Daily Roshni News

غزل۔۔۔شاعر۔۔۔ناصر نظامی

غزل

شاعر۔۔۔ناصر نظامی

تیرے دیدار کے، تمنائی !

خیال خام سے گزرے ہوں گے

کوئے اصنام سے گزرے ہوں گے

اپنے انجام سے گزرے ہوں گے

ان کے کوچے سے گزرنے والے

یوں  اہتمام سے گزرے ہوں گے

لے کے اک ہاتھ پہ دل اک پہ جاں

رقص ہنگام سے گزرے ہوں گے

ان کے کوچے سے گزرنے والے

درد و آلام سے گزرے ہوں گے

ان کے کوچے میں کام آئے جو

وہ کسی کام سے گزرے ہوں گے

جو ان کے کوچے میں جاں سے گزرے

بڑے آرام سے گزرے ہوں گے

جن پہ ان کی نظر پڑی ہو گی

لطف و اکرام سے گزرے ہوں گے

بڑے تپاک سے وہ ملتا ہے

سب ان کے دام سے گزرے ہوں گے

وہ شخص اپنا ہے یا بے گانہ

لوگ ابہام سے گزرے ہوں گے

اترے اترے ہیں لوگوں کے چہرے

ہجر کی شام سے گزرے ہوں گے

پتا اپنا ہی، پوچھنے والے

عشق ناکام سے گزرے ہوں گے

اک نظر ان کو دیکھنے والے

اپنے ہر کام سے گزرے ہوں گے

تیری نگاہوں سے پینے والے

بادہ  و جام سے گزرے ہوں گے

تیرے دیدار کے، تمنائی !

خیال خام سے گزرے ہوں گے!!

موسی بے ہوش ہوا، طور جلا !

وہ کس مقام سے گزرےہوں گے

جن کے دم  سے ہے ان کا نام ہوا

خود وہ گمنام سے گزرے ہوں گے

ناجانے کتنے اہل فکرو نظر

مجھ سے بے نام سے گزرے ہوں گے

تذکرہ کرنا کیا، نظامی کا

آدمی، عام سے گزرے ہوں گے

Loading