عموماً “الف لام میم” کو جوڑ کر لکھا جاتا ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )عموماً “الف لام میم” کو جوڑ کر لکھا جاتا ھے۔ سورۃ البقرہ کی تشریح، تفاسیر یا تحریر میں ا ل م کی بجائے ۔۔ الم ۔۔۔ لکھ دیا۔ حالانکہ ہم سب ان حروف کو “حروف مقطعات” کہتے ہیں۔ مقطعات کا لفظ “قظع کرنے سے” نکلا۔ قطع کا مطلب ھے، الگ الگ کرنا۔ اور ہم قطع کئے بغیر اسے لکھ دیتے ہیں؟؟
گہری بات یہ ھے، کہ قرآنِ مجید “آواز” ھے، تحریر نہیں ھے۔۔۔
کیونکہ ہم تلاوت یا قرآت بالکل درست کرتے ہیں۔
سوچنا اسی نقطہ پر ھے، جب تمام مسلمان ان حروف کی قرآت’ درست کرتے ہیں اور ان حروف کو ان ہی معنوں میں سنتے ہیں تو پھر ان حروف کو درست کیوں نہیں لکھتے؟؟ اس لئے کہ! قرآنِ مجید کوئی تحریر نہیں، کلام الٰہی ھے۔۔۔
اس بات کو حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام کے معجزہ سے سمجھتے ہیں۔ آپ کا معجزہ “ٹاکنگ ان ٹنگز” ھے۔
یعنی بہت سی مادری زبان بولنے والوں کے سامنے آپ صرف ایک عبارت میں اپنی بات مکمل کرتے تھے۔ اور تمام سننے والے اس ایک عبارت سے اپنے اپنے سوالوں کے جواب سمجھ جاتے تھے۔ سامنے کھڑے ہونے تمام افراد سمجھتے، حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام انھی کی مادری زبانوں میں ان سے مخاطب ہیں۔
آج کی تحقیقی یا سائنسی دور میں یہ سارا کام “ہوموفونز” کے بغیر نہیں ہو سکتا. کیونکہ کسی بھی زبان کا کوئی لفظ دوسری زبان میں جا کر دوسرا معانی اور مفہوم دیتا ھے۔
مگر آپ کا اس طرح کی گفتگو کرنا، حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام کا الہیٰ معجزہ یا کلام الٰہی تھا۔ یہ انسان خود سے نہیں کرسکتا۔۔۔