Daily Roshni News

غزل۔۔۔شاعر۔۔۔شہزاد تابش

غزل

شاعر۔۔۔شہزاد تابش

بدگمانی ہی سے تکرار کے پہلو نکلے

 دل ملانے سے سدا پیار کے پہلو نکلے

 ہاتھ پتھر کے ہوئے راہ مشقت میں مرے

 پھر بھی کب کان سے دینار کے پہلو نکلے

پیر کامل نے کوئی عقدہ دل کھولا تو

اس کی ہر بات سے اسرار کے پہلو نکلے

راہِ الفت میں محبت کا بھرم ٹوٹا تو

لشکر یار سے اغیار کے پہلو نکلے

سایہ پیٹر میں رکنے کا خیال آیا تو

منزل شوق سے رفتار کے پہلو نکلے

جس قدر شب کی سیہ رات کا پھیلا آنچل

اس کے ہر تار سے انوار کے پہلو نکلے

دشت کی پیاس میں جب تیرا دہن یاد آیا

ریگ زاروں میں بھی انہار کے پہلو نکلے

 صاحب فہم و فراست تھے جہاں پر تابش

 میں نے دیکھا وہیں تلوار کے پہلو نکلے

Loading