عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار
قسط3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عوام اور حکمرانوں کے لیے دوہرا معیار۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم) مہنگائی میں کمی نعرہ نہیں، پالیسی چاہیے۔کچھ تجاویز ہیں :
سبسڈی اور ریگولیشن کی بحالی
عوامی سہولت کے لیے اشیائے خورد و نوش، بجلی، گیس پر مستقل سبسڈی دی جائے۔مارکیٹ میں قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے کنٹرول ریٹس بحال کیے جائیں۔
درآمدات پر انحصار کم کر کے مقامی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔جیسا کہ ایران میں ہو رہا ہے۔
عوامی ٹرانسپورٹ اور تعلیم کو سستا بنایا جائے۔مہنگائی کا براہِ راست اثر عوام کی روزمرہ زندگی پر ہوتا ہے۔ اگر: بس کا کرایہ کم ہو؛
* اسکول فیس کم ، یونیفارم اور کتب فری ہوں تو تعلیم ممکن ہو گی۔ میڈیکل اخراجات پر قابو پایا جائے۔تو حقیقی معنوں میں مہنگائی کم محسوس ہو گی۔قیمتوں میں کمی کی جائے، ٹیکسیز کی تعداد مناسب رکھی جائے۔
اگر اداروں میں موجود کرپشن کم ہو جائے، تو: سرکاری منصوبے وقت پر مکمل ہوں گے؛
سرکاری اشیاء (آٹا، چینی، پیٹرول) مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہوں گی۔مڈل مین مافیا کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔
عوام کیا کہتے ہیں ؟
سوشل میڈیا، ریڈڈیٹ، اور دیگر پلیٹ فارمز پر عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا:
“ہمیں 2000 روپے بڑھا کر کہہ رہے ہیں خوش ہو جاؤ، اور خود لاکھوں کی منظوری؟ یہ کیسا انصاف ہے؟”
“جنہیں قوم کی خدمت کرنا تھی، وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔”
“کرپشن کی روک تھام تنخواہ بڑھانے سے نہیں، قانون کے نفاذ سے ہوتی ہے!”
قابلِ عمل تجاویز
1. “Sliding Salary Scale” متعارف ہو
جس طرح مہنگائی بڑھتی ہے اسی تناسب سے تمام عوامی و نجی ملازمین کی تنخواہیں بڑھیں۔
سالانہ افراطِ زر کی شرح کے مطابق از خود تنخواہوں میں اضافہ ہو۔ وزارتی تنخواہوں پر عوامی مشاورت کی جائے۔
وزراء کی تنخواہوں میں اضافے سے قبل عوامی شنوائی (public hearing) لازمی ہو۔ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے ساتھ ساتھ عوامی رائے بھی شامل کی جائے۔
قومی تنخواہ مساوات ایکٹ (National Pay Equity Act)
ایک ایسا قانون جو گریڈ 1 سے 22 اور وزراء تک تمام تنخواہوں کے تناسب کو منصفانہ بنائے۔
زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم تنخواہ کے درمیان ایک منصفانہ حد طے کرے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں، مگر نیت کی ضرورت ہے۔ مساوی تنخواہیں صرف “کارکنان” کے لیے نہیں، بلکہ یہ نظام کی اخلاقی ساکھ کا پیمانہ ہیں۔جب تک: عوام کو وہی تحفظ، معاوضہ اور احترام نہیں ملے گا جو وزراء خود کے لیے مانگتے ہیں
مہنگائی پر سنجیدہ، مستقل اور شفاف پالیسی نہیں لائی جاتی
تب تک “ریاستِ مدینہ” یا “عوامی جمہوریت” محض نعرے ہی رہیں گے۔
ہم اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اپنی آواز بلند کریں۔ سوشل میڈیا پر شعور اجاگر کریں۔ عوامی نمائندوں سے سوال کریں کیا آپ حکومت میں صرف اپنے لیے ہیں یا اس قوم کے بھی نمائندہ ہیں؟
ہمارے ملک میں عوام کے لیے ٹیکسیز کی شرح 38% ہے جو کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے برابر ہے۔لیکن یہ صرف عوام کے لیے ہے ایلیٹ کلاس اور حکمران ، سیاستدان اس سے مستثنٰی ہیں۔ان کی شوگر ملز اور کاروبار ٹیکس فری ہیں۔جبکہ کسان کی گندم پر بھی کئی ٹیکسیز اور قیمتیں نہایت ارزاں ہیں۔پچھلے دنوں بھنڈی 1یک روپے کلو بیچی گئی۔جبکہ آج کل ایک کینڈی بھی کم از کم دس روپے میں آتی ہے۔
ہم ٹیکس تو امریکہ والا دے رہے ہیں اور بدلے میں کوئی سہولت بھی نہیں پا رپے۔جب کہ امریکہ میں تعلیم، میڈیکل فری ہیں۔اگر کوئی بے روزگار ہے یا کم آمدنی والا ہے تو اس کے گھر کا آدھا کرایہ بلز حکومت دیتی ہے۔اسے ماہانہ انکم سپورٹ دی جاتی ہے۔بے گھروں کو گھر دئیے جاتے ہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا سوشل سیکورٹی سسٹم سارا اسلامی نظام کے مطابق ہے۔جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ بھی اسلام کے مطابق نہیں۔
پیہ تو ہو گیا ہماری ٹینشن ، فرسٹریشن کا سامان۔کیونکہ جب عوام حکمرانوں کو ذیادتی کرتے دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتے تو بس فرسٹریٹ ہی ہوتے ہیں اور خودکشی کر لیتے ہیں یا اپنے بھائی بندوں کو لوٹنے لگتے ہیں۔اس لیے حکومت اور نام نہاد عوامی نمائندوں سے کسی بھی بھلے کی توقع رکھنے کی بجائے آئیے دیکھیں کہ ہم خود اپنے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
جب آمدنی 20 ہزار ہو اور خرچہ ایک لاکھ توغریب کیا کرے؟جوائنٹ فیملی میں رہنے کی کوشش کریں تاکہ خرچہ کم ہو جائے۔اگر گاوں میں اپنا گھر یا زمین ہے تو وہاں شفٹ ہو جائیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بجائے بچوں کو سرکاری یا این جی اوز کے تعلیمی اداروں میں داخل کروا دیں۔کیونکہ تعلیم تو دونوں میں ہی برائے نام ہوتی ہے۔والدین یا ٹیوشن نہ ہو تو بچے نقل کر کے پاس ہو جاتے ہیں۔گھر کے نزدیک تعلیمی اداروں کو ترجیح دیں تاکہ وین کا کرایہ بچے ۔ بچوں کو سمجھائیں کہ “پڑھائی رکے گی نہیں لیکن انداز بدلے گا۔”
اگر آپ کے پاس ہنر نہیں، تو فوری طور پر کوئی فزیکل کام پکڑیں کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔عزت کے ساتھ اپنا خرچ پورا کرنے کے لیے یہ سب کرنا پڑے گا۔
ہوٹل، ہوم ڈلیوری، رکشہ، صفائی، فیکٹری، بھٹی، فوڈ کارٹ
اگر پڑھے لکھے ہیں مگر نوکری نہیں، تو ریڑھی، سبزی، چائے، دستکاری ، گھریلو فیکٹری جیسے چپس پاپ کارن، شاپر بنانا، آئس کریم، یا کوئی بیوٹی پراڈکٹ کا کام شروع کریں۔ یہ وقت تعلیم، انا، گریڈ یا عزت کے بھرم کا نہیں صرف زندہ رہنے کا ہے۔
روزانہ کھانے کوسادہ ترین کر دیں۔
گوشت مکمل بند کریں (عارضی طور پر) صرف دال، آلو، چائے، اور روٹی
اگر گیس کا بل نہیں دینا تو لکڑی یا کوئلے پر کھانا پکانے پر غور کریں۔ یا سولر چولہا لے لیں. مدد مانگیں اداروں، مساجد، اور مقامی سوسائٹی سے۔کسی مخیر شخص یا این جی او سے رکشہ، ریڑھی، فوڈ کارٹ لیں یا اخوت سے بنا سو قرض لے کر کام شروع کریں۔ایسے اداروں سے مدد لیں جو نہ صرف سرمایہ دیتے ہیں بلکہ رہنمائی بھی کرتے ہیں۔
خودداری اچھی بات ہے مگر بھوک غیرت کھا جاتی ہے۔ کام شروع کرنے کے لیےمقامی مسجد، مدرسہ، بیت المال یا کمیونٹی اداروں سے راشن یا مالی امداد زکوہ صدقات لیں۔
حکومتی بیت المال، احساس پروگرام، یا NGO اسکیمز (جیسے سیلانی، عالمگیر، جے ڈی سی) میں درخواست دیں۔ یہ وقت خاموشی کا نہیں، اپنی ضرورت بتانے کا ہے۔
قرض کو آخری آپشن رکھیں۔کیونکہ اس کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی۔سود کبھی بھی نہ لیں۔کریڈٹ کارڈ استعمال نہ کریں۔کیونکہ ساری اللہ اور رسول سے جنگ ہے۔اور سود لے کر شروع کیے جانے والے کام میں کبھی برکت نہیں ہو گی۔
قریبی جاننے والے، محلے دار، پرانے آجر یا دوست سے قرض لیں۔صاف لفظوں میں مدت بتائیں: “مہینے بعد واپس کر دوں گا، یا آدھا آدھا کر دوں گا”۔
یقین رکھیں مشکل حالات مستقل نہیں ہوتے۔ آج آپ کے پاس کچھ نہیں، مگر اگر آپ نے خود کو بکھرنے نہیں دیا تو کل کی تصویر بدل سکتی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں ہزاروں افراد نے ریڑھی سے کروڑ کا کام بنایا۔اس لیے بہترین پلاننگ کے ساتھ محبت اور اللہ سے برکت کی دعا کریں۔ خاموش مت رہیں اپنی حالت بیان کریں مدد مانگیں حق لیں
اگر کوئی سرکاری افسر، محلہ کمیٹی، یا مقامی نمائندہ ملے تو بلا جھجک بتائیں کہ: “ہمارے گھر میں فاقہ ہے۔میرے پاس بجلی کا بل بھرنے کو کچھ نہیں۔بچوں کے کپڑے نہیں۔”شاید وہ نہ سنیں، مگر خاموش رہنے سے کوئی کچھ نہیں دیتا۔
جن کے پاس اپنے گھر جیسی نعمت ہے وہ ایک پورشن یا ڈرائنگ روم کرائے پر دے کر آمدنی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔لڑکوں یا لڑکیوں کا ہاسٹل بنا لیجئے۔ائیر بی این بی ، پے اینگ گیسٹ ، گیسٹ ہاوس کی سہولت شروع کر لیں۔
یاد رکھیں بوکھلاہٹ میں آدمی بکھرتا ہے، مگر صبر میں راستے نکلتے ہیں۔
مہنگائی کی ذمہ داری آپ پر نہیں یہ نظام کا جرم ہے۔ مگر بچنے کی ذمہ داری اب بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ کا ہاتھ صرف مانگنے کے لیے نہیں، کمانے، سنبھالنے، اور لڑنے کے لیے بھی بنا ہے۔
جاری ہے