Daily Roshni News

طفلِ شِیر خوار۔۔۔شاعر۔۔۔علامہ اقبال ؒ

بانگ درا حصہ اول

          طفلِ شِیر خوار

شاعر۔۔۔علامہ اقبال ؒ

مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو

مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو

پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم

چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم

آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے

کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے

گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بِلّی ہے کد ھر؟

وہ ذرا سا جانور ٹُوٹا ہُوا ہے جس کا سر

تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو

آنکھ کھُلتے ہی چمک اُٹھّا شرارِ آرزو

ہاتھ کی جُنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے

تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے

زندگانی ہے تری آزادِ قیدِ امتیاز

تیری آنکھوں پر ہوَیدا ہے مگر قُدرت کا راز

جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چِلّاتا ہے تُو

کیا تماشا ہے رَدی کاغذ سے من جاتا ہے تُو

آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں مَیں بھی ترا

تُو تلوّن آشنا، مَیں بھی تلوّن آشنا

عارضی لذّت کا شیدائی ہوں، چِلّاتا ہوں مَیں

جلد آ جاتا ہے غصّہ، جلد من جاتا ہوں مَیں

میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری

کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری

تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں مَیں بھی ہوں

دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفلِ ناداں مَیں بھی ہوں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

طفل شیر خوار کے بارے میں ڈاکٹر جاویدا اقبال اپنے ایک خط بنام شگفتہ بانو مرقومه ۱۸ ستمبر ۱۹۴ء میں لکھتے ہیں ۔ ۔

بانگ درا کی ایک نظم جس میں شیر خوار بچے کا چاقو یا کاغذ سے کھیلئے کا تعلق ہے انھوں نے اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کے سلسلے میں لکھی تھی جب وہ ایک

شیر خوار بچے تھے ۔”

علامہ اقبال دودھ پیتے یعنی بہت کم عمر بچے سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میں  نے تجھ سے چاقو چھین لیا ہے تو لو اس پر رونے لگ گیا ہے ۔ غالباً اس بار پر کہ چا تو چھینے کی وجہ سے تو مجھے اپنا دشمن سمجھ رہا ہے حالانکہ میں تیرا دوست ہوں اور میں نے تجھ سے ہمدردی کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔

بچے سے چا تو چھین لیا گیا تو وہ قلم سے کھیلنے لگا۔ اس پر علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اسے دنیا میں نئے آنے والے یعنی بہت کم عمر اور ناتجربہ کار بچے خیال رکھنا قلم کی نوک بہت باریک ہے اور یہ چبھ  سکتی ہے ۔ اب تو تو اس سے کھیل رہا ہے لیکن اگر یہ چبھ گئی تو پھر تکلیف کے باعث روئے گا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ معلوم نہیں تجھے ان چیزوں سے کیوں محبت ہے جو تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں تجھے چاہیئے کہ چاقو با قلم کی بجائے کاغذ کے ٹکڑے سے کھیلے جس سے تجھے کسی طرح کی تکلیف نہیں پہنچ سکتی ۔

شاعر بچے سے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ تیرے کھلونے کہاں غائب ہو گئے ، تیری گیند اور چینی سے بنی ہوئی وہ بلی جس کا سر ٹوٹا ہوا ہے ، کہاں گئیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے تیرے دل میں کسی طرح کی کوئی آرزو نہیں تھی لیکن جیسے ہی تیری آنکھ کھلی یعنی تو پیدا ہوا اور اس دنیا میں آیا، تیرے دل میں خواہشوں کی چنگاری روشن ہو گئی ۔ لیکن جس طرح ابھی تو آزادانہ حرکت نہیں کر سکتا اسی طرح تیری خواہشیں بھی تیرے ہاتھوں کی حرکت اور دیکھنے کے انداز میں چھپی ہوئی ہیں یعنی تو جس چیز کو پسند کرتا ہے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ اسے اٹھا لے یا پھر محض اسے دیکھتا رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیری طرح تیری خواہشیں بھی اس دنیا میں نئی نئی پیدا ہوئی ہیں ۔

اے بچے! تیری زندگی اختلافات کی قید سے بالکل آزاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ تو قدرت کے حقیقی رازوں سے واقف وآگاہ ہے ۔ یعنی شاعر کے خیال میں امتیازات انسان کو حقائق سے بے خبر کر دیتے ہیں۔

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اسے بچے جب تو کسی بات پر ناراض ہو کر رونے لگتا ہے تو تھوڑی ہی دیر بعد کسی با لکل معمولی چیز مثلاً ردی کاغذ کو پانے سے خوش بھی ہو جاتا ہے ۔ گویا تیرے مزاج میں استقلال نہیں ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اس عادت میں میں بھی تجھ سے مناسبت رکھتا ہوں ۔ یعنی تو بھی تغیر پذیر مزاج رکھتا ہے اور میں بھی ایسے ہی مزاج کا حامل ہوں ۔ میں بھی تیری طرح وقتی دلچسپیوں کا عاشق ہوں اور ان کو نہ پاسکنے کی صورت میں رونے لگتا ہوں ۔ مجھے بھی تیری طرح بہت جلد غصہ آجاتا ہے اور میں بھی بہت جلد خوش ہو جاتا ہوں ۔ میری آنکھوں کو بھی حسن کے ظاہری مناظر اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اور اس طرح دیکھا جائے تو میں بھی سادگی اور نا سمجھی میں بالکل تیری ہی طرح ہوں میں بھی تیری طرح کبھی رونے لگتا ہوں کبھی ہنسنے لگتا ہوں ۔ گو بظاہر میں نوجوان ہوں لیکن حقیقت میں میری کیفیت بھی نا سمجھ اور سادہ لوح بچے سے مختلف نہیں ہے ۔

Loading