طویل سنسان سڑک سے اب اندھیرا چھٹ رہا تھا۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وہ بھاگ بھاگ کر تھک چکا تھا اور اب اپنے اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ وہ کس وقت سے یونہی بھاگ رہا تھا؟ شاید رات کے اس پہر سے، جب اندھیرا پھیلتا جاتا ہے۔ وہی پہر جب اکثر دلوں پر اداسی اور بوجھل پن چھا جاتا ہے۔
اس کا دماغ الجھا ہوا تھا — وہ بھاگ کیوں رہا تھا؟ اور اتنے عرصے سے بھاگتا کیسے جا رہا تھا کہ اب اس ساکت رات کی خاموشی ٹوٹ چکی تھی اور روشنی اندھیرے کو چیر کر باہر نکلنے کو بے تاب تھی۔
تھکے ہوئے جسم، روئی سی سوجھی آنکھوں اور مضطرب سوچوں کے ساتھ وہ لڑکا سڑک کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ آنسوؤں میں اتنی شدت تھی کہ کوئی مجسمہ بھی دیکھتا تو پگھلنے کو تیار ہو جاتا۔
یہ سارا منظر کسی خواب جیسی کیفیت پیدا کرتا تھا۔
کیا چھینا جا رہا تھا اس وجیہہ مرد سے؟ واللہ العلم۔
وہ اسی طرح سر جھکائے بیٹھا رہا اور رات کا منظر آہستہ آہستہ روشن صبح میں ڈھل گیا۔ بہت پُرسکون روشنی تھی — مگر وہ شخص پھر بھی پُرسکون نہ ہو سکا۔
منظر بدلا۔ اب وہ جوان مرد ایک جھونپڑی کے باہر کھڑا تھا۔ روشنی ابھی بھی ویسی ہی نرم اور مانوس تھی، سورج کی کرنیں اب تک ظاہر نہ ہوئی تھیں۔ شاید وہ بھاگتے بھاگتے یہاں تک پہنچ گیا تھا۔ خیر، منظر پر واپس آتے ہیں۔
جھونپڑی سے ایک خوبصورت، سریلی اور دل کو بدل دینے والی آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔ اس کے جلتے دل کو جیسے کچھ سکون سا ملا۔ وہ الفاظ سننے لگا، جو کچھ یوں تھے:
بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ
وَالضُّحَىٰ
(قسم ہے چاشت کے وقت کی)
اس نے ایک نظر آسمان کی طرف ڈالی — کیا یہ کوئی معجزہ تھا کہ وہ وقت واقعی چاشت کا تھا جس کی ربِ کائنات نے قرآن میں قسم کھائی ہے؟
وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ
(اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے)
اسے تاریک رات کا وہی پہر یاد آیا جب سے اس نے راہِ فرار اختیار کی تھی۔
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ
(تیرے رب نے نہ تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے)
دل سے اچانک ایک سوال ابھرا — کس نے بغیر کسی غرض کے ہمیشہ محبت اور نعمتیں نازل کیں؟
لبوں سے بے اختیار نکلا: ربِ کائنات۔
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ
(اور یقیناً آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے)
جو دنیا میں چھن جائے گا، وہ آخرت میں ضرور ملے گا — تو وہ کیوں اتنا ناامید اور کمزور پڑ رہا تھا؟
سارا جسم پسینے سے شرابور تھا کہ ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ شاید وہ طویل خواب سے بیدار ہو چکا تھا۔ اچانک اسے اپنا سونے کا وقت یاد آیا — اور پھر اٹھنے کا بھی۔
رات کے مقابلے میں دل اب پرسکون تھا۔ نمازِ فجر قضا ہو چکی تھی۔ اس نے وہ نماز قضا کی اور چاشت کے نوافل ادا کیے۔
ابھی وہ جائے نماز سمیٹ کر اٹھا ہی تھا کہ فون بج اٹھا۔
ایک سنجیدہ، ہمدردی بھری آواز ابھری:
“Sorry, your mother is no more.”
وہ کچھ نہ بول سکا۔ نہ رو سکا، نہ گڑگڑا سکا۔
شاید اسے غم سے پہلے صبر عطا ہو چکا تھا۔
واللہ العلم۔
از: ماریہ کوثر