Daily Roshni News

غزل۔۔۔شاعر۔۔۔ قتیلؔ شفائی

غزل

شاعر۔۔۔ قتیلؔ شفائی

نامہ  بر  اپنا ،  ہَواؤں   کو   بنانے   والے

اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے

کیا مِلے گا تجھے بکھرے ہُوئے خُوابوں کے سوا

ریت   پر  ،  چاند   کی    تصویر    بنانے    والے

مَیکدے بند ہُوئے ، ڈُھونڈ رہا ہُوں تُجھکو

تو کہاں ہے مجھے آنکھوں سے پلانے والے

کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری

 یہ   مصور  ،   تِری    تصویر    بنانے    والے

تو  اِس  انداز  میں  کُچھ  اور  حَسیں  لگتا  ہے

مُجھ سے مُنہ پھیر کے ، غزلیں میری گانے والے

سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس

 جس قدر لوگ تھے ، بارش  میں  نہانے  والے

چھت  بنا دیتے ہیں اب ریت کی دِیواروں پر

کِتنے  غافِل  ہیں ،  نئے   شہر   بسانے   والے

عدل کی تم نہ ہمیں آس دِلاؤ کہ یہاں

قتل ہو جاتے ہیں ، زنجیر  ہلانے  والے

کِس  کو  ہو  گی  یہاں ، توفیقِ  انا  میرے  بعد

کُچھ تو سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے والے

مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لِکھا جائے گا

سو  گئے  آپ ، زمانے  کو  جگانے  والے

در و دِیوار  پہ  حسرت سی برستی ہے قتیلؔ

جانے  کِس  دیس  گئے ،  پیار  نبھانے  والے

قتیلؔ شفائی

Loading