Daily Roshni News

عشق کیا ہے۔۔؟ قسط نمبر2

عشق کیا ہے۔۔؟

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عشق کیا ہے۔۔؟ قسط نمبر2)ان کی تعلیم و تربیت ، ان کی رہائش، لباس، خورد و نوش اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت میں لگا رہتا ہے۔ یہ تمام کام اپنی اولاد سے اس کے پیار کا اظہار ہیں۔ بھائیوں کے لئے بہنیں دعائیں مانگتی ہیں ان کی خوشیوں میں خوش اور غموں میں دُکھی ہو جاتی ہیں، یہ فطری پیار ہے۔ بھائی بہنوں کے سر پر سایہ شفقت ہو تے ہیں، ان کے تحفظ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ فطری پیارہے۔ آپ اپنے رشتہ داروں سے ملتے ہیں، ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں ، ان کے دکھوں میں روتے ہیں، تو آپ کے اندر یہ سب ایک جذبے کے

تحت ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کسی بھولے بھٹکے کو راستہ دکھا دیتے ہیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتے ہیں، کسی کی مدد کرتے ہیں، کسی کو تسلی دیتے ہیں، ضرورت کے وقت کسی کو اپنا خون دے دیے ہیں، خیر خواہی کے تحت کیے جانے والے ان سب اچھے کاموں کے پیچھے پیار کا فطری جذبہ موجود ہے۔

انسیت : Affection

انسیت، رغبت یا میلان بھی پیار ہی کی طرح ایک فطری جذبہ ہے مگر یہ پیار سے کچھ بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انسیت عموما کسی مخصوص شخص سے زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک سے زیادہ لوگ بھی اس کی تحریک کا سبب بن جاتے ہیں مگر انسیت کی خاصیت یہ ہے کہ اس جذبے کا محرک شخص باقی سب لوگوں کی نسبت کچھ خاص ہو تا ہے۔ اس جذبے کے لیے کسی باہمی رشتے کا ہونا ضروری نہیں۔ عموما تو یہ مرد اور عورت کے درمیان ہوتی ہے مگر انسیت کے ہر تعلق میں مخالف صنف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ کسی کو کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخص کو پودوں سے پیار ہے مگر اپنے اگائے ہوئے پودوں میں وہ کسی خاص پو دے سے زیادہ انسیت رکھتا ہے، یعنی اس کے لیے اپنا وہ ہو وہ باقی پودوں سے ممتاز اور منفرد ہو جاتا ہے، ایک ماں کے دس بچے ہیں مگر ممکن ہے ان میں سے کسی ایک سے اُسے کچھ زیادہ انسیت ہو جائے۔ وہ بیٹا یا بیٹی اپنے دوسرے بچوں کے نسبت ماں کو زیادہ پسند ہو۔ کئی دوستوں میں سے کسی ایک دوست کی طرف طبیعت زیادہ میلان رکھتی ہو۔

ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں، اسی طرح ہم اگر صرف مرد اور عورت کے درمیان ہونے والی انسیت کا ذکر کریں تو بھی یہ اپنی خاصیت اسی طرح بر قرار رکھتی ہیں۔ انسیت جب بہت بڑھ جاتی ہے تو وہ محبت کہلاتی ہے۔

محبت Romance

محبت کئی قسموں کی ہو سکتی ہے۔ یہ محبت کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معمولی بھی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔

پیار اور محبت میں ایک فرق یہ ہے کہ پیار یک طرفہ ہو سکتا ہے مگر محبت دو طرفہ ہوتی ہے۔ پیار ایک سے زیادہ انسانوں یا ایک سے زیادہ پرندوں، ہم دوں وغیر ہ سے ہو سکتا ہے مگر محبت ہر ایک سے مساوی نہیں ہوتی۔ محبت کرنے والوں میں ایک احساس ملکیت (Sense of Possession) بھی ہوتا ہے۔ محبت ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے ابتدا سے اختتام تک کہیں نہ کہیں پابند سلاسل نظر آتی ہے۔

محبت تقاضوں، توقعات اور بدلے (Returns)سے بھی وابستہ ہوتی ہے۔

شوہر کو بیوی سے، یا بیوی کو شوہر سے محبت ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے جذبات و احساسات ، ضروریات ، رائے اور مشوروں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ یہ خیال اس وجہ سے بھی رکھا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا جذبہ سدا بہار رہے۔ جب تک ایک دوسرے سے وابستہ توقعات پوری ہوتی رہیں ، محبت بر قرار رہتی ہے۔ توقعات ٹوٹنے لگیں تو محبت بھی کم یاختم ہونے لگتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ توقعات مرد یا عورت میں سے کسی کی لا پرواہی یا غیر ذمہ داری کی وجہ سے پوری نہ ہو پارہی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ توقعات ہی غیر مناسب ہوں یا احساس ملکیت Sense Of Possession کے تحت بالکل ہی غلط ہوں۔

عشق: Ishq

اب آتے ہیں عشق کی طرف!عشق ایک اعلیٰ ترین جذبہ ہے۔ اس جذبے میں نہ توقعات ہوتی ہیں اور نہ کوئی احساس ملکیت۔ یہ جذبہ اپنے اظہار کے لیے کسی جسمانی حسن یا کشش کا ضرورت مند نہیں۔ اس کے لیے وقت یا ماحول کی کوئی قید بھی نہیں۔ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ عشق ہو جاتا ہے۔ پسند، کشش، انسیت، محبت میں عقل انسان کو مسلسل گائیڈ کرتی رہتی ہے لیکن عشق میں عقل وجد ان کے تابع ہو جاتی ہے۔

محبت میں دو ہستیاں ہوتی ہیں۔ ایک محب اور دوسرا محبوب۔ عشق میں صرف ایک ہی ہستی ہوتی ہے۔ اسی ہستی کا جلال عشق کو سوز عطا کرتا ہے۔ اسی ہستی کا جمال عشق کو آسودگی بخشتا ہے۔

محبت میں دوئی ہوتی ہے۔ میں اور تو ہوتے ہیں۔ عشق میں وحدت ہوتی ہے۔ عشق میں ، میں نہیں رہتا۔ صرف تو ہی ہوتا ہے۔ ہر طرف تو ہی تو۔

عاشق کو اس دنیا میں ہر طرف، ہر نظارے میں اپنا معشوق ہی نظر آتا ہے۔یک دوسرے کے ساتھ انسیت یا محبت کی ڈور میں بندھے دو افراد میں سے کوئی کسی کے لیے تھوڑا سا بھی ایثارکرتا ہے، ذراسی تکلیف بھی اٹھاتا ہے تو کہتا ہے یا کہتی ہے کہ دیکھ …. میں نے تیرے لیے یہ کیا …. وہ کیا۔ راہ عشق کا مسافر بڑی سے بڑی تکلیف اٹھا کر ، گہرے سے گہر از تم کھا کر بھی کہتا ہے کہ اپنے معشق کے لیے میں کچھ بھی تو نہ کر سکا۔ حتی کہ راہ عشق میں جان کی بازی لگا دینے کے باوجو د وہ سوچتا ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ عشق کی یہ تعریف (Definition) اور عشق کے یہ انداز کوئی خیالی اور تصوراتی نہیں۔ یہ کسی فلسفی کا پیش کردہ کوئی نظریہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ وہ تعریف ہے جو حقیقت کے متلاشی طالب علموں نے تاریخ کے صفحات سے اخذ کیے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال اللہ کے دوست، ابراہیم خلیل اللہ صلى الله عليه وسلم اور آپ کے عظیم المرتبت صاحبزادے حضرت اسمعیل ہیں۔ حضرت ابراہیم کی حیات مبارکہ عشق کے ایک نہیں کئی انداز سے مزین ہے۔ اللہ کی وحدانیت کی دعوت کی پاداش میں بادشاہ وقت کے حکم پر حضرت ابراہیم کو تیز و تند بھڑکتی ہوئی آگ میں پھنکوا دیا گیا لیکن حضرت ابراہیم نے اف تک نہ کی۔ بڑھاپے میں ملنے والی اولاد اسمعیل کو ان کی نوجوانی کے دور میں اللہ کے اشارے پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اس کام کے لیے بیٹے کی مرضی معلوم کی۔ اسمعیل نے اپنے والد سے عرض کیا…. جو کچھ آپ کو حکم ہوا ہے کر ڈالئے ۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔“

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی عشق کا ایک انداز دنیا کو حضرت سمیہ نے سکھایا، انہوں نے ظالم ابو جہل کی برچھیوں کا سامنا کر کے اسلام کی پہلی شہید ہونے کی سعادت پائی … حضرت بلال حبشی نے تپتے انگاروں پر لیٹ کر احداحد کی لاہوتی صدا بلند کی ….

عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلایا تو کوئی باب العلم۔

عشق دم جبرئیل ، عشق دل مصطفی

عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام

 عشق کی تقویم میں، عصر رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

 اس عشق کی خاطر حضرت امام حسین نے دشتِ کربلا میں شہادت پائی ۔

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی عشق

عشق امتحانات سے خالی نہیں ہے۔ عشق کا میدان یا عشق کا راستہ آزمائشوں اور امتحانات سے بھرا پڑا ہے۔ اس راہ میں جگہ جگہ عقل اور عشق کی باہمی کشش بھی ہوتی رہتی ہے لیکن راہ عشق کے سچے مسافر عقل کو وجدان اور وحی کے تابع رکھنا جان لیتے ہیں۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے مجو تماشہ لب بام ابھی

عشق جہد مسلسل کا تقاضہ کرتا ہے۔ عشق کے زیر اثر ہونے والی ہر جستجو فطرت کے کسی نئے رنگ کو آشکارا کرتی ہے۔کسی نئی دنیا ، کسی نئے عالم کو منکشف کرتی ہے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے

 ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہے

ہم میں سے اکثر لوگ صنفی کشش، انسیت ، محبت کو عشق کا نام دیتے ہیں ۔ ان کیفیات کو عشق کی مجازی یا تمثیلی کیفیات یا عشق کی ایک محدود جھلک کہا جاسکتا ہے۔ حقیقی عشق ایک پائیدار اور مستحکم جذبہ ہے، عشق ہو جائے تو اس جذبے میں مسلسل شدت آتی رہتی ہے، عشق کی آگ ایک بار لگ جائے تو انسان کے پورے وجود کو تپا کر اسے کندن بنا دیتی ہے۔

عشق اضطراری کیفیت یا کسی ہیجان کا نام نہیں ہے۔ عشق میں انسان کن کیفیات اور کن مراحل سے گزرتا ہے اس کا بیان ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔ عشق کی تعریف بیان کرنا ممکن تو نہیں لیکن بعض لوگوں نے عشق کو فطرت انسانی کے لطیف ترین حسی

پہلو کا نام دیا ہے۔ بعض نے روح انسانی پر الہام و وجدان کی بارش سے تعبیر کیا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2016

Loading