Daily Roshni News

“شہید کربلا حضرت جون بن حویؑ”

“شہید کربلا حضرت جون بن حویؑ”

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وہ کیسا منظر ہوگا جب مدینہ چھوڑنے سے قبل ایک ٧٠ سالہ ضعیف سیاہ فام شخص نے امام حسین علیہ السلام سے درخواست کی ہوگی کہ وہ بھی ان کے ہمراہ کوفہ جانا چاہتا ہے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اُس شخص سے کہا ہوگا کہ آپ نے اہل بیت علیھم السلام  کی بہت خدمت کرلی اب آرام کیجئے۔ جب اُس سیاہ فام شخص نے بھرائی آواز میں کہا ہوگا کہ جانتا ہوں آپ مجھے کیوں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے، اس لیے کہ میں سیاہ فام ہوں۔ اور جب امام حسین علیہ السلام نے آگے بڑھ کر اس ستر سالہ شخص کی پیشانی کا بوسہ لیکر اسے سینے سے لگایا ہوگا۔ میرا دل کہتا ہے کہ دیکھنے والوں کو حسینؑ کے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور بلال رض کی یاد آگئی ہوگی۔

۔

یہ جون بن حویؑ تھے، کربلا کے منور و معطر شہید۔ صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مولا علیؑ کے وفادار۔ اُنہوں نے حبشہ میں اسلام قبول کیا، ہجرت کرکے مدینہ آئے اور امام علیؑ کی غلامی اختیار کی۔ امام حسنؑ و حسینؑ کا ساتھ پایا، امام علیؑ نے اُنہیں ابوذرؑ کے سپرد کیا،  ابو ذر غفاریؑ کے قرب میں رہے، یہاں تک کہ اُن ہی ساتھ جلاوطن کرکے شام بھیجے گئے اور کلمہ حق کی پاداش میں ایک بار پھر جبل الامل نامی پہاڑی قصبے میں جلاوطن کیے گئے۔ موجودہ لبنان میں موجود جبل الامل کا علاقہ آج محبان اہلیبیتؑ کا مرکز ہے، جب کسی عالم کے نام کے ساتھ الآملی لکھا دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ یہ ابوزرؑ اور جونؑ کی محنت ہے، شیخ حُر الآملیؒ کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا؟

جونؑ اور ابوذرؑ کے تعلق کو بیان کرنے کیلئے اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی کہ زیارتِ ناحیہ میں جونؑ اور ابوذر غفاریؑ کا نام ایک ساتھ آیا ہے۔ گویا جونؑ وہ ہستی ہے جس نے کربلا میں اپنے آقا اپنے دوست ابوذر غفاریؑ کی نیابت بھی کی۔

۔

جون بن حویؑ کا ابوذر غفاریؑ کے ساتھ تعلق ابوذرؑ کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ختم ہوگیا۔ ابوذر غفاریؑ جیسا جلیل القدر صحابی رسولؐ جس کے تقوے کو رسولِ خداؐ نے عیسیؑ کے تقوے سے تشبیہ دی، وہ اس قدر مظلومانہ انداز سے شہید کیوں ہوا، اس کا سوال “صحابہ دے نوکروں” کو ضرور دینا چاہئے، ہم شیعہ عرض کرتے ہیں تو رافضی کہلاتے ہیں۔

۔

آپ جون بن حویؑ کی عظمت دیکھیے۔ حبشہ میں مسلمان ہوئے، ہجرت کرکے رسولِ خداؐ کی خدمت میں مدینہ آئے، امام علیؑ کے ساتھ رہے اور ابوذرؑ کی ہمراہی میں شام اور جبل الامل سے ہوتے ہوئے ساٹھ ھجری میں دوبارہ امام حسینؑ کے سامنے اس انداز سے آکھڑے ہوئے کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ میرا آقا ابوذرؑ تو شہید ہوچکے، میں یقینا اسی لیے زندہ ہوں کہ آپ کے ساتھ شہید ہوسکوں۔

یہ ستر سالہ بوڑھا جب گھوڑے سے گرا تھا تو اپنے سر کو امام حسینؑ کے زانو پر پایا تھا۔ وہ جونؑ جس نے مدینہ میں امام حسینؑ سے شکوہ کیا تھا کہ شاید آپ مجھے اس لیے نہیں لے جانا چاہتے تھے کہ میں سیاہ فام ہوں، میرے پسینے سے بدبو آتی ہے، اُسی جونؑ نے اپنا سر زانوئے حسینؑ پر پایا۔ خدا جانے یہ منطر دیکھ کر بھی کسی کو حسینؑ کے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بلال رض یاد آئے ہونگے یا نہیں؟

یہ وہ موقع تھا جب جونؑ کا سر اپنے زانو پر رکھ کر امام حسینؑ نے وہ تاریخی دعا کی تھی کہ اے پروردگار جونؑ کا چہرہ منور کردے، اس کے پسنے کو معطر کردے۔ کہتے ہیں کہ دعا ختم ہوتے ہی جونؑ کا جسم خوشبو سے معطر ہوگیا تھا، چہرہ نور کی مانند چمک اُٹھا تھا۔ یہ کربلا کا منور و معطر شہید تھا جو حبشہ سے ہوتا ہوا کربلا پہنچا تھا کہ اپنا خون، خون مطھر حسینؑ کے ساتھ شامل کرسکے۔

۔

ضریح امام حسینؑ کے بالکل سامنے، گنج شہیداںؑ میں مدفوں جون بن حویؑ، حُر بن یزید الریاحیؑ کی طرح کربلا کا وہ منفرد و لازوال کردار ہے جو کربلا کو حادثہ اور اقتدار کی جنگ کہنے والوں کو تاحشر جواب دیتا رہے گا کہ یہ حق و باطل کا وہ آفاقی معرکہ ہے جس میں اپنا نام شامل کروانے کیلئے میں نے حبشہ سے کربلا ہجرت کی۔

” اَلسَّلَامُ عَلَى جَوْنٍ مَوْلَى أَبِي‌ ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ”

Loading