Daily Roshni News

عورت کی بیعت۔۔۔ تحریر  ۔۔۔ سید اسلم شاہ

عورت کی بیعت

تحریر  ۔۔۔ سید اسلم شاہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ عورت کی بیعت۔۔۔ تحریر  ۔۔۔ سید اسلم شاہ)خدا کسی پر اُس کے استطاعت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ عورت کا پیر اس کا خصم ہوتا ہے۔ عورت کے لیے یہی حکم ہے کہ گھر بیٹھ کر اپنے مالک کی خوب خوب تابعداری کرے۔ جو عورت اپنے مالک کی تابعدار رہے گی دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہوگی۔

۔

عورت کو گھر بیٹھے ہی مالک کی تابعداری میں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو مرد کو عرفان خودی کی راہ میں خود کو مٹا کر ملتا ہے کیونکہ مرد جو بھی کما کر لاتا ہے اس میں اس کی گھر والی برابر کی حصہ ہوتی ہے۔

۔

عورت کے لیے حکم ہی نہیں کہ اپنے مالک کو چھوڑ کر کسی کی بیعت لے اللہ کی طرف سے اس کو اس طرح کا کوئی حکم دیا ہی نہیں گیا۔ مرد کو حکم دیا کہ عرفان خودی کا جوہر میری بارگاہ میں پیش کرو تب تیری رہائی ہوگی عورت کو حکم دیا کہ تو اس سفر میں اس کا ساتھ دو، اس کی تابعداری میں وہ سب کچھ مل جائے گا تو چاہتی ہے۔

۔

تو کیا عورت کا بیعت کرنا غلط ہے؟

بات صحیح غلط کی نہیں حکم کی ہے اگر مالک کی طرف سے آسانی مہیا کی گئی ہے تو اس آسانی سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ مالک کی طرف سے سہولت مہیا کی گئی ہے۔

۔

ڈیوٹی از ڈیوٹی۔ مرد کو حکم دیا عرفان خودی کا جوہر پیش کرو، اب اگر یہ اپنا کام نہیں کرتا غفلت میں وقت گزارتا ہے تو بلآخر پکڑ میں آئے گا۔ عورت کو حکم دیا تابعداری کا اب اگر یہ اپنی ڈیوٹی پوری کرتی ہے تو دین و دنیا دونوں میں کامیاب یوگی۔

۔

اگر عورت عرفان خودی کی راہ کی طرف آنا چایے تو ممانعت بھی نہیں بہت سی عورتیں اپنے آپ کو پیش کر چکی ہیں۔ اور ایک مقام حاصل کیا ہے رابعہ بصریہ اور بہت سی نامور عورتیں جنہوں نے خودی کی راہ پر چل کر معراج کی بیان ہوئی ہیں۔

۔

چلنا چاہے تو چل سکتی ہے مگر اس کے واسطے حکم نہیں اگر اپنے آپ کو مرد سمجھتی ہیں تو مالک کی طرف سے روک نہیں مگر حکم بھی نہیں مالک نے اس کے لیے بہت آسانی رکھی ہے صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ اگر تو اپنے مالک کی تابعداری میں رہے گی تو تجھے وہ سب کچھ مل جائے گا جسے پانے کے لیے لوگ عمریں گنواں دیتے ہیں۔

۔

سوال: بیعت کا حکم انسان کے لیے ہے نہ کہ مرد و عورت کے لیے؟

ہمارا مدعا کلام یہ نہیں کہ عورت انسان نہیں یا عورت اس راستے پر نہیں چل سکتی۔ بنیادی بات جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عورت واسطے یہ حکم ہی نہیں آیا کہ وہ اس معاملے میں پڑے اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتی ہے ممانعت نہیں ہے مگر مالک نے اس کی ڈیوٹی نہیں لگائی ہے۔

۔

مالک نے عورت کو اِس کا میدان دے دیا ہے وہ اپنے میدان میں اتر کر اسے خوبصورت بنائے اپنے باغ کو گل گلزار بنائے۔ بدلے میں وہ سب نعمتیں اس کو بنا روحانیت کے راستے پر محنت کیے مل جائینگے جو بڑے بڑے روحانی گروُ کو محنت کے بعد ملتا ہے۔

۔

اصل بات یہ ہے کہ جس کو جو زمہ داری سوپنی گئی ہے وہ اسے بحسن و خوبی سر انجام دے۔ کسی بھی کمپنی میں کام کرنے والے ورکرز انسان ہی ہوتے ہیں سب ایک ہی جیسے انسان ہوتے ہیں مگر ان سب کا کام یکساں نہیں ہوتے۔

۔

جس ورکر کو جو کام سونپا جاتا ہے وہ وہی کام کر رہے ہوتے ہیں کوئی کسی کا کام نہیں کرتا۔ اگر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے مگر جو ڈیوٹی آپ کی ہے آپ وہیں کریں آپ کو معاوضہ مل جائے گا۔ وہی معاوضہ اگلے کو اس کے کام کی سر انجام دہی پر ملے گا۔

۔

مالک کسی نفس پر اس کی استطاعت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اگر بالفرض عورت کی بیعت کو جائز بھی قرار دیا جائے تو کیا ہوگا؟ ایک طرف عورت کا سہاگ ہے اور ایک طرف عورت کا پیر و مرشد۔

۔

دونوں کو اس کی ضرورت ہے اس کا سہاگ اسے اپنی طرف بلا رہا ہے اور مرشد پیر خانے میں اللہ و رسول کے مہمانوں کی خدمت کے لیے لنگر خانے میں ڈیوٹی کا حکم لگا دے۔

۔

وہ کہاں جائے گی اگر سہاگ کو بچاتی ہے تو ایمان جاتا ہے اگر ایمان بچاتی ہے تو سہاگ جائے گا۔ یہ تو وہی معاملہ ہو جائے گا

۔

کھینچے ہے مجھے کفر تو رو کے مجھے ایماں۔

۔

مالک اپنے بندوں کو اس مشکل میں ہی نہیں ڈالتا جہاں اسے انہیں مشکل پیش آئے۔ اس کے بس کی بات نہ ہو۔ خدا اس طرح کے امتحانات میں نہیں ڈالتا۔ عرفان خودی کا جوہر دریافت دونوں کر سکتے ہیں مگر حکم عورت کو تابعداری کا ہے، عرفان خودی کے جوہر کو دریافت کرنے کا نہیں۔

۔

* تاریخ میں بہت ساری عورتیں ۔۔۔ مرد ہوئی ہیں۔ اور ہوتی رہے گی۔ اور اس سلسلے کو کوئی روک نہیں سکتا مگر آپ سرکار کا طریقہ جو آپ نے عورتوں کو تلقین کیا وہ یہی ہے کہ اگر دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہونا چاہتے ہو تو اپنے مالک کی تابعداری کرو۔

۔

* امت کی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کا اسوہ حسنہ امت کی بیٹیوں کے لیے اعلٰی ترین اور عمدہ ترین نمونہ و مثال ہے۔

۔

ایک عورت کے لیے عقد نکاح ۔۔ ایجاب و قبول ۔۔  بیعت نامہ ھی تو ھوتا ھے جو بیوی اپنے خاوند کو شرعی طور پر لکھ کر دیتی ھے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر جانا ہی اس کا مجاہدہ ہے مرنے سے پہلے مرجانا ہے۔ ڈولی اس کا جنازہ ہے۔ پہلی زندگی کا خاتمہ دوسرے جنم کی ابتداء ہے۔ سسرال میں اس کو ایک نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ اس کا نیا نام رکھا جاتا ہے۔

۔

اگر مرد عرفان خودی کے سفر کا راہی ہے تو اس کے سفر میں عورت کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ مرد جب خودی کا عرفان حاصل کرتا ہے تو اس کا اس کے سفر میں ساتھ دینے والی شریک حیات کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے۔ مالک اس کو اس کے سفر کی تکمیل پر عرفان خودی سے منور کرتا ہے اور اس کا ساتھ دینے والی شریک حیات کو بھی چن لیتا ہے۔ مالک کہتا ہے جا موج کر۔ آج سے تو بھی آزاد ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی دیکھ لو۔

۔

عورت کی فطری زمہ داری اس کا گھر ہے۔۔ اور مرد کی فطری زمہ داری معاشرہ ہے۔

۔

اگر کوئی عورت  بیعت یا روحانیت کی راہ کو اپنانا چاہے تو اسے چاہئے کہ ازدواجی زندگی اختیار نہ کرے۔ کیونکہ عورتکو  ایک وقت میں دو نکاح کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے ۔۔

۔

اگر عورت اپنی روحانی زندگی مصروفیت کی وجہ سے اپنے خاوند کو وقت نہیں دے پائے اور وہ کسی کا گناہ مرتکب ہوجائے  یا کوئی اور راستہ اختیار کرلے تو اس کی دمہ دار وہ عورت ہوگی ۔

۔

اور دوسری بات کہ عورت دو خاندانوں کی عزت کی بھی محافظ ہے اسکے ایسے عمل سے اس کے ماں باپ بھائی شوہر کو بھی پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

۔

بحر حال کوئی کتنے بھی دلائل دے لے عورت کے لئے اپنے شوہر کے علاوہ اور کوئی فلاحی رستہ نہیں ہے اسے چاہئے کہ اگر اسکا شوہر حق پر ہے تو اسکا ساتھ دے اگر وہ ناحق ہے تو اسے نصیحت کرے۔یہاں تک کہ اسکی برائی میں بھی اسی کا ساتھ دے ۔۔۔اگر اس سے ایسا نا ہوسکے تو اس سے اعلیحدگی اختیار کر لے ۔۔ اور پھر اپنی مرضی کی راہ لے۔ خاوند کی زوجیت میں رہتے ہوئے اس کے ساتھ بے ایمانی نا کرے۔۔

۔

اور آخری بات یہ کہ اگر  کوئی عورت روحانیت کی راہ کو اختیار کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ شادی نا کرے۔

۔

سورت ممتحنة آیت نمبر بارہ کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عورت کے لئیے  بیعت بھی نصیحت ہی ہے اور یہی وہ کر بھی سکتی ہیں اور کروا بھی سکتی ہے۔

۔

پورے قرآن میں بیعت کا لفظ صرف بیعت رضوان کے لیے استعمال ہوا ہے اور کہیں بیعت کا ذکر نہیں۔ آپ سرکار کا طریقہ مبارک پیری مریدی کا نہیں۔ آپ سرکار نے مرید نہیں دوست بنائے ہیں۔ دوست اور رفیق کو عربی میں صحابی کہتے ہیں۔ پیری مریری میں حاکم اور محکوم والا تصور پایا  جاتا ہے۔ جبکہ دوستی اور رفاقت کے رشتہ میں پیار و محبت سے اصلاح کی جاتی ہے۔

Loading