ شوگر پر تحقیق کرنے والے عالمی اور ملکی اداروں نے جو اعداد و شمار دیے ہیں ان کے مطابق عددی اعتبار سے شوگر کے مرض میں مبتلا سب سے زیادہ بالغ افراد 6 کروڑ 70لاکھ مغربی بحر الکاہل کے ہیں، دوسرے نمبر پر 5 کروڑ 30لاکھ یورپی بالغ باشندے اس موذی مرض کا شکار ہیں، جبکہ فیصدی اعتبار سے مشرقی میڈی ٹرینین اور وسطی مغربی خطے کے 9 اعشاریہ 2 فیصد اور شمالی امریکہ کے 8 اعشاریہ 4 فیصد بالغ افراد شوگر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں ماہرین کی پیشگوئی کے مطابق اگر حالات میں بہتری پیدا نہ ہوئی تو آئندہ 18 برس کے دوران میں لگے۔ پیشاب میں شکر کا اخراج اسی وقت ہوتا ہے، جب انسانی خون 62 میں شکر کی مقدار عام سطح سے بڑھ جاتی ہے۔ خون میں بڑھی ہوئی مقدار کو انسانی گردے سہارا نہیں سکتے اور پیشاب میں خارج ہونے سے روکنے میں ناکام ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے بنیادی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شوگر کے سلسلے میں اہم بات دراصل خون میں شکر کی مقدار کا طلبی حد سے زیادہ بڑھ جانا ہی ہے۔ شوگر کے پورے عمل کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا چاہیے کہ انسان کی غذا میں شامل اناج یعنی نشاستہ کاربوہائیڈریٹ یا دیگر پیچیدہ شکریات، نظام ہضم سے گزر کر سادہ شکر یا گلو کوز میں تبدیل ہوتی ہیں۔ یہی وہ سادہ شکر ہے جو جسم کے ہر حصے میں دوران خون کے ذریعے پہنچتی ہے اور وہاں جسم کے لیے توانائی مہیا کرتی ہے۔ نظام ہاضمہ کے دوران شکر کے آنتوں سے خون میں آجانے کے بعد رواں خون سے شکر کا جسم کے خلیات میں پہنچانا نہایت ہی اہم اور پیچیدہ عمل ہے۔ عام حالات میں شکر کے سالمے خلیات میں آسانی سے داخل نہیں ہو سکتے ، تاہم قدرت نے یہ نظام بنایا ہے کہ انسانی جسم میں لبلبہ (Pancreas) ایک ہارمون کا اخراج ضرورت کے مطابق کرتا ہے۔ یہ ہارمون انسولین (Insulin) کہلاتا ہے۔ انسولین کی مدد ہی سے یہ عمل ممکن ہوتا ہے کہ خون میں موجود شکر :
جسم کے خلیات میں آسانی کے ساتھ جاسکے۔ شوگر کے مرض میں انسانی لیلیے (Pancreas) کی کار کردگی متاثر ہوتی ہے اور انسولین کی پیداوار اور اس کی اثر انگیزی میں فرق آ جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ لبلبہ یا تو انسولین نہیں بنارہایا انسولین کم بن رہی ہے یا یہ کہ جس مقدار میں بھی انسولین بن رہی ہے اس کا اثر جسم کے خلیوں پر بھر پور نہیں ہو رہا۔ اس سلسلے میں ایک مثال تو ان مریضوں کی سامنے آتی ہے جن کے جسم میں انسولین کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ان مریضوں کو انجکشن کے ذریعے انسولین لینی پڑتی ہے۔
دوسری مثال ان افراد کی ہے جو موٹاپے کے اثر میں ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد کا لبلبہ صحیح اور وافر مقدار میں انسولین پیدا کرتا ہے لیکن موٹاپے کی وجہ سے ان افراد کے خلیات پوری طرح یہ انسولین استعمال میں نہیں لاسکتے اور اس طرح انسولین کی پیداوار کے باوجود ایسے حضرات شوگر کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موٹے افراد میں اس بیماری سے متاثر ہونے کے امکانات عام افراد۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2019