شہزادہ اور درزی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مصر کے شہر اسکندریہ میں ایک درزی رہتا تھا۔ اس کا نام عبداللہ تھا۔ اس کی دکان میں بہت سے کاریگر کام کرتے تھے۔ ان میں سعود نام کا ایک نوجوان بھی تھا، بہت خوب صورت اور لمبا تڑنگا۔ پتا نہیں اس کے ماں باپ کون تھے۔ عبداللہ نے اسے بچپن سے پالا تھا اور اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا۔
سعود میں جہاں بہت سی اچھائیاں تھیں، وہاں ایک برائی بھی تھی۔ اسے اپنی خوب صورتی پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ کسی بادشاہ کا بیٹا ہے۔ بس سوتے جاگتے یہی سپنے دیکھا کرتا۔
ایک دن مصر کے بادشاہ کا وزیر اسکندریہ آیا۔ عبداللہ بڑا نامی درزی تھا۔ بڑے بڑے امیر اور سرکاری افسر اس سے کپڑے سلواتے تھے۔ وزیر نے اسے محل میں بلوایا اور کہا: “ہمارے چغے کا دامن تھوڑا سا پھٹ گیا ہے۔ اسے اس طرح رفو کرنا کہ کوئی پہچان نہ سکے۔” عبداللہ چغہ لے کر دکان پر آیا اور سعود کو رفو کرنے کے لیے دے دیا، کیونکہ تمام کاریگروں میں وہی سب سے ہوشیار اور تجربہ کار تھا۔
دکان کی چابیاں سعود کے پاس رہتی تھیں۔ صبح کے وقت وہی دکان کھولتا اور شام کو وہی بند کرتا۔ اس دن شام کو جب سب کاریگر چلے گئے اور سعود دکان بند کرنے لگا تو اس کے دل میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے سوچا، “چغہ پہن کر دیکھوں تو سہی کیسا لگتا ہوں!” اس نے کھونٹی سے چغہ اتارا اور پہن کر آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ خوب صورت تو تھا ہی، چغے نے اس کے حُسن میں چار چاند لگا دیے۔
“میں شہزادہ ہوں! میں سچ مچ شہزادہ ہوں!” اس نے دل میں کہا، “میرا باپ ضرور کوئی بادشاہ ہے۔ میں اسے تلاش کروں گا، چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو۔” اس نے آڑے وقتوں کے لیے کچھ روپے بچا کر رکھے تھے۔ وہ جیب میں ڈالے اور راتوں رات اسکندریہ سے رخصت ہو گیا۔
وہ جس بستی سے گزرتا لوگ تعجب کرتے۔ سوچتے اتنا بڑا آدمی اور پیدل جا رہا ہے! سعود تاڑ گیا کہ لوگ اسے دیکھ کر حیرت کیوں کر رہے ہیں۔ اس نے اگلے گاؤں میں پہنچ کر ایک مریل سا گھوڑا خریدا اور اس پر سوار ہو کر آگے چل دیا۔
تھوڑی دور ہی گیا ہو گا کہ ایک گھڑ سوار ملا۔ بیس بائیس برس کی عمر، چندے آفتاب، چندے ماہتاب۔ اس نے سعود کو بتایا کہ میرا نام ہاشم ہے اور میں مصر کے ایک پاشا یوسف کا بھتیجا ہوں۔ سعود نے بھی اسے کچھ ایسی ہی باتیں بتائیں اور وہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔
شام کو وہ ایک قصبے کی سرائے میں ٹھہرے۔ کھانا کھا کر سونے لگے تو ہاشم نے ایک عجیب بات بتائی۔ اس نے کہا: “یوسف پاشا کا انتقال ہو چکا ہے۔ مرتے وقت انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ تم میرے بھتیجے نہیں، بلکہ ملک لیبیا کے بادشاہ کے بیٹے ہو۔ تمہارے پیدا ہونے سے پہلے نجومیوں نے بادشاہ کو بتایا تھا کہ جب یہ بچہ پیدا ہو تو اسے اس وقت تک نہ دیکھنا جب تک وہ بائیس سال کا نہ ہو جائے۔ اس سے پہلے اگر آپ نے اسے دیکھا تو وہ مر جائے گا۔”
بادشاہ کو دُکھ تو بہت ہوا مگر کرتا بھی کیا! یوسف پاشا اس کا بچپن کا دوست تھا اور مصر کے دارالسلطنت قاہرہ میں رہتا تھا۔
“میرے والد نے مجھے پیدا ہوتے ہی پاشا کے پاس بھیج دیا اور اس نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ اس نے مرنے سے پہلے مجھے بتایا کہ تم اس سال رمضان کی چار تاریخ کو پورے بائیس سال کے ہو جاؤ گے۔ اس دن تم السراج کے مقام پر جانا جو اسکندریہ سے چار دن کے فاصلے پر ہے۔ وہاں کچھ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ انہیں تم یہ خنجر دکھانا اور کہنا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے۔”
“وہ خنجر کہاں ہے؟” سعود نے جلدی سے پوچھا۔
“میری پیٹی میں،” ہاشم نے جواب دیا۔
یہ عجیب و غریب کہانی سن کر سعود کے دل میں لالچ نے گھر کیا۔ اس نے سوچا، “کاش! میں اس کی جگہ ہوتا۔ اب یہ تو کچھ دنوں میں ایک سلطنت کا وارث بن جائے گا اور میں یوں ہی جوتیاں چٹخاتا پھروں گا۔”
سعود نے ہاشم کی طرف دیکھا جو بے خبر پڑا سو رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک خطرناک خیال آیا۔ وہ چپکے سے اٹھا، ہاشم کی پیٹی سے خنجر نکالا اور اس کے گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔
اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی اور سعود کو چار تاریخ تک السراج کے مقام پر پہنچنا تھا۔ لیکن وہ ہاشم کے تیز رفتار گھوڑے پر تیسرے ہی دن رات کو وہاں پہنچ گیا۔ یہاں چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور بیچ میں ایک میدان تھا جس میں کہیں کہیں کھجور کے درخت تھے۔ سعود نے ایک درخت کے نیچے گھوڑا باندھا اور پیر پسار کر سو گیا۔
دوسرے دن صبح کو گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔
۔ سعود ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد پندرہ بیس گھڑ سوار میدان میں آئے اور ایک درخت کے پاس ٹھہر گئے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا جس کی پگڑی میں ایک بہت بڑا لعل جگمگا رہا تھا۔ وہ سب سے آگے تھا اور باقی سب لوگ ادب سے اس کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ سعود نے سوچا یہی بادشاہ ہے۔ وہ دوڑتا ہوا اس کے پاس گیا، جھک کر تین دفعہ سلام کیا اور بولا: “میں ہی وہ شخص ہوں جس کی حضور کو تلاش ہے۔ یہ رہا میرا خنجر۔”
بادشاہ نے خنجر دیکھا اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر سعود کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ عین اسی وقت کسی شخص کی دور سے آواز آئی، “ٹھہرئیے! ٹھہرئیے!” سعود نے سر اٹھا کر آواز کی طرف دیکھا تو اس کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ ہاشم اس کے مریل گھوڑے پر سوار چلا آ رہا تھا۔
“یہ شخص مکار ہے، دھوکے باز ہے،” ہاشم چیخ کر بولا، “اصل شہزادہ میں ہوں۔”
بادشاہ کے سپاہی حیرت سے آنکھیں پھاڑے کبھی ہاشم کو دیکھتے اور کبھی سعود کو۔ آخر ان کی نگاہیں بادشاہ کے چہرے پر جم گئیں کہ دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ بادشاہ نے غصے سے ہونٹ کاٹا اور کڑک کر بولا: “یہ نوجوان پاگل معلوم ہوتا ہے۔ اسے گھوڑے کی پیٹھ سے باندھ دو۔ ہم اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور ایسی سزا دیں گے کہ اس کی سات پشتیں یاد رکھیں گی۔”
حکم کی دیر تھی، سپاہیوں نے ہاشم کی مشکیں کس دیں اور گھوڑے کی پیٹھ پر اوندھا لٹا کر رسیوں سے باندھ دیا۔ دو دن اور دو راتوں کے سفر کے بعد بادشاہ اپنے ملک لیبیا کی سرحد میں داخل ہوا۔ سعود بڑی شان سے گھوڑے پر بیٹھا بادشاہ کے پہلو میں چل رہا تھا اور ہاشم گھوڑے سے بندھا پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔
تمام گاؤں، قصبے اور شہر دلہن کی طرح سجائے گئے تھے۔ گلی کوچوں میں جھنڈیاں لگی تھیں اور چوکوں میں خوب صورت دروازے لگے تھے۔ شاہی جلوس جدھر سے گزرتا، لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے۔
شاہی محل میں ملکہ اپنے پیارے بیٹے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ شاہی جلوس محل میں داخل ہوا تو نقارچیوں نے نقارے بجا بجا کر آمد کا اعلان کیا۔ ملکہ مارے خوشی کے ننگے سر، ننگے پیر، دوڑی دوڑی آئی اور بے اختیار سعود کو گلے لگا لیا، مگر یکایک پیچھے ہٹی اور بولی: “نہیں، نہیں! یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔”
“آپ کیا فرما رہی ہیں ملکہ عالیہ؟” بادشاہ نے کہا، “یہی آپ کا بیٹا ہے۔ اسے سینے سے لگا کر کلیجا ٹھنڈا کیجیے۔”
“نہیں!” ملکہ دونوں ہاتھ ہلاتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ عین اسی وقت دروازہ کھلا، ہاشم دربانوں کو دھکے دیتا ہوا اندر آیا اور بادشاہ کے قدموں میں سر رکھ کر بولا: “آپ مجھے اپنے ہاتھ سے قتل کر دیجیے۔ میں اب زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔”
بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے کہا: “اس پاگل کو کس نے چھوڑ دیا ہے؟ پکڑ لو اسے اور زنجیروں میں جکڑ کر کال کوٹھڑی میں بند کر دو۔ کل صبح ہم اس کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔”
“ٹھہرئیے!” ملکہ آگے بڑھ کر بولی، “میں نے اس نوجوان کو پہلی دفعہ دیکھا ہے مگر پتا نہیں کیوں میرا دل اس کی طرف کھنچا جا رہا ہے۔ میری ممتا کہہ رہی ہے کہ یہی میرا بیٹا ہے۔”
“یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟” بادشاہ بولا، “السراج کے مقام پر یہی نوجوان مجھے ملا تھا اور وہ نشانی دکھائی تھی جو میں نے یوسف پاشا کو دی تھی۔”
ہاشم نے کہا: “جب میں سو رہا تھا تو اس دھوکے باز نے وہ خنجر پیٹی سے نکال لیا اور میرے گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ گیا۔” “یہ غلط ہے، عالی جاہ!” سعود بولا، “یہ شخص اسکندریہ کا ایک معمولی سا درزی ہے اور آپ کا بیٹا بن کر تاج و تخت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔”
بادشاہ سر پکڑ کر بولا: “کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔”
“حضور، یوسف پاشا ہی سے کیوں نہیں معلوم کر لیتے؟” ملکہ نے کہا۔
“وہ مر چکا ہے،” بادشاہ نے جواب دیا۔
“ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے،” ملکہ نے کہا، “حضور مجھے تین دن کی مہلت دیں، ان شاء اللہ میں ثابت کر دکھاؤں گی کہ ہمارا اصلی بیٹا کون ہے۔”
ملکہ نے زنان خانے میں آکر بہت سوچا، بہت مغز کھپایا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
ملکہ کی ایک منہ چڑھی باندی فرحت، بہت عقل مند اور ہوشیار تھی۔ اس نے ہاتھ باندھ کر کہا: “ملکہ عالیہ، اجازت دیں تو بندی کچھ عرض کرے۔”
“اجازت ہے،” ملکہ نے کہا۔
“حضور، ان نوجوانوں کی گفتگو سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ان میں سے ایک شہزادہ ہے اور دوسرا درزی ہے۔”
“لیکن ہم یہ کیسے ثابت کریں گے؟” ملکہ نے پوچھا۔
“میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ تنہائی میں عرض کروں گی۔”
جاری ہے۔
اس تحریر کے لکھاری کو میں نہیں جانتی
البتہ تحریر آپ کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ 🍂✒️
![]()

