قدرت کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ان دنوں میری عمر محض پندرہ برس تھی جب گاؤں کے اسکول سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ ابھی امتحان کے نتائج کی خوشی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ والدین کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ یوں کم عمری میں میری شادی میرے تایا زاد سے کر دی گئی، جو سرکاری ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں تعینات رہتے تھے۔ شادی کے بعد میں سسرال میں رہنے لگی۔ میری عمر بھلے ہی کم تھی، مگر قد کاٹھ میں اپنی عمر سے بڑی دکھائی دیتی تھی۔ اسکول کے دنوں میں سہیلیاں میری موٹاپے کی وجہ سے چھیڑتیں، لیکن ان باتوں کو میں ہنسی میں اڑا دیتی۔
شادی کو دو سال گزر گئے، مگر اولاد کی نعمت نہ ملی۔ ساس اور نندوں نے اسے میری کمزوری سمجھ کر میرا جینا دوبھر کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے طعنے اور تیز ہوتے گئے۔ سب کا خیال تھا کہ قصور صرف میرا ہے۔ میرے شوہر، جو کئی مہینوں بعد چند دن کی چھٹی پر گھر آتے، مجھے صبر کی تلقین کرتے، مگر ان کے جاتے ہی ساس اور نندوں کا رویہ اور سخت ہو جاتا۔ شادی کے پانچ سال بعد میں شدید احساس کمتری کا شکار ہو گئی۔ اولاد کی خواہش نے مجھے مختلف مزاروں اور درگاہوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا، جہاں میں گھنٹوں دعائیں مانگتی۔ ایک بار تو شوہر کو بتائے بغیر گاؤں کی چند خواتین کے ساتھ ایک پیر بابا کے مزار پر چلی گئی، جہاں سے اگلے دن واپس آئی۔ شوہر کو مزاروں پر جانے سے سخت نفرت تھی، جبکہ ساس اس سے خوش ہوتی تھی۔
وقت گزرتا رہا، اور شادی کو آٹھ سال بیت گئے، مگر میری گود ہری نہ ہوئی۔ اب میری عمر چوبیس برس کے قریب تھی۔ اس دوران میرے شوہر ترقی کرتے ہوئے ایک اچھے عہدے پر پہنچ گئے اور ان کی تعیناتی ڈیرہ اسماعیل خان سے چالیس میل دور ایک شہر میں ہو گئی۔ میں زندگی کی یکسانیت سے تنگ آ چکی تھی، اور ساس بڑھاپے کی وجہ سے چڑچڑی ہو گئی تھیں، جو بات بات پر طعنے دیتیں۔ ایک روز شوہر چھٹی پر آئے اور اصرار کیا کہ میں ان کے ساتھ شہر چلوں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا ہے۔ میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ ساس کے کہنے پر ان کی نو سالہ نواسی عظمیٰ بھی ہمارے ساتھ آ گئی۔
نیا مکان ایک ایسی جگہ پر تھا جہاں گھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔ تنہائی نے مجھے گھیر لیا۔ شوہر دن بھر ڈیوٹی پر ہوتے، رات کو گشت پر نکل جاتے، اور صبح نو یا دس بجے گھر لوٹتے۔ عظمیٰ گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتی اور کبھی کبھار بازار سے سودا بھی لے آتی۔ محلے کی عورتیں کبھی ملنے آ جاتیں، تو ان کے ساتھ باتیں کر کے وقت گزر جاتا۔ ایک دن پڑوسن ہاجرہ نے بتایا کہ قریب ہی ایک پیر صاحب رہتے ہیں، جن کے در پر بے اولاد خواتین کا ہجوم رہتا ہے۔ وہ اور ان کا بیٹا تعویذ لکھ کر دیتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میری امید جاگ اٹھی۔ میں فوراً ان کے مکان کی طرف لپکی۔ پردہ اٹھا کر دیکھا تو چند قدم کے فاصلے پر پیر صاحب کا آستانہ تھا، جہاں ایک ادھیڑ عمر عورت داخل ہو رہی تھی۔ میری عجلت دیکھ کر عظمیٰ ہنسنے لگی۔ وہاں ایک عورت بیٹھی تھی، جو بظاہر بہت ہوشیار لگتی تھی۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ کئی پیر جعلی ہوتے ہیں، اس لیے ہوشیار رہنا چاہیے۔ مگر اس کی نصیحت میرے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اور میں نے دل ہی دل میں آستانے پر حاضری کی ٹھان لی۔
جب میں آستانے کے اندر داخل ہوئی، تو وہاں دو آدمی موجود تھے، جنہوں نے عجیب و غریب لباس پہن رکھا تھا۔ ان کے چہروں پر پراسرار مسکراہٹ تھی، جو دل میں شک پیدا کر رہی تھی۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے اپنی آمد کی وجہ بتائی کہ میں اولاد کی خواہش لے کر آئی ہوں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا ہو۔ ایک نے پانی کا گلاس اٹھایا، اس میں کچھ ملایا اور زیر لب کچھ بڑبڑانے لگا۔ پھر اس نے گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، “یہ پانی پی لو، تمہاری مراد پوری ہوگی۔” میں نے ڈرتے ڈرتے پانی پی لیا۔ وہ دونوں مجھے اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ اچانک مجھ پر بےہوشی طاری ہونے لگی، میری آنکھیں دھندلانے لگیں، لیکن میں مکمل بے ہوش نہ ہوئی۔ اسی نیم بےہوشی کی حالت میں ان ظالموں نے میری عزت سے کھیلنا شروع کر دیا۔ میں درد سے کراہ رہی تھی، لیکن وہ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ میری چیخیں ان کے کانوں تک نہ پہنچیں۔ بڑی مشکل سے میں اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے لٹی پھٹی حالت میں گھر پہنچی۔
صحن میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ عظمیٰ ابھی تک سو رہی تھی۔ میرے سر میں شدید درد تھا، اور خود کو سنبھالنے میں وقت لگا۔ اسی دوران میرے شوہر گھر آ گئے، مگر ڈر اور شرم کی وجہ سے میں انہیں کچھ نہ بتا سکی۔ کئی دن تک پچھتاتی رہی کہ کیوں اس جعلی پیر کے پاس گئی؟ اس عورت کی بات یاد آئی جو آستانے کے دروازے پر ملی تھی اور جس نے مجھے خبردار کیا تھا۔ شاید وہ اس جعلی پیر کی ملازمہ تھی یا محلے کی کوئی عورت، مگر وہ مجھے دوبارہ نظر نہ آئی۔ پچھتاوا میری تقدیر بن گیا۔ اس واقعے نے میری عزت اور خاندان کی ناموس پر داغ لگا دیا۔ میں اپنی ہی نظروں میں گر گئی اور اپنے خدا کے سامنے بھی شرمندہ تھی۔ شوہر کو میری اس بے وقوفی کا علم نہ تھا، مگر میری بے سکونی اور روحانی اذیت کی ذمہ دار میں خود تھی۔ وہ ہمیشہ مجھے پیروں فقیروں سے دور رہنے کی نصیحت کرتے تھے۔
نو ماہ بعد میں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ میرے شوہر خوشی سے نہال تھے کہ خدا نے انہیں اولاد نرینہ عطا کی۔ مگر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ یہ اولاد مجھے عزت گنوا کر ملی تھی۔ شوہر اس تلخ حقیقت سے بے خبر خوشیاں منا رہے تھے۔ اولاد تو اولاد ہوتی ہے، مجھے بھی بیٹے سے محبت ہوئی، مگر میرا ضمیر ہر لمحے شرمندہ تھا۔ کبھی دل چاہتا کہ خود کو سزا دوں، کسی کنویں میں چھلانگ لگا دوں، خاص طور پر جب شوہر بچے کو والہانہ انداز میں چومتے اور کہتے، “اے میرے جانشین، خدا کرے تیری عمر ہزار سال ہو۔”
ہم نے بچے کا نام منور رکھا، کیونکہ شوہر کے خیال میں اس نے ہمارا گھر روشنی سے بھر دیا تھا۔ منور ان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر نہال ہوتے اور اس کی ہر خواہش پوری کرتے۔ ساس اور شوہر کے رشتہ داروں نے بھی بچے کی پیدائش پر خوب خوشیاں منائیں۔ مگر میں گناہ کے احساس میں ڈوبی رہتی۔ کبھی کبھی دل چاہتا کہ خود کو زندہ درگور کر دوں۔ مگر ماں ہونے کے ناطے مجھے جینا تھا۔ وقت گزرتا رہا، منور بڑھتا گیا، اور شوہر اسے دیکھ کر خوشی سے سرشار رہتے۔ وہ کہتے کہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا، اعلیٰ افسر، ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
منور بارہ تیرہ سال کا تھا جب میرے شوہر کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔ اس عمر میں بچوں کو باپ کے سایے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ منور غلط دوستوں کی صحبت میں پڑ گیا۔ اس کا خون ٹھیک نہ تھا، اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو گیا۔ اسکول چھوڑ کر آوارہ لڑکوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے اسے سدھارنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ مانا۔ وہ نشے کی لت میں پڑ گیا، چوریاں کرنے لگا، اور آخر کار جیل چلا گیا۔ میں نے اسے رہا کروایا، مگر وہ اور بگڑ گیا۔ شوہر کے فنڈز سے جو کچھ ملا، وہ منور کی بے راہ روی کی نذر ہو گیا۔ جب پیسے ختم ہوئے تو وہ مجھے مارنے پیٹنے لگا، کہتا، “جہاں سے بھی لاؤ، مجھے پیسے دو۔” اس نے میری زندگی عذاب بنا دی۔ میں موت کی دعائیں مانگنے لگی۔
منور نشے میں ڈوب کر گلیوں میں پھرتا، کبھی نالیوں میں گر جاتا۔ لوگ مجھے بتاتے، اور میں ممتا سے مجبور ہو کر اسے گھر لاتی۔ اس کے بدن کی گندگی تو صاف کر دیتی، مگر اس کی روح کا میل کیسے دھلتا؟ نشے نے اسے بدصورت بنا دیا تھا۔ کبھی اس پر ترس آتا، کبھی بددعا نکل جاتی۔ آخر کار نشے نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا، اور ایک دن وہ اسی حالت میں چل بسا۔ اس کی موت پر مجھے غم تو ہوا، مگر میں اس کے ہوتے بھی بے آسرا تھی۔ اس واقعے نے مجھے سمجھایا کہ قدرت کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ شاید میرا بے اولاد رہنا ہی بہتر تھا، کیونکہ ایسی اولاد سے تو بے اولادی بہتر تھی۔
(ختم شد)