فوسلز — زمین کے نیچے چھپی ہوئی یادیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اور سائنس دانوں کو یہ سب کچھ کیسے پتہ چلا — ان کی اقسام، ان کا سائز، ان کی عادات، اور ان کے اچانک ختم ہو جانے کی وجہ؟
فوسلز — زمین کے نیچے چھپی ہوئی یادیں
ڈائناسورز کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت فوسلز (Fossils) ہیں۔
یہ دراصل ان جانداروں کی ہڈیاں، دانت، پیروں کے نشانات، انڈے اور کبھی کبھار نرم اعضاء کے نقش ہوتے ہیں جو لاکھوں سال زمین میں دبے رہنے کے بعد پتھر بن چکے ہوتے ہیں۔
جب سائنس دان مختلف مقامات پر کھدائیاں کرتے ہیں تو انہیں زمین کی تہوں (layers) میں یہ فوسلز ملتے ہیں، اور ہر تہہ کی عمر مختلف ہوتی ہے۔
زمین کی تہیں بالکل کتاب کے صفحات کی طرح ہیں — نیچے والے صفحے پرانے زمانے کے، اور اوپر والے حالیہ زمانے کے۔
ان تہوں کی عمر معلوم کرنے کے لیے سائنس دان Radioactive dating جیسی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر Uranium–Lead dating یا Potassium–Argon method۔
ان طریقوں سے پتہ چلتا ہے کہ کسی پتھر یا فوسل کی عمر کتنی ہے — اور یہی ہمیں بتاتا ہے کہ ڈائناسورز تقریباً 6.5 کروڑ سال پہلے زمین سے غائب ہو گئے۔
ڈائناسورز کی اقسام کیسے پتہ چلیں؟
فوسلز کی بناوٹ، دانتوں کی شکل، پیروں کے نشان، اور جسم کے ڈھانچے سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ ڈائناسورز کی سیکڑوں مختلف اقسام تھیں۔
کچھ زمین پر رہنے والے گوشت خور تھے جیسے Tyrannosaurus Rex (T-Rex)، جو بہت خونخوار تھا، اور کچھ پودے کھانے والے پرامن دیو ہیکل جاندار جیسے Brachiosaurus۔
کچھ ہوا میں اڑنے والے بھی تھے جیسے Pterosaurs، اور کچھ سمندروں میں تیرنے والے جیسے Mosasaurus۔
ہر قسم کے فوسلز دنیا کے مختلف حصوں میں ملے، جس سے سائنس دانوں نے ان کے جسمانی سائز، خوراک، رفتار، اور رہن سہن کا اندازہ لگایا۔
مثلاً ایک ڈائناسور کی دانتوں کی شکل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گوشت خور تھا یا سبزی خور۔
پیر کے نشان سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ دو ٹانگوں پر چلتا تھا یا چار پر۔
شہابِ ثاقب کا گرنا — تباہی کی اصل وجہ؟
اب آتے ہیں سب سے اہم سوال پر — ڈائناسورز ختم کیوں ہوئے؟
زیادہ تر سائنس دانوں کے مطابق تقریباً 6.6 کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑا شہابِ ثاقب (asteroid) زمین سے ٹکرایا تھا۔
یہ شہاب میکسیکو کے علاقے “چک شولوب” (Chicxulub) میں گرا، اور اس کے گرنے سے دس ارب ایٹم بموں کے برابر دھماکہ ہوا۔
اس ٹکراؤ نے زمین کا ماحول یکدم بدل دیا۔
آسمان میں دھول اور راکھ چھا گئی، سورج کی روشنی زمین تک نہ پہنچی، درجہ حرارت تیزی سے کم ہو گیا، پودے مرنے لگے، خوراک کا نظام ٹوٹ گیا، اور اس طرح چند سالوں میں زمین کے 70 فیصد جاندار — بشمول ڈائناسورز — ختم ہو گئے۔
سائنس دانوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہ سب ایک ہی وقت میں ہوا؟
یہ سوال بہت اہم ہے۔
جب سائنس دانوں نے مختلف جگہوں سے فوسلز نکالے، تو انہوں نے دیکھا کہ دنیا بھر میں ایک ہی تہہ (layer) موجود ہے جس میں Iridium نامی دھات کی زیادہ مقدار پائی گئی۔
Iridium زمین پر بہت کم ملتا ہے، مگر شہابِ ثاقبوں میں یہ عام ہے۔
یہ تہہ بالکل اسی عمر کی نکلی جس وقت ڈائناسورز غائب ہوئے — تقریباً 66 ملین سال پہلے۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی تہہ کے اوپر والے حصے میں ڈائناسورز کے فوسلز ختم ہو جاتے ہیں۔
یعنی زمین کے مختلف علاقوں میں، مختلف قسم کے ڈائناسورز ایک ہی وقت میں غائب ہوئے، اور وہی وقت تھا جب چک شولوب کا شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا۔
یہ اتفاق نہیں ہو سکتا — یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ وہ تباہ کن ٹکراؤ ہی ان کے خاتمے کی بڑی وجہ بنا۔
کچھ سائنس دانوں کے دوسرے نظریات
کچھ محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ آتش فشانی سرگرمیوں نے بھی زمین کے ماحول کو نقصان پہنچایا۔
ہندوستان کے علاقے “ڈکن ٹریپس” (Deccan Traps) میں اس زمانے میں زبردست آتش فشانی دھماکے ہوئے، جن سے لاکھوں ٹن زہریلی گیسیں خارج ہوئیں، جنہوں نے فضا کو مزید بگاڑ دیا۔
یعنی ممکن ہے کہ شہابِ ثاقب نے آخری ضرب لگائی، مگر زمین پہلے ہی خطرناک تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔
ڈائناسورز کے خاتمے کے بعد زمین پر ممالیہ (Mammals) — یعنی وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں — تیزی سے پھیلنے لگے۔
انہی میں سے ایک شاخ نے آگے چل کر انسان کو جنم دیا۔
اگر وہ شہابِ ثاقب نہ گرتا، تو شاید آج زمین پر انسان نہ ہوتے بلکہ کسی دیو ہیکل ڈائناسور کا راج ہوتا۔
سائنس نے زمین کے نیچے چھپی کہانیوں کو پڑھ کر ہمیں یہ بتایا ہے کہ ڈائناسورز کا خاتمہ کوئی اتفاق نہیں تھا، بلکہ ایک کائناتی حادثہ تھا جس نے زمین کے مستقبل کی سمت بدل دی۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری زمین کتنی نازک ہے — اور کائنات میں ایک چھوٹا سا پتھر بھی پورے سیارے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
اگر آپ کو یہ پوسٹ پسند آیا اور مزید اس طرح کی دلچسپ معلوماتی تحریریں پڑھنا چاہتے ہو تو ہمیں فالو ضرور کرے۔۔۔ شکریہ
تحریر:
Kashif Khan