Daily Roshni News

صدقے کی اہمیت

مدثر اور عابد دونوں بہت اچھے دوست تھے۔دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔آج عابد بہت اداس تھا۔مدثر نے پوچھنا چاہا لیکن پہلے پیریڈ کی گھنٹی بج گئی اور یوں سارے پیر یڈز میں مدثر عابد سے اس کے اداس ہونے کی وجہ نہ پوچھ سکا۔جیسے ہی بریک ہوئی تو مدثر نے عابد سے پوچھا کہ”آج تم صبح سے اداس کیوں ہو؟“عابد نے جواب دیا کہ”میرے پاس اسلامیات کی بک نہیں ہے۔

بریک کے بعد جب میں کلاس میں جاؤں گا تو سر سے کیا کہوں گا؟کیونکہ مجھے آج سبق بھی نہیں یاد ہے۔“عابد کی بات سن کر مدثر فوراً سے کلاس کی طرف دوڑا اور اپنی اسلامیات کی کتاب لاکر عابد کودے دی ۔عابد نے بہت خوشی سے کتاب لی اور بریک میں ہی سارا سبق یاد کر لیا۔پھر دونوں دوست پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی کلاس کی طرف چل دیئے۔

چند لمحوں کے بعد سر احمد کلاس میں تشریف لائے اور بہت شفقت بھرے لہجے میں انہوں نے بچوں سے کہا۔

”پیارے بچو! آج ہم صدقے کے بارے میں پڑھیں گے“سارے بچے بہت توجہ سے سر کی بات سننے لگے۔سرنے بچوں کو بتایا کہ”اللہ کی راہ میں کوئی بھی چیز ثواب کی نیت سے خرچ کرنا صدقہ کہلاتاہے “مزید وضاحت کرتے ہوئے بولے کہ”ہم اللہ کی راہ میں صدقہ کریں گے تو اس سے نہ صرف ہمارے گناہ معاف ہوں گے بلکہ ہماری بہت سی بیماریاں بھی ختم ہو جائیں گی اور ہمیں بہت سا ثواب ملے گا۔

“ سر کی باتیں نہ صرف کلاس کے بچے غور سے سن رہے تھے بلکہ ان کے تجسس میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔اسی تجسس بھرے لہجے میں عرفان نے سر سے پوچھا کہ”ہم کیسے صدقہ کر سکتے ہیں؟“
سرنے جواب دیا کہ ہم صدقہ کسی بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کر کے کر سکتے ہیں ۔ہم کسی بھی جاندار کو کھانا کھلاسکتے ہیں۔جانور ہوں یا انسان ان کی بھوک پیاس کو ختم کرنے کے لیے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

پرندوں کو پانی پلانا اور دانا کھلانا بھی صدقہ ہے۔یہی نہیں ہم چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں کو بھی کھانا ڈال کر ثواب کما سکتے ہیں ۔سب سے بہترین اور آسان صدقہ علم کے راستے میں کسی کی مدد کرنا ہے اور علم کے راستے میں کیے گئے صدقے کو صدقہ جاریہ کہتے ہیں جس کا ثواب ہمیشہ ملتا رہتاہے۔
ساری کلاس کو صدقے کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی اور سب نے مل کر وعدہ کیا کہ وہ بھی آج سے صدقے کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں گے۔

خاص طور پر وہ کلاس میں تعلیمی میدان میں ایک دوسرے کی بھر پور مدد کریں گے۔سر ساری کلاس سے بہت خوش ہوئے اور سارے بچوں کو شاباش دی۔ مدثر جیسے ہی گھر گیا اس نے اپنی پاکٹ منی سے جو رقم بچائی ہوئی تھی فوراً نکالی اور بازار سے مدثر کے لیے ایک نئی اسلامیات کی کتاب خریدی ۔کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اس کا دوست اس کی طرح امیر نہیں ہے اور وہ اس کتاب کے ذریعے سر سے کیے گئے وعدے کو بھی پورا کرنا چاہتا تھا۔

شام کو مد ثر عابد کے گھر گیا اور عابد کو کتاب پیش کی تو عابدکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے خوشی سے مدثر کو گلے لگایا۔پیارے بچو!ہمیں بھی عابد اور مدثر کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے اور مدثر کی طرح صدقے کو اپنی زندگی کا معمول بنانا چاہیے کیونکہ صدقے سے اللہ اور اس کا رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں گے اور ہم دنیا اور آخرت میں سرخ روہونگے۔اللہ ہم سب کو صدقے جیسی عظیم نیکی کی توفیق دے۔(آمین)

Loading