Daily Roshni News

علم عقل اور عشق

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انترنیشنل۔۔۔ علم عقل اور عشق )عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے۔ اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:

مرتبہ فقر اصل میں مرتبہ معشوق ہے ۔ عِشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے معشوق کو جس چیز کی خواہش ہو عاشق اسے مہیا کردیتا ہے بلکہ معشوق کے دِل میں جو بھی خیال گزرتا ہے اس کی خبرعاشق کو ہو جاتی ہے اور وہ معشوق کی خواہش کو ایک ہی نگاہ میں پورا کردیتا ہے۔

چوں تمام افتد سراپا ناز می گرد دنیاز

قیس را لیلیٰ ہمی نامند درصحرای من

ترجمہ:

جب عشق کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ سراپا ناز (محبوب) کی صورت اختیار کر لیتا ہے’ چنانچہ میرے صحرائے عشق میں قیس کو لیلیٰ کہا جاتا ہے۔ یعنی عاشق کا عشق جب کمال کو پہنچ جاتا ہے’ تو عاشق گویا خود معشوق بن جاتا ہے’

بقول بابا بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ:

رانجها رانجها ﮐﺮﺩﯼ، ﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮯ ﺭﺍﻧﺠﮭﺎ ﮨﻮﺋﯽ

ﺳﺪﻭ ﻣﯿﻨﻮﮞ ﺩﮬﯿﺪﻭ ﺭﺍنجها، ﮨﯿﺮ ﻧﮧ ﺁﮐﮭﻮ ﮐﻮﺋﯽ

عقل کا منبع دماغ اور عشق کا مرکز دِل ہے اور دِل میں اللہ تعالیٰ کی جلوہ گری ہے اور پھر تمام دنیا وی علوم کی بنیاد عقل اور خرد پر ہے اور یہ سب علوم عقل ہی کی بدولت حاصل کیے جاتے ہیں تو بدلے میںیہ عقل وخرد میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ انسانی عقل اور اس کا علم محدود ہے۔ عقل اور اس کی بِنا پر حاصل علم ہمیں زمان ومکان کی حدودسے باہر نہیں لے جا سکتا اور عقل اور علم کی بِنا پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل نہیں ہوسکتی جب ہم علم اور عقل کی حدود پار کرکے عشق کی حدود میں داخل ہوتے ہیں توعشق تمام حدود پارکرکے ہمیں ”لامکان” تک پہنچا دیتا ہے۔

مولانا رومؒ کا قول ہے کہ” ہم عشقِ الٰہی کو علم وعقل سے بیان نہیں کرسکتے”۔ ۔

رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست

رہ عاشقاں جز خدا ہیچ نیست

ترجمہ:

عقل کا راستہ بہت پیچیدہ اور مشکل ہے اور عاشقوں کا راستہ خدا کے سواکچھ نہیں۔

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”علم اور عقل عشقِ الٰہی کی راہ کی بڑی کمزوری ہے عشقِ الٰہی میں وہ لُطف وسرور ہے کہ اگر کسی جید عالم کو اس کا ذرہ سا مزہ مِل جائے تو وہ تمام علمیت بھول کر عشق الہی میں گُم ہوجائے۔”

عشق کا کھیل ایسا ہی نرالا ہے جسے اﷲ کے عشق میں بے چین وبے قرار’ صادق دل طالب’ عقل اور خرد کی حدود سے نکل کراپنی زندگی اور مال ومتاع داؤ پر لگاکر کھیلتے ہیں۔اگر جذبے صادق ہوں تو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور دیدارِ حق نصیب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ یہ عشق ہی ہے جو دیدارِ حق تعالیٰ کا راستہ وا کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے عقل کے ہزار ہا ہزار قافلے سنگ سار ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ کو نہ پاسکے ۔ فقراء نے عشق ہی کے راستہ سے دیدارِ حق تعالیٰ کی نعمت حاصل کی۔

Loading