Daily Roshni News

فرقوں میں بٹی اس امت کو امت واحدہ

فرقوں میں بٹی اس امت کو امت واحدہ

ہالینڈڈ(یلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )رسول اللہ ﷺ کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی اور خلافت راشدہ کے بعد عالم اسلام میں اموی خلافت قائم ہوئی

  717 عیسوی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز جو بنو امیہ کےآٹھویں خلیفہ تھےمسندِ خلافت پر بیٹھے ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہیکہ انھوں نے اپنے دور خلافت میں حیات نبوی ﷺ کا تحریری ریکارڈ مرتب کرایا انہوں نے تمام علاقوں کے علماء کو تحریری ریکارڈ جمع کرنے کا حکم دیا ان میں بہت سی باتیں قول رسول ﷺ یعنی حدیث رسول ﷺ کے نام سے بھی جمع کی گئیں اور اس کے نتیجے میں پہلی باقاعدہ حدیث کی کتاب ” صحیفہ ہمام بن منبہ ” لکھی گئی جسمیں صرف 134 احادیث ہیں اسکے بعد امام مالک ؒ کی موطا امام مالک مرتب ہوئی جسمیں 1740 روایات ہیں ۔

بنوامیہ کے دور میں فارسی علاقوں میں سیاسی چپقلش بھی عروج پر تھی اور اسی چپقلش کے نتیجے میں باقاعدہ طور پر فارسی علاقوں میں بھی احادیث کے نام پر باتیں جمع کی جانے لگیں بنو امیہ کا پایہ تخت ملک شام تھا اور انکی حکومت کے خلاف فارسی خطے کے لوگ شدت سے بغاوت کے تانے بانے بن رہے تھے اس وجہ سے ان کے جمع کیۓ جانے ریکارڈ میں اطاعت خلیفہ اور ملک شام کے فضائل جمع کیۓ گۓ اسکے جواب میں مخالفین کی طرف سے خراسان اور مہدی کے فضائل سامنے آۓ ۔

750عیسوی میں فارسی خطے کے لوگوں نے بنوامیہ کی حکومت کا خاتمہ کرکے بنوعباس کے نام سے اپنی خلافت قائم کرلی ۔

عوام کو مذہبی مناظروں اور مباحثوں میں مصروف کرکے انھوں نے اپنی حکومت کو خوب طول دیا ۔

مذہبی مناظروں کے نتیجے میں لوگ مختلف نظریات میں تقسیم ہوتے گۓ یوں مسلمان فرقہ در فرقہ ہوتے چلے گۓ ۔

یہی وہ دور تھا جب احادیث ، فقہ اور قرآن کی تفاسیر بڑے پیمانے پر لکھی گئیں ۔ذخیرہ احادیث اب سات یا ساڑھے سات لاکھ تک جا پہنچا تھا اور ہر فرقے نے ان میں سے اپنے موقف کی باتوں کو چن لیا تھا اور وہی باتیں دین کا مآخذ قرار دے دی گئیں اور قرآن کی حیثیت صرف تلاوت کرکے ثواب کمانے کی رہ گئی ۔

خلاف قرآن باتیں جب دین اسلام بنیں تو کچھ لوگوں نے علمی اختلاف کیا جنھیں پہلے منکر حدیث اور بعد میں مرتد قرار دیکر دائرہ اسلام سے خارج کردیا گیا ۔

“منکرین حدیث” کے الفاظ نہ قرآن میں ہیں نہ کسی اصل حدیث میں، یہ الفاظ بعد کے لوگوں کی ایجاد    ہے جسے 20 مرتبہ مختلف کتب میں استعمال کیا گیا اکثر  جب مخالف فرقے کے لوگ اپنے مخالف کے پاس موجود روایات کو مسترد کرتے تو انھیں منکر حدیث کہا جاتا  ۔اسطرح بعض قرآن کو ترجیح دیکر قرآن مخالف باتوں کا انکار کرنے والے لوگ بھی منکر حدیث اور مرتد قرار دیکر فارغ کر دیئے گیئے۔

امام ابن حزم کے بقول

”تمام معتزلہ اور خوارج کا مسلک ہے کہ خبر واحد(حدیث) موجب ِعلم نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جس خبر میں جھوٹ یا غلطی کا اِمکان ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی بھی حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی نسبت اللہ کی طرف کی جاسکتی ہے اور نہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف۔”

انکارِ حدیث کی بنیاد سب سے پہلے خوارج اور معتزلہ نے رکھی۔کیونکہ ان کے عقائد کی بنیاد ہی اس پر تھی کہ جو بات قرآن سے ملے گی، اسے اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان کے یہاں بڑی حدتک روایات احادیث کا انکار پایاجاتا ہے۔ اور انہوں نے رجم کے شرعی حد ہونے سے انکار ہی اس بنا پر کیا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔

برصغیر میں منکر حدیث کا لیبل سرسید احمد خان سے لیکر ان گنت اصحاب اہل علم پر لگ چکا ہے ۔

آج بھی اہل سنت کے پاس اپنی حدیث کی کتابیں ہیں اور اہل تشیع کے پاس اپنی اور دونوں ہی ایک دوسرے کی احادیث کا انکار کرتے ہیں اہل سنت کے فرقے بھی دوسرے کے پاس موجود بعض روایات کا انکار کرتے ہیں ۔

جب کسی روایت کا متن قرآن کے خلاف ، رسول اللہ ﷺ کی شخصیت یا عقل کے خلاف ہوتو اہل علم اس روایت کی صحت پر شک کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ رسول اللہ صلعم کی بات کا انکار کیا جا رہا ہے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ بیچ میں جو راوی ہیں ان کی بات پر اعتبار نہی کہ یہ بات انہوں نے درست ہم تک پہچائی

اس لیے ہر روایت کو سب سے پہلے قرآن پر پیش کیا جاتا ہے پھر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بات جناب رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے یا عقل کے خلاف تو نہیں جارہی ۔

آئمہ حدیث نے بھی حدیث کے درست ہونے کا یہ ہی اصول اپنایا تھا ۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم تک قرآن بھی تو حدیث ہی کی طرح پہنچا ہے۔ یہ بات بلکل غلط ہے کہ قرآن حدیث کی طرح پہنچا ہے  قرآن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی نگرانی میں کاتبان وحی سے لکھوایا ہزاروں صحابہ نے لاکھوں کو منتقل کیا اور خود اللہ نے اسکی حفاظت کا ذمہ لیا ۔ جبکہ حدیث کو لکھوانے کا رسول اللہ ﷺ نے کوئ اہتمام نہیں کروایا ہمیں رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے کاتب وحی کی اصطلاح تو ملتی ہے کاتب حدیث کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ احادیث کس طرح مرتب ہوئیں  ۔

اللہ نے قرآن میں اہل کتاب کا سب سے بڑا جرم اللہ کی کتاب یعنی تورات اور انجیل کو پست پشت ڈال دینا بتایا ہے

 یہود  نے تورات کو صرف تلاوت کی کتاب بناکر تالمود کی38 جلدوں کو اپنا مذہب بنایا  اور نصاریٰ  نے انجیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کے لکھے 23 صحیفوں کو ملا کر اپنا مذہب تشکیل دیا ۔اور اس طرح کتاب اللہ (انجیل) کو پس پشت ڈال دیا ۔اسی طرح کا عمل دور عباسیہ میں اسلام کے ساتھ بھی ہوا ۔

صحیح احادیث کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے

اس لیے سب سے پہلے قرآن کو قرآن سے سمجھیں اور پھر قرآن سے احادیث کو سمجھیں کیونکہ احادیث کے صحیح اور ضعیف کا فیصلہ کسی مضبوط راوی کے نام پر نہیں قرآن پر ہوتا ہے ۔

فرقوں میں بٹی اس امت کو امت واحدہ صرف قرآن بناسکتا ہے اسکے علاوہ امت کو ایک کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہیں ۔

Loading