صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)انسانی زندگی ایک ایسا معمہ ہے جس کو جس قدر الجھادیا جائے ، وہ اُلجھ جاتا ہے اور جب اس کو سلجھانے کی ایسا کوشش کی جاتی ہے تو وہ سلجھ جاتا ہے۔ خیالات کے تانے بانے پر بنی ہوئی زندگی ایک طلسماتی زندگی ہے۔ کوئی خیال ہمارے لیے مسرت کے جذبات فراہم کرتا ہے اور دوسرا کوئی خیال ہمیں آزردگی، پریشانی اور ٹینشن کے جذباتی سمندر میں دھکیل دیتا ہے۔ خیال اگر ایک دائرے سے باہر نہ آئے اور دائرے کے اندر محدود ہو جائے تو یہ محدودیت انسان کو نفسیاتی مریض بنادیتی ہے۔ خیال کسی ایک نقطہ کو اپنی مرکزیت بنالے اور انا کی حدود میں محدود نہ ہو تو شعور ، لاشعور کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے شعوری حواس لا شعوری جو اس سے رد و بدل ہوتے ہیں، ذہنی سکت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بیشمار مومن افراد کا تجربہ ہے کہ شام ، سویرے، دو پہر، رات ، بیداری اور خواب میں ایک ذات کی مرکزیت ان کے لیے کامل اطمینان و سکون کا باعث بنتی ہے۔ یکتا، واحد اور تخلیق کرنے والی ہستی کے قرب کا احساس ایسے لوگوں کے لیے جائے پناہ بن جاتا ہے۔ یکتا، واحد اور تخلیق کرنے والی ہستی کے قرب کے اس احساس کا ایک نام دعا ہے۔ دعا کے لغوی معنی پکارنا، درخواست کرنا ، مدد مانگنے کے ہیں۔ خالق و مالک ہستی کے سامنے درخواست بیان کرنے کا عمل دعا کہلاتا ہے۔ ہر مذہب کی الہامی کتابوں میں دعا کا تذکرہ موجود ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ : ” اور (اے پیغمبر ) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو) میں تو تمہارے قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئےکہ مجھ کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں “۔ (سورہ بقرہ: 186)
حضور ﷺ کا ارشاد ہے : جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا (یعنی دعا کی توفیق دی گئی) اس کےلیے گویار حمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ (ترمذی)
مذہب میں دعا کی خاص اہمیت ہے۔ ہر مذہب اور ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں دعا کا تصور موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ دعا ایک آرزو اور تمنا ہے اس کا منتہاہ وہ ذات اقدس و اکبر ہے جس کے احاطہ قدرت میں ہر چیز ہے ۔ وہ قادر مطلق ہے ۔ انبیائے کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو اُن کی زندگی میں
اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے اور اپنی قوم کے حق میں دعا کرنے کے واقعات ملتے ہیں۔ دعا ایک ایسی عبادت اور ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان فی الواقع اپنی نفی کر دیتا ہے اور اپنے پرورد گار کے سامنے وہ سب کچھ بیان کر دیتا ہے جو کسی قریب ترین عزیز سے نہیں کہہ سکتا۔ بے شک حاجت روائی اور کار سازی کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کائنات میں جاری وساری نظام پر غور کیا جائے تو اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں اور یہ جو اختیار کی بات کی جاتی ہے اس میں بھی اللہ تعالی کا ہے۔ سب اپنے خالق عطا کردہ اختیار کام کر رہا ہے۔ اس نے بندے کو اختیار استعمال کرنے کی توفیق دی ہوئی ۔ کے محتاج ہیں، اللہ کے سوا کوئی نہیں جو بندوں کی پکار سنے اور ان کی دعائیں قبول کرلے۔ قرآن میں ارشاد ہے: “اے لوگو ! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بے نیاز اور اعلیٰ صفات والا ہے۔“ (سورہ فاطر :15)
سورہ اعراف میں ارشاد ہے : ” اور ہر عبادت میں اپنارخ ٹھیک اس کی طرف رکھو اور اس کو پکارو اور اسکے لئے اپنی اطاعت کو خاص کر لو۔ “ (سورہ اعراف : 29)
وہ دعائیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں جن کے ساتھ مسلسل اور پیہم عمل ہو۔ دعا کے ساتھ عمل نہ ہو ، کردار نہ ہو ، اخلاص نہ ہو تو یہ دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتیں۔ دعا مانگتے وقت ہمارے ذہن میں صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق کا احساس ہوتا ہے دعا کی وجہ سے اللہ کی خصوصی مدد حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف مسئلہ کی تدبیر کرنے کی صلاحیت بھی بیدار ہوتی ہے۔
تجربہ ہے کہ ذہنی طور پر یکسو آدمی زندگی کی مشکلات سے نکلنے میں زیادہ بہتر فیصلہ اور عمل کر سکتا ہے۔ بزرگان دین کے مطابق دعامانگنے کا ایک مجرب عمل یہ ہے کہ آنکھیں بند کر کے پر سکون نشست میں بیٹھ جائیں۔ ذہن کو تمام خیالات سے آزاد کر کے چند منٹ تک یہ تصور کریں کہ اللہ تعالی آپ کو دیکھ رہا ہے یہ تصور قائم ہونے کے بعد دعا کریں۔ دعا کے دوران اگر اللہ کے حاضر و ناضر ہونے کا تصور غالب رہے تو ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہے جو دعا اور ہر عبادت کا جوہر ہے۔ پہلے اپنے
لئے پھر درجہ بدرجہ اوروں کیلئے دعاما نگیں یعنی اپنی ذات سے دعا شروع کریں اور پھر ماں باپ اور تمام مومن بہن بھائیوں کیلئے دعا کریں۔ اس طرزِ عمل سے دعامانگنے والے کو اجتماعی ذہن حاصل ہوتا ہے۔
حضور ﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے سامنے ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے عمل کیا اور پھر دعا فرمائی۔ جنگ بدر میں جب مسلمانوں کا سامنا کفار سے ہوا تو کفار کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مسلمان تعداد ں کم تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جتنے مجاہد میسر آئے انہیں لیکر میدان میں جہاد کیلئے تشریف لے گئے پھراللہ سے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور مدد کیلئے فرشتے نازل کر دیئے۔
جن دعاؤں کے ساتھ عمل نہ ہو وہ قبول نہیں ہو تیں۔ یاد رکھیے !جو قو میں صرف دعاؤں پر انحصار کرتی ہیں اور دعائوں کے ساتھ عملی اقدامات کا مظاہرہ نہیں کرتیں وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں۔
عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں۔ دنیا میں جتنے بڑے لوگ پیدا ہوئے وہ بھی کسی نہ کسی مسئلے سے دو چار رہے ہیں لیکن وہ اس نقطہ سے باخبر
ہوتے ہیں کہ مسائل اس وقت تک مسائل ہیں جب تک انسان ذہنی یکسوئی سے نا آشنا ہے۔ ان لوگوں کے اوپر سے مسائل و تکالیف کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے جو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کی خدمت کیجیے جو نادار ہے ، ضرورت مند ہے ، پھر دیکھیے کہ آپ کو کتنا سکون ملتاہے۔ دوسروں کی مدد کرنا، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ خدا سے وہی کچھ مانگیے جو حلال اور طیب ہے۔ دعا میں خشوع اور خضوع ضروری ہے ۔ خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ بندے کے دل میں خدا کی عظمت موجود ہو ، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں، آنکھیں نم ہوں، اند از واطوار سے مسکینی اور بے کسی ظاہر ہو رہی ہو۔ دعا چپکے چپکے اور دھیمے انداز میں مانگئے۔
ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ چھوٹے بچے جب اپنے بڑوں کے سامنے جاتے ہیں تو ادب سے سلام عرض کرتے ہیں …. ادب و احترام کا اظہار کرتے ہیں …. ہر چھوٹا اپنے بزرگوں سے دعا کا طالب ہوتا ہے ۔ کہتا ہے میرے لئے دعا فرمائیے۔ بزرگ دعائیں دیتے ہیں۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اس دعا اور شفقت سے ہاتھ پھیرنے سے تسکین ہوتی ہے۔ دعا کے علاوہ سعادت مند بچے یا نوجوان اپنے بزرگوں سے یہ عرض بھی کرتے ہیں کہ محترم ہمیں کوئی نصیحت کر دیں۔ بزرگ پہلے انہیں دعا دیتے ہیں یا پھر کوئی نصیحت بھی کر دیتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کیا کرو …. کسی کی دل آزاری نہ کیا کرو …. وغیرہ وغیرہ۔ بزرگوں کی نصیحت پر آدمی عمل پیرا چاہے نہ بھی ہو سکے لیکن ایک ایسا جذبہ اور ولولہ آدمی کے اندر ضرور پیدا ہوتا ہے ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ جو سعید لوگ ہوتے ہیں وہ نصیحتوں پر عمل بھی کرتے ہیں اور یہ عمل ان کی زندگی کہ کے لئے ایک مشعل راہ بن جاتا ہے۔
ہم جب کسی بزرگ سے یہ کہتے ہیں کہ نصیحت کیجئے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی اصلاح کا مادہ موجود ہے ۔ ہمارے اندر جو کمزوریاں ، کو تاہیاں اور غلطیاں ہیں ہم انہیں ختم کر کے زندگی میں اچھائیاں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اکثر مجھ سے کہتے ہیں ہمیں نصیحت کیجئے ۔ میں سوچتا ہوں میں اگر یہ نصیحت کروں کہ نماز پڑھا کرو!… تو یہ سب کو علم ہے کہ نماز فرض ہے اسے تو کسی حال میں ترک نہیں کیا جا سکتا …. کسی سے کہوں کہ ” لالچ نہ کرو“ تو کسی بھی راہ چلتے شخص کو روک کر پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ یہ بری بات ہے …. ایک انتہائی درجہ کے جواری شرابی سے پوچھیں کہ جوا اور شراب کے بارے میں کیا خیال ہے تو وہ کان پکڑ کر کہے گانہ نہ بہت بری بات ہے …. بہت غور و فکر ، سوچ و بچار کیا تو ذہن میں ایک نکتہ کی بات آئی کہ نصیحت یہ کرنی چاہئے کہ ”خوش رہو۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ روحانی ڈائجسٹ مارچ2020