صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر شخص مختلف خیالات میں غلطاں و پیچاں ارد گرد سے بے نیاز، چہروں پر غم و آلام کی تصویر میں سجائے اپنی ہی دنیا میں مگن ہے …. یہاں وہ بھی پریشان ہے جس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ بھی دل گرفتہ ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہے…. بیماریوں، پریشانیوں، خود نمائی اور احساس کمتری کے دبیز سایوں نے ہمیں اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ غرض جتنے لوگ ہیں ان کے اتنے ہی مسائل ہیں مگر ایک بات سب میں مشترک ہے کہ سکون کسی کو حاصل نہیں ہے …. سب کے ماتھوں پر بے اطمینانی، عدم تحفظ اور محرومی کی شکنیں پڑی ہوئی ہیں …. لوگ شکست خوردہ اور نفرت و حقارت کی تصویر بنے ہوئے نظر آتے ہیں …. دولت کی ہوس اور معیار زندگی بلند سے بلند ہونے کی خواہش نے اولاد آدم کے لیے دنیا کو دوزخ بنا دیا ہے۔ اقوام عالم میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے بلین ٹریلین ڈالر ز تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں پھونک دیے جب کہ نوع انسانی کی بڑی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔ بے یقینی کے اس ماحول میں پرورش پا کر جب شعور اس منزل پر پہنچا جہاں آدمی اپنے لیے کچھ فیصلے کرتا ہے…. اس کی سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ماضی ہی سب کچھ نہیں، مستقبل بھی ایک ضرورت بے یقینی کے اس دور سے نکل کر شعور کو یقین کے راستوں کی تلاش ہوئی …. ذہن میں خیال وارد ہوا ہے…. کہ یقین وہاں ملے گا جہاں خوف نہیں ہو گا…. یقین کی دولت وہاں سے ملے گی جہاں غم نہیں ہو گا …. قصہ مختصر ، خوف اور غم سے نجات یافتہ گروہ کی تلاش میں برسوں بیت گئے۔
پر کھ کا ایک زاویہ ہمیشہ پیش نظر رہا تھا کہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا …. سترہ سال کی عمر سے چھبیس سال تک شعور اللہ کے ایسے دوست کی تلاش میں سر گرداں رہا جس کو اللہ کے ارشاد کے مطابق غم اور خوف نہ ہو۔ خوشا نصیب! ایک مرد آزاد ملا…. ایسا آزاد بندہ کہ اس کے اوپر غم اور خوف کے بادل کبھی سایہ نہیں کرتے …. وہ لوگ جو غمگیں اور خوف زدہ رہتے ہیں جب ایسے بندے کی مجلس میں جابیٹھتے ہیں تو ان کے اوپر سکون وراحت ، مسرت اور خوشی کی بارش برسنے لگتی ہے۔ یه آزاد مرد….. قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں…. قدرت نے جن کو پیار و محبت سے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے ….قلندر بابا اولیاء نے اپنے پیچھے فکر کی وہ روشنی چھوڑی ہے جس کی رہنمائی میں آج کی پریشان ذہن اور پراگندہ ول نسل اپنے مستقبل کو سنوار سکتی ہے …. آج نوع انسانی جس ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر انبیاء کرام علیہم السلام کی طرزِ فکر کا انعکاس کم سے کم ہوتا جارہا ہے اور اس کے اپنے بنائے ہوئے مفروضہ نظریات نے اُسے حقیقت آگاہی کے راستے سے دور کر دیا ہے۔
قلندر بابا اولیاء ؒفرماتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم السلام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہراست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کے تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالٰی ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براور است نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالی کی معرفت ہے۔ جب وہ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتا ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمار اواسطہ محض اللہ تعالی کی وجہ سے ہے۔ جب ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں پہلے اللہ تعالی کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالی ہی بحیثیت محسوس ان کا مخاطب اور مرکز نظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے اللہ تعالی کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں اور ان کا ذہن اللہ تعالی کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔
اس اجمال کی تفصیل میں آپ نے فرمایا: “اگر ہم کسی شخص سے قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو ہمارا مطلوب کرتا ہے …. اگر ہم اللہ تعالیٰ سے دوستی اور قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو اللہ تعالی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں مشغول ہیں۔ مخلوق کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی زندگی کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مخلوق سے کوئی صلہ یا بدلہ نہیں چاہتے۔ بندہ اگرچہ خالق کی سطح پر مخلوق کی خدمت نہیں کر سکتا لیکن اپنی سکت، صلاحیت اور بساط کے مطابق کسی صلے یا بدلے کے بغیر وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔ وہ مخلوق ہوتے ہوئے وسائل کی احتیاج سے ماورا نہیں ہو سکتا لیکن اپنی ہر حاجت اور ضرورت کو اللہ تعالی کی ذاتِ اکبر سے وابستہ کر سکتا ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے وہ اللہ کی بادشاہت کا ایک رکن بن جاتا ہے“۔
مزید فرمایا: ” ہر کام پوری جد وجہد اور کوشش سے کیا جائے لیکن نتائج کو اللہ تعالی کے اوپر چھوڑ دیا جائے“۔ بابا صاحب نے نوع انسان کو اس جانب متوجہ فرمایا کہ : ” تسخیر کائنات اور جنت کی زندگی انسان کا ورثہ ہے لیکن اس ورثہ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس صلاحیت سے متعارف ہو جو جنت کی زندگی میں اسے حاصل تھی۔ اس صلاحیت کا حصول روح سے قریب ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اپنےInner سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے وہ ابدی سکون و راحت کو پالیتا ہے۔ جس فرد کے دل میں شک جاگزیں ہو ، وہ کبھی عارف نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ آدم زاد کو اپنی روح سے دور کر دیتا ہے۔ روحانی قدروں سے دوری، آدمی کے اوپر علم، آگہی اور عرفان کے دروازے بند کر دیتی ہے”۔
اس آزاد مرد نے شعور کو طرز فکر کی بھٹی میں ڈال کر وہ تمام بت پاش پاش کر دیے جو اسے ماحول سے ورثہ میں ملے تھے …. بے یقینی کا بت، بھوک و افلاس سے خوف کا بت، موت کے ڈر کا بت، عزت و بے عزتی کا بت …. اندر (Inner) میں بسنے والی طلسماتی دنیا زیر و زبر کر دی گئی اور یقین کا ایک ایسا پیٹرن بنادیا گیا جہاں علم بے عمل جہالت ہے اور جہاں بے یقینی شرک ہے اور یقین جاودانی زندگی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025 ء