Daily Roshni News

عباس تابش کی کلیات ”  عشق آباد ۔۔۔ نقد و نظر ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

عباس تابش کی کلیات ”  عشق آباد “

نقد و نظر ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عباس تابش کی کلیات ”  عشق آباد ۔۔۔ نقد و نظر ۔۔۔ فرحت عباس شاہ )ادب ادیب اورمعاشرے کے درمیان احساس اور شعور کے رشتے کی جتنی ضرورت آج محسوس کی جا رہی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں کی گٸی تھی ۔ جس کی وجہ یہی ہے کہ لمحہءموجود میں  سیاست اور معیشت کی طرح نظام ِ تعلیم اور ادب بھی زوال کا شکار ہوچکے ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر ایک الگ کتاب لانے کا ارادہ ہے ۔ فی الحال زیر نظر مضمون ایک ایسے شعری دھوکے کی نشاندیہی مقصود ہے جو ہماری تین نسلوں کو دیمک کی طرح چاٹ گیا ہے ۔ اگر کوٸی شخص غریب ہے تو اسے ہر جاٸز طریقے سے اپنی غربت دور کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس بات کی اجازت نہ دنیا کا کوٸی قانون دیتا ہے نہ ضابطہءاخلاق کہ وہ اپنی غربت کو دور کرنے کے لیے مظلومیت کی چادر اوڑھ کر ہر ناجاٸز طریقہ اپناۓ ۔ کسی کو مارے ، کسی کو لُوٹے کھسوٹے اور خود کو حق بجانب بھی بتاۓ ۔

میں اس مضمون میں اگر عباس تابش کی ذاتی زندگی کے اوراق کھولنے بیٹھ گیا تو اس کے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے لیے عزت بچانا مشکل ہوجاۓ گا لہٰذا  بہتر یہی ہے کہ براہ راست اس کی شاعری اور شاعرانہ حیثیت کا تجزیہ کیا جاۓ حالانکہ میری نظریہ شعر یہی کہ شاعر یا ادیب کو اس کے لکھے ہوۓ ادب سے جدا کرکے اس کا درست تجزیہ نہیں کیا جاسکتا  کونکہ اسی سے حقیقی اور مصنوعی کی پہچان بھی ہوجاتی ہے اور سچے جھوٹے کی بھی ۔

 عباس تابش بنیادی طور پر ایک چوکس انسان ہے لیکن اس کی بدنصیبی یہ ہوٸی کہ اس نے ساری زندگی اس چوکسیت کا منفی استعمال کیا ۔ اگر جو وقت اس نے اپنا کام نکالنے کے لیے منفعت بخش لوگوں کو شیشے میں اتارنے میں لگایا وہی وقت اگر شاعری کی دیوی کو مہربان کرنے کے لیے احساس اور کیفیات کی سچاٸیوں کے جلو میں صرف کیا ہوتا تو آج اس کے پاس اپنا شعر ہوتا ، اپنا اسلوب ہوتا اور وہ ایک چور شاعر کے طور پر شہرت پانے اور ساری زندگی  معصوم اور سچے شاعروں کو پیچھے دھکیل کر

آگے آنے کی بجاۓ شفاف اور باعزت طریقے سے اپنا مقام بنا چکا ہوتا ۔

 میرا کبھی اس طرف دھیان نہیں گیا تھا لیکن ندیم خان بھابھہ کی پوسٹ پڑھی کہ عباس تابش فرحت عباس شاہ بننا چاہتا تھا لیکن اس کی بدنصیبی کہ اس کے پاس نہ فرحت عباس شاہ جیسی  غم اور اکلاپے کی ریاضت موجود تھی نہ شخصیت کا شفاف پن اور نہ دنیاوی مفادات کو ٹھکرا کر جینے کی نیت تھی ۔ مجھے یاد آیا کہ تابش نے مجھ سے پوچھا کہ آپ محبت کے لفظوں والی شاعری کیسے کر لیتے ہیں ۔ میں اس کی بات سُن کر حیران ہوا کہ یہ شخص شاعر ہے ؟ جو محبت کی شاعری کو محبت کے لفظوں والی شاعری سمجھتا ہے ۔ پھر بعد میں اس نے ثابت کیا کہ رب تعالیٰ نے اسے جذبے اور احساس سے ہی محروم رکھا ہے ۔ اس لیے کہ وہ رب تعالیٰ سے جذبہ ، احساس اور کیفیت مانگنے کی بجاۓ یا  سچا شعر مانگنے کی بجاۓ مشاعرے اور پیسے مانگتا ہے ۔ حضرت علی سے ایک بھکاری خیرات مانگنے آیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم میرے گھوڑے کے پاس رکو تو میں گھر سے جا کے تمہارے لیے کچھ لیکر آتا ہوں ۔ حضرت علی گھر سے کچھ دینار لے کر باہر آۓ تو بھکاری غاٸب تھا اور گھوڑے کی کمر پر زین موجود نہیں تھی ۔ آپ ساری صورتحال سمجھ گٸے اور بازار کی طرف چل پڑے اار سیدھا جا کر گھوڑے کی زینوں کی خرید و فروخت والی دکان پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ہی ان کی زین رکھی ہے ۔ آپ نے دکاندار سے کہا کہ یہ زین تو میری ہے جو ابھی ابھی اس حلیے کا شخص چوری کرکے بھاگا ہے ۔ دکاندار نے سن کر بتایا کہ جی ہاں اس حلیے کا شخص ابھی ابھی مجھےاتنے دینار میں بیچ کر گیا ہے ۔ دکاندار نے اتنے ہی دینار بتاٸے جتنے حضرت علی اس چور کو اللہ کے نام پر  دینے والے تھے ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رب نے جو رزق ، دولت یا نعمت جس شخص کے نصیب میں لکھی ہے اسے ملنی ہی ملنی ہے ۔ اب یہ اس انسان پر ہے کہ اسے ہلال کرکے لیتا ہے یا حرام کرکے ۔

 ہوسکتا ہے تابش کو رزق ِ سخن سے لے کر مال و دولت تک رب تعالیٰ عزت و وقار کے ساتھ بخشتا جو اس نے چوری چکاری ، چالاکی اور ذلت سے حاصل کیا ہے ۔ اس کے کسی قریبی دوست نے بتایا کہ اب وہ شراب پی کر روتا ہے اور اپنے جراٸم کا تذکرہ کرتا ہے لیکن ہوش میں آ کے اور زیادہ ظلم پر اتر آتا ہے ۔ اسے اپنے مفاد کی خاطر اپنے کسی بھی رشتے یا محسن کے پہلو میں چُھرا گھونپنا پڑے تو ذرا تردد نہیں کرتا ۔ دوٹکے کا مشاعرہ حاصل کرنے کے لیے یا  کسی جینوٸن شاعر کا نام نکلوانے کے لیے یہ پوری دنیا کے تعلقات آزماتا ہے ، سفارشیں کرواتا ہے پاٶں پڑتا ہے ۔ بلکہ اگر اسے پتہ چلے کہ کراچی تا پشاور کچھ لوگ اس کے کسی ہم عصر شاعر کو عزت دے رہے ہیں تو یہ ان تک پہنچ کے ان کو روکتا ہے ۔ پھر ان کے قریبی لوگوں سے کہتا ہے کہ دباٶ ڈال کے اس شاعر کا پتہ صاف کریں ۔ وہ مقصود وفا اور افضال نوید جیسے سُچے شاعروں کو منہ پہ ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتا ہے تاکہ وہ ڈر کر دُبک کے بیٹھ جاٸیں ۔ اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں کوٸی اصلی شاعر سامنے آگیا تو اس کا بوریا بستر گول ہوجاۓ گا۔

 پہلے میں سوچتا تھا کہ یہ شخص جتنی محنت دنیاوی مفادات اٹھانے پر صرف کرتا ہے مطالعے اور تخلیقی ریاضت کو دیتا تو کم از کم سچے شعر سے تو محروم نہ رہتا ۔ لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ اتنا سفاک آدمی کہ جس کو جب موقع ملتا ہے نہایت بے رحمی سے معصوم لوگوں مارنے سے گریز نہیں کرتا کیسے ممکن ہے کہ اسے سچا شعر نصیب ہوجاۓ ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ناپاک دل پر کوٸی پاکیزہ خیال اترنا پسند کرے ۔

  اس نے جب اپنی کتابوں کے نام چوری کیے اور آسمان سے لیکر عشق آباد تک کے نام بشیر بدر اور ثمینہ راجہ کی کتابوں کے ناموں پر رکھ لیے تو خالد احمد صاحب نے شفیق احمد خان کی موجودگی میں مجھ سے کہا کہ یہ تو شروع ہے ڈکیتی اور ظلم سے ہو رہا ہے آگے جا کے کیا کرے گا ۔ پھر ہنس کر بولے کہ مینوں مارو کہ میں اہنوں مصرعہ سِدھا کرنا سکھایا اے۔ شفیق احمد خان مسکرا کر بولے کہ شعر کہنا بھی سکھا دیا ہوتا ۔

  تابش نے کسی دیباچے میں لکھا بھی ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر نٸی غزل سنانا بند کردیتے ہیں یا تازہ کلام چھپا لیتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ میں ان کے شعر اڑا لوں گا ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے اس نے جب سرعام یہ کام شروع کیا اور بغیر کسی جھجھک یا شرمندگی کے اپنا لیا تو شاعروں نے خوف زدہ ہو کر اس سے اپنی شاعری اس طرح چھپانی شروع کردی جیسے لوگ کسی بردہ فروش کو دیکھ کر اپنی اولاد کو چھپاتے ہیں۔

 آپ یہ نہ سوچیے گا کہ میں نے تو پہلے لکھا ہے کہ میں تابش کی کوٸی ذاتی بات نہیں کروں گا لیکن پھر یہ باتوں کیوں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں یہ سب اس کا شعری و ادبی رویہ ، سوچ اور کردار بیان کر رہا ہوں کیونکہ اس کی شاعری میں نہ کوٸی فنی و فکری ارتقاء ہے ، نہ موضوعات کا تنوع ہے ، نہ مربوط فکر ہے ، نہ خیال کی تازگی ہے کہ اس پر کوٸی سنجیدہ تنقیدی مضمون لکھا جاسکے ۔ ظاہر ہے جب کسی نے پوری زندگی  شاگردوں ، ہم عصروں ، سینٸرز اور قدیم و جدید اردو ، فارسی یا دوسری زبانوں کے شاعروں کا سرقہ ہی کیا ہوتو  اس کے ہاں کوٸی نظریہ ، کوٸی مربوط فکر ہو ہی کیسے سکتی ہے ۔ جو شخص اس حد تک نیچے گر جاۓ کہ علی الاعلان کہے کہ میں نے یہ شعر تہذیب حافی ( این جی اوز کے فنڈز سے سوشل میڈیا پر وقتی طور پہ محدود شہرت پانے والا ایک چھچھورا اورجعلی شاعر ) کے رنگ میں لکھا ہے تو اس کا نظریہ شعر سامنے آجاتا ہے کہ اب سب لوگ مشاعروں میں حافی کی جگہ بھی مجھے ہی بلاٸیں کیونکہ میں اس جیسے شعر بھی سنا سکتا ہوں ۔

 جب کوٸی شاعر اس حدتک خوشہ چینی کا عادی ہوگا تو ظاہر اس پر کوٸی سنجیدہ مضمون لکھا ہی نہیں جاسکتا ۔ جتنے لوگ اسے غزل کا بڑا نام قرار دیتے ہیں یا تو انہیں شاعری کا پتہ نہیں یا پھر وہ بھی بدیانت اور مفاد پرست ہیں ۔ یقین جانٸیے کوٸی باشعور اور صاحب علم باضمیر انسان اسے اچھا شاعر بھی قرار دیتے ہوۓ سو دفعہ ججھکے گا ۔

اس پر حقیقت میں صرف دوموضوعات پر مضامین لکھے جاسکتے ہیں ۔  ایک اس کی چوریوں پر اور دوسرا اس کی تضاد بیانی پر ۔ ظاہر ہے جب آپ کو کہیں سے جو مال ہاتھ آٸے گا آپ کھڑکا کے اپنی غزل میں دھر لیں گے تو یہی کچھ ہوگا ۔ طرح طرح کا مال شامل ہوجاۓ گا آپ کی کتابوں میں ۔ عباس تابش بنیادی طور پر ایک محدود مطالعے کا اور کم پڑھا لکھا شخص ہے ۔ اسے لوگوں کی شاعری پر ہاتھ صاف کرتے ہوۓ یہ خیال ہی نہیں آیا کہ جب یہ سب کچھ کسی ایک جگہ اکٹھا ہوگا تو داٸرہ فکر فن کیا بنے گا ۔ کہیں وہ بےوفا ہے ، کہیں وفادار ہے ، کہیں عاشق ہے کہیں سرے سے کچھ بھی نہیں ۔ ایک شعر محبت کا ہے تو دوسرا اس کے خلاف ہے ۔ ایک میں لکھ رہا ہے کہ عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور کہیں لکھ  رہا ہے میں نے خود آگے بڑھ کے ذلت خریدی ہے ۔ گویا شاعری نہ ہوٸی لنڈا بازار ہو ۔ کسی کی پینٹ ، کسی کا کوٹ ، کہیں شرٹ ، کہیں کی ٹاٸی ۔ دُھلے دھلاٸے ہینگروں پر لٹکے کپڑے لیکن نہ خوشبو ، نہ تازگی نہ سچاٸی ۔ کسی کے اترے ہوٸے کسی کے اتارے گٸے ۔

ذیل میں دی گٸی مثالوں سے اگرچہ آپ کے سامنے ایک سرسری ساجاٸزہ آ جاۓ گا لیکن اس میں آپ نے ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی ہے کہ ایک مشاق چور کی پہلی اور آخری کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ کوٸی ایسا نشان نہ چھوڑے کہ اس کی پکڑ ہو جاۓ لیکن نظام ِ فطرت ہے چور جتنا چاہے شاطر ہو اس سے کوٸی نہ کوٸی  غلطی ضرور ہوتی ہے جس سے وہ بالآخر گرفت میں آ ہی جاتا ہے ۔ شعر کا سرقہ کرنے والا بھی پوری کوشش کرتا ہے کہ کبھی خیال کو پلٹا کر کہے تو کبھی موضوع کو الٹا کردے ۔ جیسے دیر کتنی لگتی ہے ردیف ہے تو اسے بڑی دیر لگی  لکھ دیا کسی نے اگر لکھا ہے کہ شام تو اسے صبح کردیا ، کہیں ایک مصرعہ کسی کا چوری کیا تو دوسرا کسی اور کا کرلیا ۔ کھی کسی کے قول کو شعر بنا لیا تو کہیں کسی مذہبی عبارت میں سے نکال لیا مثلاً جیسے عام مقولہ ہے کہ

 خوبصورت لوگ باوفا نہیں ہوتے تو اسے شعر بنایا کہ خوبصورت ہے وفادار نہیں ہوسکتا ۔ لٰہذا عباس تابش کے چربوں ، سرقوں اور شروع کی چوری اور موجودہ ڈاکوں کا مطالعہ کرتے وقت یہ تمام پہلو مدنظر رہنے چاہٸیں ۔

ڈاکے سے مراد یہ ہے کہ اب وہ پورے دھڑلے سے دوسروں کے اشعار کو تبدیل کیے بغیر کہتا ہے کہ یہ میرے ہیں ۔ اس کی مثال میں تابش کا علی ظفر کی فلم کے لیے لکھا جانے والا گانا ہے جو اس نے فیض احمد فیض کی پوری نظم کو ہی لپیٹ دیا ہے ۔ ڈھیٹگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اس پہ کبھی شرمندہ نظر نہیں آۓ گا بلکہ پورے اعتماد سے کہتا ہے کہ چوری تو پہلے سے ہوتی آ رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چوری اگر پہلے سے بھی ہوتی آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے جاٸز قرار دے دیا جاۓ ۔ اگر کوٸی بیچارہ ایسا شاعر جس کا کلام ابھی شاٸع نہیں ہوا یا اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے اس کا بہترین شعر کوٸی چوری کرلے اور پوری دنیا میں اپنے نام سے پڑھتا پھرے تو وہ بیچارہ تو بےموت مرگیا ۔ میں نے ایسے کتنے ہی لوگ بیچارے ماتم کرتے دیکھے ہیں جن پر تابش نے یہ ستم ڈھایا ہے ۔ یہ ایک اور المیہ ہے کہ اس نے درجنوں ایسے  نوجوانوں کے شعروں پر ببی ہاتھ صاف کیا ہے جن کو ہم نہیں جانتے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شعر تابش نے کس کا چوری کیا ہے ۔ البتہ یہ ضرور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعر کا نہ یہ مزاج ہے نہ اس کے اطوار ہیں تو ایسا خیال اس کا ذاتی ہو ہی نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر تابش اگر تصوف کے شعر لکھتا ہے یا شعروں میں خود کو ملنگ اور قلندر کہتا ہے تو ظاہر ہے جھوٹ بول رہا ہےکیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کس قماش کا آدمی ہے ۔

 ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرماٸیے

ہوا چلی تو پھر آنکھوں میں آ گئے سب رنگ

مگر وہ سات برس لوٹ کر نہیں آۓ

محبوب خزاں

پلٹ کے آ گیا تو بھی تری محبت بھی

مگر وہ پندرہ برس لوٹ کر نہیں آۓ

عباس تابش

  اب ایک شخص جسے زندگی میں محبت کا تجربہ ہی نہیں ہوا وہ یا تو محبت ، پیار اور عشق وغیرہ کے لفاظ اکٹھے کرکے شعر گھڑے گا یا پھر کسی کے شعر پہ ہاتھ صاف کرے گا ۔ آپ دیکھٸیے کہ تابش نے کس بےشرمی سے محبوب خزاں کا پورے کا پورا شعر ہی اچک لیا ہے ۔

اب عدیم ہاشمی کا ایک مشہور ِ زمانہ شعر دیکھٸیے ۔۔

رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی

جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

عدیم ہاشمی

اور اب یہ دیکھٸیے

میں اس کی آہٹںں چُن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں

گلی میں کون پھرتا ہے دریچہ کھول کر دیکھوں

عباس تابش

اب آہٹیں چن لوں اور بول کردیکھوں لگا کے شعر کو ری فربش کیا گیا ہے کہ اگر عدیم ہاشمی نے کہا ہے کہ جھانک کر دیا تو کیوں نہ اسے بول کر دیکھوں بنا کے شعر کو اپنا بنا لیا جاۓ ۔

اب محمد اظہار الحق کا شعر ملاحظہ فرماٸیے

ملے اک بار بچوں یا پرندوں کو حکومت

کوئی ایسا طریقہ شہر ہوں خوشحال سارے۔

محمد اظہار الحق

یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو

 یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

عباس تابش

 یعنی اظہار الحق کی خواہش کو اپنی التجا میں بدل کر شعر کا خالق ہی بدل ڈالا ۔ ستم بالاۓ ستم یہ ہے کہ یہ شخص پچھلے تیس سالوں سے شعر و ادب سے پیار کرنے والوں کو جس طرح چونا لگا کے پوری دنیا میں پھرتا رہا ہے اور دوسروں کے شعر سنا سنا کے دادیں وصول کرتا ہے اور پیسے نچوڑتا رہا ہے اس پر جتنا ماتم کیا جاۓ کم ہے ۔ پھر جس طرح استاد بن کر اس نے بیچارے نوجوان شاعروں کو گمراہ کیا ہے وہ تو صریحاً ناقابل معافی جرم ہے ۔

 ایک اور ظلم ملاحظہ فرماٸیے ۔۔۔

احمد فراز جیسے مقبول و معروف و ممتاز شاعر کے شعر پر ہاتھ صاف کرتے ہوۓ اسے ذرا بھی جھجھک نہیں ہوٸی ۔ یعنی اب اس بدبخت کو یہ خوف بھی نہیں رہا کہ پکڑا گیا تو لوگ کیا کہیں گے ۔  ڈکیتی دیکھٸیے ۔۔۔۔۔۔

قرب اچھا ھے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل

 یہ نہ ہو تجھ کو  مرے روگ پرانے لگ جائیں

احمد فراز

اب اس کی واردات بھی ذرا چیک کریں ۔

تو محبت کی غرض لمحہء موجود سے رکھ

تیرے ذمے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں

عباس تابش

  پینترے بدل بدل کے چربے کرنے والے اس سفاک انسان کو شاید کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ شعر بھی کسی شاعر کی اولاد ، رزق اور دولت کی طرح ہوتے ہیں ۔ اس نے گویا طے کرلیا تھا کہ میرے ہاتھ جس کا بھی بچہ ، رزق یا مال و دولت لگی میں نے نہیں چھوڑنی ۔۔۔

 ایک اور واردت دیکھیے جس کی بنیاد پر یہ آدھا انڈیا لوٹ کر کھا گیا ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ اس نے سب سے زیادہ بےوقوف ہندوستانی ایل ذوق و اہل سخن کو بنایا ہے ۔ کیونکہ وہاں کے لوگ اردو کی سلامتی اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اتنے صاحب مطالعہ نہیں ہیں نہ عباس تابش کے بیک گراونڈ سے واقف ہیں اس لیے ہنسی خوشی چونا لگواتے رہے اور اسے غزل کا مہان شاعر سمجھتے رہے ۔ یا پھر سمندر پار رہنے والے پاکستانی اور ہندوستانی اس کے جال میں پھنس کر ایک طرف ایک مصنوعی ، چور اور لوگوں سے رزق روزگار چھیننے والے انسان کو بڑا شاعر بنا کر پوجتے رہے تو دوسری طرف ایک جھوٹ کو مقبول بنا کر عام سامع اور قاری کو دھوکہ دیتے رہے ۔۔۔

جب اس کا پہلا چوری شدہ شعر بے نقاب ہوا

 میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو

سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے

اور میں نے لکھا کہ اسے تو ڈھنگ سے چربہ کرنا ہی نہیں آتا دمے کی گھنٹیاں بجنے والا مصرعہ لکھا رہا ہے ، سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے  اور کانوں سے دیکھنے کا کام لے رہا تو میں نے لکھا کہ اگر میں یہ خیال باندھتا تو اس کو شعر بناتا ۔۔۔

 سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوٸی سینے میں

دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی سدا آتی ہے

فرحت عباس شاہ

تو اس کے بعد اس یہ شعر اس کی زبان سے یوں اترا جیسے کسی نے کھینچ کر اتاردیا ہو ۔

اس کے بعد اس جو اگلی واردت ڈالی وہ فارسی شاعر شہیدی قمی کا درج ذیل شعر تھا

” شبی گفتم مرا از تیرگی ھا ھول می آید ،

از آں شب دیدۂ مادر شدہ از خواب محرومی “

شہیدی قمی

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوٸی تابش

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

عباس تابش

گویا اس نے سوچا اب چربے کے ساتھ ساتھ ترجمے سے بھی کام لیا جاۓ ۔ سیدھا سیدھا ترجمہ کرکے اپنا شعر بنا لیا ۔

عباس تابش نے جو ایک اور بڑا ظلم کیا ہے وہ یہ ہے کہ جس کسی کا بھی شعر لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا اور ہونٹوں پر مہکتا دیکھا ہے اس بےشرم نے فوراً اس کی کاپی کی ہے  غلام محمد قاصر کا شعر ملاحظہ فرماٸیے ۔۔

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام

مجھے تو اور کوٸی کام بھی نہیں آتا

غلام محمد قاصر

اور اب اس بدبخت کا کام چیک کریں ۔۔۔۔

سیدھا اس شاعر کو ہی مخاطب کر کے اس کو اسی کا شعر سنا دیا ہے ۔۔۔

یہ لوگ نوکری پیشہ ہیں اور چاہتے ہیں

سواۓ عشق انہیں اور کوٸی کام نہ ہو

عباس تابش

اب تابش کی ایک ایسی واردات دیکھٸیے جس کے بارے سوچ کے آپ حیرت زدہ رہ جاٸیں گے کہ اس نے بھگت کبیر جیسے دوہے لکھنے والے قدیم شاعر کو بھی معاف نہیں کیا

ہم ہیں سوکھے ہوۓ تالاب پہ بیٹھے ہوۓ ہنس

جو تعلق کو نبھاتے ہوۓ مر جاتے ہیں

عباس تابش

 اب بھگت کبیر کا دوہا دیکھٸیے ۔۔۔۔۔

تال سوکھ کر پتھر بھیو ہنس کہیں نہ جائے۔

 پچھلی پیت کے کارنے کنکر چن چن کھائے

یہ وہ شعر ہے جو اس نے دوڑ دوڑ کر پوری دنیا میں بیچا ہے اور انٹرویو دیتا ہے کہ یہ خیال اسے میلسی کے سوکھے دریا کے کنارے بیٹھ کر آیا جہاں   ایک ہنس مرگیا تھا اور دوسرا وہیں بیٹھا تھا ۔ یعنی پوری واردات ڈال رہا تھا اور سامنے الٹرا کمرشل مشاعرے کروانے والی کوٸی عورت بیٹھ کر اس بات سے متاثر ہونے کا تاثر دے رہی ہے جیسے اسے پتہ ہو میں تو وہ پیسے پورے کر رہی ہوں جو تمہیں بطور اعزازیہ دیے ہیں ۔

 کہانی ابھی ختم نہیں ہوٸی لہٰذا ذیل میں کچھ  مزید وارداتیں دیکھٸیے ۔۔ ۔۔ لیکن یہ مت سمجھٸیے کہ بس یہی کچھ ہے ۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شخص کے پاس اپنا کوٸی شعر ہے ہی نہیں اور یہ ای ایسا ادبی ڈریکولا ہے جو  پچھلے تیس سالوں سے اردو زبان و ادب کے تخلیقی اعضاء کاٹ کاٹ کر کھاتا چلا آ رہا ہے ۔ وہ لوگ تو قابل معافی ہیں جن کو اس کے طریقہءواردات کا علم نہ ہوسکا لیکن اردو زبان و ادب کی تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی جنہوں نے اس عفریت کو جان بوجھ کر مسلط ہونے دیا ۔

درج ذیل میں چند مزید معرکے آپ کی دانش کی نذر ۔۔۔۔۔

تو نے کیا سوچ کے چھو کر نہیں دیکھا مجھ کو

میں تری آنکھ کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہوں

کبیر اطہر

کیوں نہ اے شخص تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں

تو مرے وہم سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے

عباس تابش

بھولتا کیسے بھلا ناطہ پرانے وقت کا

ہنس بیٹھا ہی رہا سوکھے ہوئے تالاب پر

عدیم ہاشمی

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس

جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔

عباس تابش

میں سوکھی ہوئی جھیل کا وہ ہنس ہوں بیدل

جو  رزق کی  خاطر بھی  وطن سے نہیں نکلا

بیدل حیدری

میری تکلیف کون سمجھے گا

اچھے موسم میں جھڑ رہا ہوں میں

مرزا مراتب

ہمارے کھلنے اور جھڑنے کے دن اک ساتھ آئے ہیں

ہمیں دیمک نے چاٹا ہے شجر کاری کے موسم میں

عباس تابش

   جو شرک ہم سے ہوا ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں

تمھارے ساتھ خدا کا بھی نام لیتے رہے

ندیم احسن شاہ

میں اس لیے بھی محبت میں شرک کرتاہوں

کہ اس جہان مَیں تو ہی نہیں خدا  بھی ہے

عباس تابش

قریب رہ کے سلگنے س کتنا اچھا تھا

 کسی مقام پہ ہم تم بچھڑ گٸے ہوتے

نوشی گیلانی

جو دور رہ کے فسردہ ہیں ان کو کیا معلوم

 کہ کتنے دکھ ہیں ترے آس پاس ہونے سے

عباس تابش

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گٸے کہ روٹھ گٸے دن بہار کے

فیض احمد فیض

یہ دوپہر ہے اسے میکدے کی شام کریں

ملو کہ مل کے اداسی کو غرق جام کریں

عباس تابش

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

جو عشق کو کام سمجھتے تھے

یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

کام عشق کے آڑے آتا رہا

اور عشق سے کام الجھتا رہا

پھر آخر تنگ آ کر ہم نے

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

فیض احمد فیض

اب دیکھیے عباس تابش پوری نظم سے کیسے کھینچا لگایا ہے

نہ عشق ٹھیک سے ہوتا ہے اور نہ کار ِ جہاں

جو تم کہو تو کوٸی ایک کام چھوژ دیں ہم

عباس تابش

   آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو

نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو

ہے کوٸی اب جو لگی دل کی بجھاۓ میری

ہجر میں رو کے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو

یونہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشاد

 آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو

نوشاد علی

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے

 اب بھی جلتا شہر بچایا جاسکتا ہے

عباس تابش

 وقت مقتل سے مری لاش اٹھا لایا تھا

 لوگو میں اپنی گواہی میں خدا لایا تھا

اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں

میں جب آیا تھا یہاں تازہ ہوا لایا تھا

 میرے ہاتھوں میں بھی زیتون کی شاخیں تھیں کبھی

  میں بھی ہونٹوں پہ کبھی حرف دعا لایا تھا

سلیم کوثر

تم ہی آئے نہ صلح کی جانب

جب کہ میں بیچ میں خدا لایا

سخت ویران تھا یہ باغ سخن

میں یہاں موسم ِدعا لایا

عباس تابش

میں یہاں تک تو چلا آیا ھوں گردش کرتا

اور کیا مجھ سے تری کوزہ گری چاہتی ھے

“رضی اختر شوق”

یہاں تلک تو میں آیا ہوں دل کے کہنے پر

اب اس سے آگے ترا فیصلہ جو تو چاہے

عباس تابش

بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے

خرید لوں میں یہ نقلی دوا جو تو چاہے

یہ زرد پنکھڑیاں جن پر کہ حرف حرف ہوں میں

ہوائے شام میں مہکیں ذرا جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا

جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا جو تو چاہے

جب ایک سانس گھسے ساتھ ایک نوٹ پسے

نظام زر کی حسیں آسیا جو تو چاہے

بس اک تری ہی شکم سیر روح ہے آزاد

اب اے اسیر کمند ہوا جو تو چاہے

ذرا شکوہ دوعالم کے گنبدوں میں لرز

پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ جو تو چاہے

سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجدؔ

کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ جو تو چاہے

مجید امجد

ایسا لگتا ہے کہ یہ بات کئی بار ہوئی

آخری بار ملاقات کئی بار ہوئی

شہزاد سلیم 

کھینچ لیتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ

آخری بار کئی بار ملے ہیں تم سے

عباس تابش

میں اپنا ماس نہ کھاتا تو اور کیا کرتا

تمہاری یاد مجھے کھا رہی تھی ویسے بھی

حفیظ عامر

لہو کے گھونٹ نہ پیتا تو اور کیا کرتا

وہ کہہ رہے تھے ترا انتظام کرتے ہیں

عباس تابش

ہوا اڑا کے مجھے جس طرف بھی لےجاۓ

ترے خیال میں بھٹکا ہوا پرندہ ہوں

فرحت عباس شاہ

تلاش رزق میں نکلے ہوٸے پرندوں کو

میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا

عباس تابش

مرے گھر سے ابھی تہذیب کا رشتہ نہیں ٹوٹا

مرے بچے ,بزرگوں کو ابھی آداب کہتے ہیں

 شاعر نا معلوم

مرے دشمن کا بیٹا ہے مجھے آداب کہتا ہے

بڑے لوگوں کے بچے بھی بڑے معلوم ہوتے ہیں

 منور رانا

ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے

ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں

عباس تابش

 تو اسے اپنی تمماٶں کا مرکز نہ بنا

چاند ہرجاٸی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے

نامعلوم

تیرا سورج کے قبیلے سے تعلق تو نہیں

یہ کہاں سے تجھے آیا ہے سبھی کا ہونا ؟

عباس تابش

 چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک

 لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

شہزاد احمد

یہ ہم جو تجھے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں

ایسے تو چلی جاٸے گی بیناٸی ہماری

عباس تابش

اس کی میری چاہت بس کچھ ایسے بھی پروان چڑھی

جیسے باہم ہمدردی بڑھ جاتی ہے بیماروں

فرحت عباس شاہ

یہ محبت تو بہت بعد کا قصہ ہے میاں

 میں نے اس ہاتھ کو پکڑا تھا پریشانی میں

عباس تابش

ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا

دعا کرو کسی دشمن کی بدعا نہ لگے

محسن بھوپالی

ہزار عشق کرو لیکن اتنا دھیان رہے

کہ تم کو پہلی محبت کی بدعا نہ لگے

عباس تابش

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوٸی دیوار کے ساتھ

میر تقی میر

اور پھر دیوار پر دونوں اکٹھے ہوگٸے

دوستی ہے آج کل تصویر سے تصویر کی

عباس تابش

Loading