عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار
حمیراعلیم
قسط 2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم) ریڈڈیٹ پرمتعدد پوسٹس میں عوام نے اس اقدام پر شدید تنقید کی:
“کابینہ نے دہشت گردی کے جواب میں اپنا معاوضہ 188٪ بڑھا لیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔“
“عام شہری بھوک مٹانے کو struggles کر رہا ہے۔بچوں کے لیے کھانا بھی نہیں، اور یہ لوگ اربوں روپے کے اضافہ لے جاتے ہیں۔ یہ استحصال ہے۔“
ایک اور صارف نے کہا:
”1 لاکھ سے 950 لاکھ تک۔ یہ کرپشن ہے، لعنت ہو ایسے ڈاکوؤں پر۔“
ایک قابل ذکر تبصرہ:
”اگر کوئی ایماندار اور محنتی ہو تو وہ اتنے پیسوں پر بدعنوانی سے بچ سکتا ہے۔“
“جب ایک عام شہری 30 ہزار ماہانہ پر گزارا کرتا ہے، تو وزیر کیوں نہیں؟ یہ خالص چوری ہے۔4-5 لاکھ کی بجائے 21 لاکھ لے لیں بس کرپشن چھوڑ دیں۔“ ایک صارف نے لکھا:
“جب متوسط مزدور 50 ہزار پر گزارا کرتا ہے، یہ لوگ4۔11 ملین روپے سالانہ لے رہے ہیں۔ یہ خالص ٹیکس چوری ہے۔“
بعض صارفین اس کے حق میں بھی تھے:
“اگر حکومت اہل لوگوں کو اچھی تنخواہ دے تو بدعنوانی کم ہوگی یہ ایک اچھا قدم ہے۔“
لیکن مجموعی ردعمل میں افسوسناک معاشی صورتحال اور عدم مساوات کے تناظر میں اس اقدام کو ناانصافی اور عوام کا استحصال قرار دیا گیا۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھ ہے۔ اور تنخواہیں کافی کم ہیں۔ اوسط شہری کی ماہانہ آمدنی 20-50 ہزار روپے ہے جبکہ ایم این اے کی بنیادی تنخواہ اب 19۔5 لاکھ روپے ہے – جو 10 سے 25 گنا زیادہ ہے۔تنخواہ کے علاوہ جو مراعات ہیں:گھروں کے کرائے، بل، خصوصی پنشن، کمرشل گاڑیاں،پٹرول، یوٹیلیٹی بلز،مفت ائیر ٹکٹ۔وہ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ Redddit صارف نے لکھا:
“ریٹائرڈ ججز کو ماہانہ 1 ملین پنشن ملتی ہے، 2000 یونٹ مفت بجلی، 30 لیٹر مفت پیٹرول۔“
یہی مراعات پارلیمنٹیرینز کے لیے بھی ہیں۔ جس سے متاثرہ عوام میں بے چینی مزید بڑھتی ہے۔پارلیمنٹیرینز کا تنخواہوں میں اضافہ اپنی جگہ، لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کیا اس میں عوامی مفاد بھی شامل ہے؟ کیا یہ اضافہ حقیقی طور پر بہتر نمائندہ نظام یا خدمت کا سبب بنے گا، یا صرف حکومتی طبقات کی آمدنی میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اسے اپنا پیسہ سمجھیں گے اور آیا حکمران اس پیسہ کے عوض عوام کے لئے واضع نتائج پیش کر سکیں گے؟
حکومت کے سامنے ایک سنجیدہ امتحان ہے۔ یا تو وہ اپنی پالیسی کو شفاف بنائے، اضافوں کے حق میں ٹھوس معقول دلائل پیش کرے، اور عوام کے اقتصادی دباؤ کو کم کرنے کے عملی اقدامات دکھائے۔ وگرنہ یہ مسئلہ برطانوی دورِ اقتدار کے بعد دوبارہ عوامی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری اور ریٹ کنٹرول مسائل کے مد میں یہ معاملہ عوامی تحریک کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں اس اضافے کی سماعت، استفسار اور احتجاج کیلئے آئینی راستے اختیار کرسکتی ہے۔عوام مزید مطالبہ کریں گے کہ یہ اضافے کتنے عرصے اور کس پیمانے پر ہیں، اور پارلیمنٹیرینز کا ٹیکس ریٹرنز و دیگر مالی معلومات کا کیا حال ہے۔
یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کا ہر طبقہ مہنگائی کے شکنجے میں ہے۔ اس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے۔ حکومتی دعوے کہ اس اقدام سے بدعنوانی کم ہوگی یا صنعت میں میرٹ کی بحالی ہوگی، عوام کی جانب سے شکوک و شبہات میں بدل رہے ہیں۔
اس فرق نے شہریوں میں انصاف کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں ۔اب وقت ہے کہ وفاقی نظام، عوامی نمائندگی، اور معاشی شفافیت کا ضابطہ قوم کو پیش کیا جائے۔ورنہ فرق بڑھتا جائے گا، اور عوام کا اعتماد دھوکے میں تبدیل ہوگا۔
حالیہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں وقتی کمی کے باوجود عام پاکستانی آج بھی 2022–23 کی معاشی آفتوں کے اثرات سے نہیں نکل پایا۔ ایسے میں “مساوی اجرتی اضافہ” اور “مہنگائی میں کمی” محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ ایک معاشی و اخلاقی ضرورت ہیں۔
جنوری–مارچ 2025 میں پاکستان کی سالانہ مہنگائی صرف 5۔1% رہی ۔بعض ماہانہ اعداد (مثلاً فروری 2025 میں سی پی آئی 8%) سے پتا چلتا ہے کہ قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوئی ۔
مگر اس کے باوجود عوام کی قوتِ خرید مسلسل گرتی رہی کیونکہ گزشتہ تین سال میں 20-30% مہنگائی کا سامنا رہا۔فروری–مارچ 2025 میں وفاقی وزراء نے 188% تک جبکہ عوام کو صرف 10% اضافہ دیا گیا۔اضافے کی شرح10% اور 188% جبکہ مہنگائی کی شرحسالانہ 5۔1 سے 2% (جنوری 2025)–
اضافہ بمقابلہ مہنگائی برابری سے بہت کم بے حدو حساب ہے ۔اس سے عوام کی حقیقی آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ رہ گئے وزراء تو انہیں نہ کوئی مہنگائی کا خوف، نہ کوئی پابندی۔ ان کی اضافی تنخواہ پورے معاشی مرحلے میں صفر اثر رکھتی ہے!
پاکستان کی مہنگائی 2022-23 میں 38-26% تک پہنچی ۔ 2023 میں گندم، چینی، دالوں، تیل وغیرہ 30-20% تک مہنگی ہوئیں ۔
2025 میں قیمتیں پہلے سے بہت بلند ہیں، اور آمدن گھٹ گئی ہے ۔
مارچ 2023 میں مہنگائی 35.4٪ کی ریکارڈ سطح پر پہنچی۔ گندم، چینی، تیل، بجلی، اور گیس کی قیمتیں 2 گنا سے 5 گنا بڑھیں۔
2025 میں اگرچہ افراطِ زر 2.4٪ تک کم ہو چکی ہے، لیکن قیمتیں نیچے نہیں آئیں۔عوام کی اجرتیں بڑھتی نہیں، مگر افراطِ زر نے انہیں بدترین مفلسی میں مبتلا کر دیا وزراء کا دفاع یہ کہہ کر کیا گیا کہ
کرپشن کم کرنے کے لیے تنخواہ بڑھانا ضروری ہے۔انہوں نے مراعات کے ساتھ بجٹ رکھا ہے۔ان کی تنخواہ بیوروکریٹس کے برابر ہونا چاہیے۔یہ جواز عوام میں بے حد بے اعتباری کا سبب بنا کیونکہ عام ملازمین نے کبھی اتنا معاوضہ نہیں سلام پایا۔
اساقدام نے کئی سوشل و اخلاقی سوال کھڑے کیے:عوام کا اعتماد کمزور ہواخاص طور پر جب وہ خود روزگار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ماس کمیٹس (جیسے KP ملازمین) کو 10% اضافہ ملا مگر وہ مہنگائی کی زد میں رہے۔ اسی دوران وزراء لاکھوں میں اضافے لے رہے تھے۔ آئینی اور سیاسی سوالات
غیر متناسب افزائش ملکی آئین و انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔شارٹ ٹرم معاشی فرق پیدا کرتا ہے اور سماجی تقسیم کو بڑھاتا ہے۔
یہ توہو گیا تقابل اور جائزہ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس مسئلے سے نکلنے کاکیا راستہ ہے؟
اگر پاکستان کو معاشی اور اخلاقی دونوں طور پر مستحکم کرنا ہے تو اقدامات ہونے چاہئیں:
وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی انکم اور فوائد عوام کو واضح کیے جائیں۔ عوامی تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے مطابق ہو۔
تمام سرکاری اعداد و شمار آئین میں درج ہوں۔تاکہ انصاف کا بیڑا عوام کے ہاتھوں میں ہو۔
ایماندار نمائندوں کی تنخواہ مناسب ہونی چاہیے مگر استحصال سے بچنی چاہیے۔ سرکاری ملازمین کے تنخواہوں اور مہنگائی کے اعداد و شمار کی سالانہ رپورٹ کی اشاعت یقینی بنائی جائے۔
جب عوامی نمائندے خود کے لیے لاکھوں روپے اضافی معاوضہ منظور کریں اور عوام کو دو ہزار روپے ماہانہ اضافے پر ٹرخایا جائے تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25 کہتا ہے:
“تمام شہری قانون کی۔نظر میں برابر ہیں اور برابر تحفظ کے حق دار ہیں۔”
تو پھر تنخواہوں میں یہ فرق کس اصول پر؟
جواز یہ دیا گیا کہ “زیادہ تنخواہ سے کرپشن کم ہو گی۔” تو کیا یہ اصول صرف وزراء پر لاگو ہوگا؟
عام کلرک، استاد، نرس، کانسٹیبل، لیکچرر اور دیگر ملازمین بھی کرپشن سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔اگر انہیں مناسب تنخواہ دی جائے۔
جب ایک طبقہ تنخواہوں میں تین گنا اضافہ لیتا ہے اور دوسرا طبقہ صفر یا محدود اضافہ تو معیشت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے:
خریداری کی طاقت مخصوص طبقے تک محدود؛ غربت میں اضافہ؛ سماجی بے چینی بڑھتی ہے۔
جاری ہے