ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )رانی ان دنون نیو مسلم ٹاؤن میں اپنی ذاتی کوٹھی میں رہتی تھیں جس کی سجاوٹ بھی بہت اچھی تھی۔ ہم کئی بار وہاں جا چکے تھے۔ اس کوٹھی کو پہلی بارہم نے اس وقت دیکھا تھا جب اپنی ایک فلم میں رانی کو کاسٹ کرنے کے لیے حق صاحب سے بات کی تھی۔ ہم نے ان سے کم سے کم پچاس دن مانگے تو وہ حیران رہ گئے۔ بولے ’’آفاقی صاحب اتنی ڈیٹوں کا آپ کیا کریں گے؟‘‘
ہم نے کہا ’’شوٹنگ کریں گے اور کیا کریں گے؟‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’آفاقی صاحب۔ یقین کیجئے میں کسی اردو فلم کو پندرہ بیس دن سے زیادہ نہیں دیتا۔ اور پنجابی فلمیں تو مفت میں پڑ جاتی ہیں۔ آٹھ دس دن کی شوٹنگ میں کام ختم ہو جاتا ہے۔ اور پیسے کھرے ہوجاتے ہیں۔ آپ کے ساتھ خاص مراسم ہیں۔ رانی بیگم نے بھی آپ کے لیے خاص طور پر کہا ہے (وہ رانی کو ہمیشہ رانی بیگم ہی کہا کرتے تھے) مگر اتنے زیادہ دن تو میں نہیں دے سکوں گا‘‘۔
ہم نے کہا ’’تو پھر اس بات کو جانے دیجئے‘‘۔
’’ارے۔ آپ تو ناراض ہوگئے۔ آئیے رانی بیگم کے پاس چل کر بات کرلیتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں رانی کی نو تعمیر کوٹھی پہنچ گئے۔ وہاں جانے کا یہ ہمارا پہلا اتفاق تھا۔
دوسری چیزیں بھی بیش قیمت تھیں۔ لان میں خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ ’’یہ کوٹھی دیکھی آپ نے‘‘ حق صاحب نے کہا۔ ’’یہ پنجابی فلموں کی آمدنی سے بنی ہے‘‘۔
حسن طارق سے ملنے کے لیے ہم اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ چند سال گزر گئے تو رانی نے دبی زبان میں ہم سے شکایت کی کہ طارق صاحب گھر میں رہتے ہی نہیں ہیں۔ جب رہتے بھی ہیں تو نہ رہنے کے برابر۔ دفتر والے کمرے میں کہانی یا میوزک کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ ذرا انہیں سمجھائیے۔
طارق صاحب سے بات ہوئی تو وہ ہنسنے لگے۔ ’’وہ تو پاگل ہے۔ میں اسٹوڈیو کے سوا کہاں جاتا ہوں۔ اسٹوڈیو یا گھر؟‘‘
ہم نے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر رانی کا کہنا یہ ہے کہ آپ بیوی اور گھر کے لیے وقت نہیں نکالتے‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔ اب میں جلدی گھرآجایا کروں گا‘‘۔
مگر طارق صاحب اپنا معمول نہیں بدل سکے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ان میں علیحدگی ہوگئی۔
رانی ایک بار پھر تنہا ہوگئی۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد یہ خبر ملی کہ رانی نے میاں جاوید قمر سے شادی کرلی ہے۔ میاں جاوید قمر فیصل آباد کے ایک صنعت کار تھے۔ وہاں ایک سنیما گھر کے مالک تھے۔ فلموں سے ان کا تعلق پرانا تھا۔ ’’بابر پکچرز‘‘ کے نام سے انہوں نے لاہور میں ایک فلم تقسیم کار ادارہ قائم کر رکھا تھا۔ حسن طارق صاحب سے ان کا کاروباری واسطہ خاصا پرانا تھا۔ طارق صاحب کی مشہور اور کامیاب فلمیں بھی خریدیں۔ خود اپنی پنجابی فلمیں بھی بنائیں۔ وہ ایک کامیاب انسان تھے۔ شادی شدہ تھے لیکن ان کے بیوی بچے فیصل آباد میں رہتے تھے۔ لاہور میں کچھ وقت کیلئے انہوں نے شاہ جمال کالونی میں ایک کوٹھی کرائے پر لی تھی۔ ہم سے بھی ان کی خاصی بے تکلفی تھی۔ ان کا تفصیلی حال وقت آنے پر بیان ہوگا۔ فی الوقت رانی کے حوالے سے ان کی اور رانی کی شادی کا قصہ سنئے۔
میاں جاوید سے رانی کی شادی کی خبر میں اسٹوڈیو میں ملی تھی۔ ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ رانی کی شادی پر نہیں بلکہ میاں جاوید کے ساتھ شادی پر۔ وہ حسن طارق کے بہت بڑے مداح تھے اور ان کی خوشنودی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ انہیں طارق صاحب کے آگے پیچھے پھرتے ہی دیکھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ طارق صاحب ایک کامیاب ترین فلم ساز اور ہدایت کار تھے اور ان کی فلمیں صرف اور صرف میاں جاوید ہی ریلیز کرتے تھے اور دونوں ہاتھوں سے منافع کما رہے تھے۔ رانی کو انہوں نے ہمیشہ بہت عزت دی۔ طارق صاحب کے گھر پر تو وہ چند بار کاروباری سلسلے میں ہی گئے ہوں گے مگر فلموں کے سیٹ پر کبھی کبھار نظر آجاتے تھے۔ رانی کو وہ میڈم کہہ کر مخاطب کرتے تھے ہمیں تعجب اس بات پر ہوا کہ انہوں نے طارق صاحب کی سابقہ بیوی سے شادی کرلی اور وہ بھی طارق صاحب سے علیحدگی کے بہت کم عرصہ کے بعد۔
دو تین دن کے بعد ہی ہمیں رانی کا ٹیلی فون موصول ہوا۔
’’ہیلو آفاقی صاحب کیا حال ہے؟‘‘ ان کی آواز خوشی سے دمک رہی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ چپکے چپکے شادی کرلی۔ ہمیں بتایا بھی نہیں‘‘۔
وہ ہنسنے لگیں ’’بس موقع ہی نہیں ملا۔ اچھا سنئے۔ میں ایک فلم بنا رہی ہوں‘‘۔
’’واقعی؟‘‘
’’کیوں کیا میں فلم نہیں بناسکتی؟‘‘
ہم نے کہا ’’کیوں نہیں بناسکتیں۔ پہلے بھی طارق صاحب کے ساتھ کئی فلمیں بنائی ہیں‘‘۔
وہ ایک لمحے کیلئے خاموش رہ گئیں۔ پھر کہا ’’اچھا سنئے کیا آج رات میرے گھر آسکتے ہیں؟‘‘
’’کیا شادی کی دعوت ہے؟‘‘ ہم نے چھیڑا۔
وہ اپنی مخصوص بے پروا ہنسی ہنسنے لگیں ’’دعوت بھی مل جائے گی۔ آپ آئیں تو سہی، آپ سے کہانی لکھوانی ہے‘‘۔
اسی رات ہم ان کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ کوٹھی وہی تھی۔ چوکیدار بھی وہی تھا۔ ملازم بھی رانی کا پرانا تھا جس نے دروازہ کھول کر ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ سب کچھ وہی تھا۔ صرف طارق صاحب کی تبدیلی عمل میں آئی تھی۔
ملازم چند منٹ بعد واپس آیا۔ ’’میاں صاحب کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ میڈم کہتی ہیں آپ اندر آجائیں‘‘۔
ہم ملازم کے پیچھے بیڈ روم میں پہنچ گئے۔ بہت وسیع و عریض اور خوبصورتی سے سجا ہوا بیڈ روم تھا۔ ہم کئی بار اس کمرے میں بیٹھ کر گپ شپ کر چکے تھے۔ آخری بار طارق صاحب پر پہلا ہارٹ اٹیک ہوا تو ہم نے اسی کمرے میں ان کی عیادت کی تھی۔ وہ اسی بیڈ پر دراز تھے اور رانی پریشان پریشان گھوم رہی تھیں۔
’’آفاقی صاحب، آپ ہی انہیں سمجھائیں۔ ڈاکٹر نے پرہیز بتایا ہے اور سگریٹ چھوڑنے کو کہا ہے‘‘۔ انہوں نے طارق صاحب کے ہاتھ سے سگریٹ اور ماچس لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’ڈاکٹر تو فیس لینے کیلئے اپنی امپارٹنس جتاتے رہتے ہیں‘‘۔ طارق صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا مگر رانی نے انہیں سگریٹ واپس نہیں دیا۔
آج اسی بیڈ پر میاں جاوید قمر تشریف فرما تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے۔
’’آئیے آفاقی صاحب۔ معاف کرنا۔ مجھے بہت تیز بخار ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’شادی کی خوشی میں بخار چڑھ گیا ہے‘‘۔ ہم نے پوچھا۔
وہ ہنسنے لگے۔ مگر خوشی ان کے روئیں روئیں سے ٹپک رہی تھی۔ رانی بھی مسرور تھیں۔ ہمارے لیے انہوں نے چائے منگائی۔ پھر مجوزہ فلم کے بارے میں باتیں شروع ہوگئیں۔
کچھ دیر بعد ہم چلے آئے۔ رانی ہمیں برآمدے تک رخصت کرنے آئیں۔ کہنے لگیں۔ ’’کل میری ایورنیو اسٹوڈیو میں شوٹنگ ہے۔ آپ وہیں آجانا‘‘۔
ایورنیو میں وہ فلم ساز کے دفتر میں میک اپ کرنے میں مصروف تھیں جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے توشادی کا ذکر نہیں چھیڑا مگر وہ خود ہی تفصیل بتانے لگیں۔ ’’میاں صاحب کے گھر والے بہت اچھے ہیں۔ ان کی امی نے مجھے بہت پیار کیا اور منہ دکھائی بھی دی‘‘۔
وہ شادی کے فور۱ً بعد فیصل آباد جاکر میاں صاحب کے گھر والوں سے بھی مل آئی تھیں۔
’’ان کے گھر والوں کو اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’میں بھی کبھی کبھی فیصل آباد چلی جایا کروں گی‘‘۔
طارق صاحب کی اور ان کی بچی رابعہ نو عمر تھی۔ وہ زیادہ تر نانی کے پاس ہی رہا کرتی تھی جو کوٹھی کے بالائی حصے میں رہتی تھیں۔ بچی کی پرورش کی طرف سے رانی کو مطلق فکر نہیں تھی۔ بلکہ پوچھئے تو ہم نے رابعہ کو بہت کم ان کے اور طارق صاحب کے آس پاس دیکھا تھا۔(جاری ہے)