جنگل میں آج ایک غیر معمولی اجلاس جاری تھا۔جنگل میں موجود دوشیروں کو جنگل بدر کرنے کی قرار داد پیش کی جارہی تھی۔
جنگل میں آج ایک غیر معمولی اجلاس جاری تھا۔جنگل میں موجود دوشیروں کو جنگل بدر کرنے کی قرار داد پیش کی جارہی تھی۔راجا ہاتھی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حالات کا بغورجائزہ لے رہا تھا اور بڑے بڑے کانوں سے بہت توجہ سے سب کی بات سن رہا تھا ۔سب جانور اس بات پر متفق تھے کہ ان شیروں کو علاقے سے نکال دیا جائے ،جن کی وجہ سے جنگل کا سکون غارت ہوکررہ گیا تھا ۔
جانور ٹھیک سے کھاسکتے تھے ،نہ آرام سے پانی پینے پی سکتے تھے ۔پل بھر کے لیے غافل ہوئے اور شیران کی گردن دبوچنے کو آموجود ہوتے ہیں ۔
اس تحریک نے تب زور پکڑا،جب شیروں کا تیسرا ساتھی بھینسوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا۔اسی وقت سے شیروں کے حوصلے بہت پست ہوگئے تھے ۔
لنگڑ ابارہ سنگھار جو شیروں کے لیے ایک آسان شکار ثابت ہوسکتا تھا،اس نے یہ بھانپ لیا تھا
جنگل کے دیگر جانوروں کو ساتھ ملا کر اس نے شیروں کے خلاف تحرک کا آغاز کردیا۔جنگل کا تقریباً ہر جانور ان کا ستایا ہوا تھا،اس لیے سب لنگڑے بارہ سنگھے کے ساتھ راجا ہاتھی کے پاس جا پہنچے تھے۔
سب جانوروں نے شیروں کو جنگل سے نکالنے کے حق میں ووٹ دے دیا۔
سیا نااُلّو جودن میں سوتا تھا اور رات کو جاگتا تھا ،آج خلاف معمول اس اجلاس کو دیکھنے کے لیے دن میں بھی جاگ رہا تھا۔
اس ساری کارروائی کو دیکھنے کے بعد اونگھتے ہوئے بولا:”دوستو! بظاہر لگ تو یہ رہا ہے کہ ایسا فیصلہ کرکے تم نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے ،مگر آنے والے وقت میں اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے ۔یادرکھو! تم سب کی زندگی اور خوش حالی شیروں کے سبب ہے ۔“
راجا ہاتھی نے بے اختیار اوپر دیکھا۔آواز تو اسے صاف سنائی دے رہی تھی ،مگر اُلّو اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
”سیانے الّو ! تم اپنی اس بے تکی بات کی وضاحت کر سکتے ہو؟“راجا ہاتھی نے حیرت سے کہا۔
”راجا جی ! آپ یہ جواونچے اونچے درخت ،پانی سے بھرے تالاب اور سرسبز چَراگا ہیں دیکھ رہے ہیں ،یہ سب ان شیروں کی بدولت ہیں ۔اگر ان کو یہاں سے نکالا گیا تو یہ سب بھی کچھ ختم ہوجائے گا۔
سیا نے اُلّو کی یہ بات سن کر سب نے اسے یوں دیکھا جسے انھیں اُلّو کی دماغی حالت پر شک ہو۔
شیر یہ سن کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ،کوئی ان کی وکالت کرنے والا موجود تھا۔حال آنکہ ان کو بھی اس بات پر یقین نہیں آیا۔
لنگڑے بارہ سنگھے نے غصّے سے سیانے اُلّو کو گھورااور بولا:”تمھارا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ۔شیر ہم زمین پر رہنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔تم تو مزے سے درخت پر رہتے ہو۔اس بات کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ تم ویسے ہی بے وقوف مشہور نہیں ہو۔
اتنی احمقانہ بات کوئی اُلّو ہی کر سکتا ہے ۔سب جانتے ہیں ،شیروں کے تو بس دو ہی کام ہیں ۔سارا دن درختوں کے سائے میں پڑے رہنا اور جب بھوک لگے تو معصوم جانوروں کو اپنا لقمہ بنانا۔“
یہ سن کر اُلّو نے اپنی گول گول آنکھیں گھمائیں اور کہا:”جناب ! یہ قدرت کا نظام ہے ۔اللہ نے ہی شیروں کو نوکیلے دانت اور پنجے دیے ہیں ۔انھیں بے وجہ پیدا نہیں کیا گیا۔
نظام میں مداخلت تباہی کا باعث ہو گی اور ․․․․․“مگر اُلّو کو اپنی بات پورا کرنے کا موقع نہ ملا۔
”تو کیا ہم انھیں اپنی گردنیں پیش کرتے رہیں ۔“درخت تلے کھڑے کالے بھینسے نے اپنی بھدی آواز میں اس کی بات کا ٹی اور درخت کو اپنے طاقت ورسینگوں سے زوردار ٹکرماری ۔سیانا اُلّو جو ایک پتلی شاخ پر بیٹھا تھا ،پَر پھڑ پھڑا کررہ گیا۔
آخر سب نے متحدہو کرشیروں کو جنگل سے نکال دیا گیا۔اب ہر طرف امن تھا ،سلامتی تھی ۔
چند مہینوں بعد جب خوب بارش ہوئی ،تالاب پانی سے بھر گئے اور ہر طرف سبزہ سبزہ نظر آنے لگا تو جانوروں کے دلوں میں سیانے اُلّو کی بات سن کر جو کھٹکا پیدا ہو گیا تھا ،وہ جاتا رہا۔
ا ب جانور مزے سے گھاس چَرتے ۔اطمینان سے تالاب کے کنارے پانی پیتے ۔
گھنے درختوں کی چھاؤں میں آرام کرتے ۔ہر ایک یہی سوچ رہا تھا،انھیں شیروں کو وہاں سے نکالنے کا فیصلہ بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔
پہلے شیروں کے خوف سے وہ کم پانی پیتے تھے ،کیوں کہ اکثر اوقات وہ تالاب کے کنارے گھات لگا کر بیٹھ جاتے اور ان کو اپنا شکار بناتے ۔اس وجہ سے وہ گھاس بھی کم کھاتے تھے کہ پیاس زیادہ نہ لگے۔چوں کہ اب ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا تو وہ پیٹ بھر کر گھاس چَرتے اور خوب پانی پیتے۔
شکار ہوجانے کے ڈرکی وجہ سے وہ زیادہ دیر کہیں رکتے بھی نہیں تھے ،تیزی سے آگے بڑھتے جاتے تھے ،مگر اب وہ اطمینان سے ایک جگہ پڑے رہتے ،جب گھاس اور پانی ختم ہوتا ،تب ہی آگے جاتے ۔
شیروں کی وجہ سے انھیں جھنڈ میں رہنا پڑتا۔ہر جھنڈ کا ایک سردار ہوتا ،جس کا ہر فیصلہ ماننا پڑتا۔جوجانور سردار کا فیصلہ نہیں مانتا،اسے جھنڈ سے نکال باہر کیا جاتا اور اس کا مطلب موت ہوتا۔
اکیلے جانور کو شیر لمحوں میں شکار بنا لیتے ۔اب چوں کہ ایسا کوئی خوف نہیں تھا،تو جھنڈ میں رہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ۔جس کا جدھرجی چاہا،منھ اُٹھا کر چل دیا۔
ان کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا ۔خوراک کی کمی کی وجہ سے اب وہ ان پھولوں پر بھی منھ مارنے لگے تھے ،جن کے بارے میں ان کے بڑوں نے منع کیا تھا کہ یہ شہد کی مکھی کی امانت ہیں ۔
شہد کی مکھی جنگل میں اُڑتی پھرتی اور اس کی بدولت پودے بارآور ہوتے اور سر سبز وشاداب رہتے ۔ان پودوں کو دیکھ کر گھاس بھی خوب بڑھتی ہے ۔گھاس درختوں کی خوش حالی کا سبب تھی ،جس میں کیڑے مکوڑے رہتے تھے ۔وہ زمین کو کھود کر نرم کرتے اور جب مرجاتے تو کھاد کا کام دیتے اور ان کے سبب درخت پھلتے پھولتے ،لیکن اب کھانے کے لیے اور کچھ نہیں بچا تھا۔
جب پھول کم ہوئے تو شہد کی مکھیاں ہجرت کرکے دوسرے جنگل میں چلی گئیں ۔اس کا اثر دیگر پودوں پر پڑا ،جو تیزی سے ختم ہونے لگے ۔یہ دیکھ کر گھاس اُداس ہو گئی۔اس میں پیلاہٹ اور سختی آنے لگی ،کیڑوں کو بھی ہجرت کرنا پڑی اور درختوں کو جب کھادنہ ملی تو وہ سوکھنے لگے ۔
جانور اطمینان کے محض چار سال ہی گزار سکے تھے ،جب اُلّو کی باتیں سچ ثابت ہونے لگیں ۔
جنگل کی آبادی بہت بڑھ گئی ۔تالابوں کا سارا پانی ختم ہو گیا تھا ۔میدانوں میں مٹی اُڑنے لگی اور گھاس کا نام ونشان مٹ گیا۔درخت ختم ہو چکے تھے ،جس کی وجہ سے گرمی میں شدت آگئی تھی ۔آسمان پر بادل نمودار ہوئے ۔انھوں نے زمین پر جھانکا اور جنگل کو صحرا جان کر آگے بڑھ گئے۔اب جانور ہر وقت ایک دوسرے سے لڑنے لگے ۔جنگل میں تین بڑے تالاب بچے تھے ۔
ایک پر ہاتھیوں نے قبضہ کر لیا،ایک گینڈوں کے پاس تھا ،تیسرے میں خوں خور ادریائی گھوڑے رہتے تھے ۔
جانور بھوک اور پیاس سے مررہے تھے ۔بھینسے جن میں سے ہر ایک نے اپنا الگ گروہ بنالیا تھا۔سارے جانور ایک مرتبہ پھر اِکٹھا ہورہے تھے ۔ایک رات انھوں نے ہاتھیوں پر حملہ کر دیا۔ہاتھی جن کی تعداد محض دس تھی ،بہت بہادری سے لڑے ،مگر بھینسے فتح یاب ٹھیرے ۔
انھوں نے تالاب پر قبضہ جمالیا ،مگر اس میں دو درجن کے قریب بھینسے بھی ہلاک ہوئے ۔اس تالاب کا پانی وہ ایک رات میں پی گئے ۔ان کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔اب ان کا اگلا نشانہ کم زور نظروں والے گینڈے تھے مگر گینڈوں نے سمجھ داری دکھائی اور وہاں سے نقل مکانی کرگئے ۔اس تالاب کی آخری بوند پینے کے بعد بھینسوں کا لشکر دریائی گھوڑوں کی جانب بڑھا۔
ا س تالاب کی خاص بات یہ تھی ،وہاں لمبی گھاس اب بھی موجود تھی ۔
دریائی گھوڑے کہیں غائب ہو گئے تھے ۔بھینسوں کی خوشی دیدنی تھی ۔لڑے بنا ہی انھوں نے دوسری کام یابی حاصل کرلی تھی ۔وہ کنارے پر کھڑے اپنے کھروں سے زمین کھود کر فتح کا جشن منار ہے تھے ،جب دریائی گھوڑے لمبی گھاس کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور پوری قوت سے بھینسوں سے آٹکر ائے۔
بھینسے اُچھل اُچھل کرپانی میں گرنے لگے،جہاں ان کا استقبال کرنے کو تیز دانتوں والے سینکڑوں مگر مچھ موجود تھے ،جو ان کو گھسیٹ کر گہرے پانی میں لے گئے۔کچھ دیر بعد تالاب میں ہر جانب بھینسوں کی لاشیں تیررہی تھیں ۔دریائی گھوڑوں کو تالاب صاف کرنے میں دس دن لگ گئے۔
شیر پورے سال میں اتنے جانور شکار نہیں کرتے تھے ،جتنے اب ایک دن میں مررہے تھے ۔
کچھ عرصے بعد جنگل میں چند ہی جانور بچے تھے ،ہر ایک بس اپنا پیٹ بھرنے کی فکر میں تھا۔اتفاق ختم ہو گیا تھا ،ہر ایک اپنی زندگی بچانے کی فکر میں لگا ہوا تھا ۔اُلّو یہ سب دیکھ کر پریشان تھا۔وہ جانتا تھا ،اب بچے کھچے جانوروں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا،لیکن ایک دن جنگل میں اسے شیر کی دہاڑ سنائی دی اور وہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔جنگل کے جانور سراسیمگی کے عالم میں تیزی سے ایک جگہ اِکھٹا ہورہے تھے ۔صرف اُلّو جانتا تھا ،یہ خوف اس جنگل کی خوش حالی کی ضمانت تھا۔