Daily Roshni News

عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار۔۔۔تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم۔۔۔(قسط نمبر1)

عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار

تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم) عموما مجھے حکومتی معاملات پالیسیز، بجٹ وغیرہ کے متعلق لکھنے کا دل ہی نہیں کرتا کیونکہ یہ ایسے معاملات ہیں جو عوام کے بس سے باہر ہیں اور ان پر لکھنا ماسوائے اپنی ٹینشن ڈپریشن میں اضافے کے کچھ نہیں ۔لیکن اب حکمرانوں کی عیاشیاں اور من مانیاں حد سے تجاوز کرتی جا رہی ہیں۔لہذا سوچا چلیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔چند اقساط میں ہم ساری صورتحال کا جائزہ لیں گے۔اس لئے ہر پوسٹ کو غور سے اور تین سے پڑھیے گا۔شکریہ

ہر سال بجٹ سے چند روز پہلے حکومت معاشی کفایت شعاری پر لیکچر شروع کر دیتی ہے۔ بجلی اور گیس مہنگی کرتی ہے۔سرکاری ملازمین کی پنشن میں کمی لاتی ہے۔ لیکن چیف ایگزیکٹیوز کے عہدوں میں اضافے کرتی ہے۔ عوام اس تضاد کو مزدور اور حکمران طبقے کے لیے الگ معیارسمجھتے ہیں۔

1فروری 2025 کو اشاعت ہونے والی ڈان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنانس کمیٹی نے کہا ہے کہ سات سال سے پارلیمنٹرینز کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ۔بزنس ریکارڈرکی رپورٹ بھی واضح کرتی ہے کہ ممبران کی تنخواہ سات سال کی طویل مدت سے ایک ہی ہے ۔نو سال کے بجائے یہ سات سال کی مدت ہے۔

حکومت نے کافی عرصے کے بعد ایم این ایز اور سینیٹرز کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔حالیہ پارلیمانی اجلاس اور قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، ایم این ایز (ارکان پارلیمنٹ) اور سینیٹرز کی بنیادی تنخواہ یکم جنوری 2025 سے بڑھاکر 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ کردی گئی ہے۔ اس اضافہ سے پہلے ایم این ایز کی تنخواہ 2 لاکھ 18 ہزار روپے ماہانہ تھی، جو تقریباً 140فیصد یا 300 فیصد  مجموعی اضافہ کے برابر ہے  ۔

چونکہ آخری مرتبہ اُن کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ 2015-2016 میں ہوا تھا۔ فنانس کمیٹی، جس کی سربراہی اسپیکر ایاز صادق کر رہے ہیں، نے وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور مراعات کے برابر ایم این ایز اور سینیٹرز کو رکھنے کی سفارش کی تھی ۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ایم این ایز کو وفاقی سیکرٹریز جیسی مراعات فراہم کی جائیں گی  ۔

 تنخواہ کے علاوہ کون سی مراعات بڑھائی گئی ہیں ،ہاؤس الاؤنس،مکینیکل گاڑی اور ڈرائیور،ماہانہ الیکٹرک/گیس/فون الاؤنسز،سفری اخراجات ٹی اے ڈی اے۔

 بی بی سی اردو کے مطابق تنخواہوں میں یہ اضافہ یکم جنوری 2025 سے لاگو ہو گا  ۔

سرکاری موقف میں اس اضافے کے یہ دلائل دئیے گئے ہیں:

  1. اعلیٰ پوسٹ کی ضروریات

مالی کمیٹی اور وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایم این ایز اور سینیٹرز کے دائرہ کار اور ذمہ داریاں وفاقی سیکرٹریز کے برابر ہیں، لہٰذا تنخواہ کا فرق ختم کرنا چاہیے  ۔

  1. تنخواہوں کا عدم اضافہ

گزشتہ نو سال میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہوں کا پیمانہ 2015 کی قیمتوں پر مستحکم رہا۔ اس عرصے میں مہنگائی اور معاشی دباؤ میں اضافہ ہوااس لیے تازہ اضافہ ناگزیر تھا  ۔

  1. مقابلتی بنیاد

وفاقی حکام کا کہنا ہے کہ ایم این ایز کی تنخواہ اب بھی گریڈ 22 کے حکام (وفاقی سیکرٹریز) سے کم ہے۔ اس لیے ان کی تنخواہ اُس معیار کے قریب لائی گئی ہے  ۔

  1. اجلاسوں میں اتفاق رائے

فنانس کمیٹی نے اس مد میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان سب کی اتفاقِ رائے سے یہ بل منظور کیا  ۔

5 صوبائی اسمبلیوں میں اضافہ: ایک مثال

سنہ 2024 دسمبر میں پنجاب اسمبلی نے بھی تنخواہوں میں بے مثال اضافہ کیا:

ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار سے 4 لاکھ روپے ماہانہ کی گئی۔وزیر کی تنخواہ 1 لاکھ سے 920ہزار روپے؛

اسپیکر: 125 ہزار سے 950 ہزار؛

ڈپٹی اسپیکر: 120 ہزار سے 775ہزار؛

پارلیمانی سیکرٹری: 83 ہزار سے 451 ہزار؛وزرائے اعلیٰ کے مشیروں و معاونین: 1 لاکھ سے 665ہزار روپے  ۔

یہ تقریباً 400 فیصد اضافہ ہے، جب کہ اس وقت عوامی حلقوں میں مہنگائی کے باعث عوام پریشان تھے  ۔

حکومت نے وزراء اور پارلیمانی ارکان کے لیے 159 سے 188% تک غیر معمولی تنخواہوں کا اعلان کیا۔ یہ تضاد صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ کسی جامع قومی بجٹ میں شامل نہیں تھا؛

فوری عملدرآمد کے ساتھ کیا گیا؛

کسی کفایت شعاری پالیسی کے تابع نہیں تھا۔

2024–25 کے صوبائی بجٹ میں ( خیبر پختونخوا) سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 10% اضافہ کیا گیا  ۔فیڈرل سطح پر بھی بجٹ 2022–23 میں ”حکومتی ملازمین کی تنخواہ 15% بڑھائی گئیں” جیسا اعلان شامل تھا  ۔

تاہم عوام کی سطح پر، ریڈڈیٹ اور ماہرین کی رپورٹوں سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ چند فیصدی اضافہ مہنگائی کی شرح کا محض تسلسل نہیں روک پاتا۔

عام طور پر حکومتی ملازمین کی تنخواہوں میں 20-30% اضافے سالانہ یا دو سال میں ہوتے ہیں، دسمبر میں اور  بجٹ اعلانات میں (مثلاً 2017-18 میں 10% اضافہ عمل میں آیا)  ۔

حالیہ اضافہ 2025 میں پہلی مرتّبہ نہیں، مگر اس سے قبل ایک مخصوص عرصے کےدوران کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔وزراء بننے سے پہلے ان کی تنخواہیں دیگر افسران سے میچ نہیں کرتی تھیں۔حالیہ اضافہ یہ خلا پر کرنے کا اقدام ہے۔ یعنی اب وزراء، پارلیمنٹیرینز، بیوروکریٹس (گریڈ22) کے برابر بنیادی تنخواہ پر آ گئے ہیں ۔وزراء نے “سرکولیشن سمری” کے ذریعے ایکسچینج کورس میں فروری/مارچ 2015 میں اضافہ کیا  ۔

کوئی مخصوص مدت کا فارمولہ (مثلاً ہر پانچ یا سات سال بعد اضافہ) پارلیمنٹیرینز یا وزراء کے لیے موجود نہیں۔فیصلے “بازاری اور سیاسی فشار”, یا “پرفارمنس و تناسبی دلائل” کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔جیسے حالیہ عدالتوں میں موجود مالی دباؤ، IMF شرائط، بیوروکریٹس کے ساتھ مساوات، وغیرہ۔

حالیہ اضافے پچھلے تقریباً 7-10 برسوں کے سب سے بڑے اضافے کے طور پر سامنے آئے: پارلیمنٹیرینز نے 140 جبکہ وزراء نے 159-188کے قریب اضافہ کیا۔

یہ اضافے تاریخی لحاظ سے غیر مقرر وقفوں پر کیے گئے۔2015-16 کے علاوہ، اب 2025 میں ایک بڑا بل بنایا گیا۔

وفاقی وزراء نے پارلیمنٹیرینز کے معاوضے کو اپنے برابر لانے کی غرض سے قانون میں ترمیم کروائی،۔حالانکہ ان کی تنخواہ میں پچھلے اضافے غیر متواتر تھے۔

مہنگائی، بے روزگاری اور ریٹ کنٹرول مسائل کے مد میں یہ معاملہ عوامی تحریک کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں اس اضافے کی سماعت، استفسار اور احتجاج کیلئے آئینی راستے اختیار کرسکتی ہیں۔

عوام مزید مطالبہ کر سکتی ہے کہ  بتایا جائے کہ یہ اضافے کتنے عرصے کے لیے اور کس پیمانے پر ہیں اور پارلیمنٹیرینز کا ٹیکس ریٹرنز و دیگر مالی معلومات کا کیا حال ہے۔

یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کا ہر طبقہ مہنگائی کے شکنجے میں ہے۔ اس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے۔ حکومتی دعوے کہ اس اقدام سے بدعنوانی کم ہوگی یا صنعت میں میرٹ کی بحالی ہوگی۔ عوام کی جانب سے شکوک و شبہات میں بدل رہے ہیں۔

حکومت کے سامنے ایک سنجیدہ امتحان ہے۔ یا تو وہ اپنی پالیسی کو شفاف بنائے، اضافوں کے حق میں ٹھوس معقول دلائل پیش کرے، اور عوام کے اقتصادی دباؤ کو کم کرنے کے عملی اقدامات دکھائے۔ وگرنہ یہ مسئلہ برطانوی دورِ اقتدار کے بعد دوبارہ عوامی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔

جاری ہے

Loading