قرآنِ پاک کی 93ویں سورت ، سورۃ الضحیٰ ۔۔۔ اداسی سے اُمید تک، تنہائی سے قرب تک، اور محبتِ الٰہی کا جواب۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سورۃ الضحیٰ ایک مکی سورت ہے، جس میں 11 آیات ہیں۔ یہ وہ سورت ہے جو نبی ﷺ کے دل کو اُس وقت عطا ہوئی جب وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی تھی، اور کفارِ مکہ نے طعنہ دیا: “تمہارا رب تمہیں چھوڑ چکا ہے۔” یہ سورت ایک زخمی دل پر رب کی تسلی، ایک غمگین روح پر رحمت کی روشنی، اور ایک تنہا نبی کے لیے ربّ کی محبت بھرا جواب ہے۔ اگر سورۃ اللیل نے “نیت اور عمل” کا فرق دکھایا تھا، تو سورۃ الضحیٰ “غم اور امید” کے درمیان ربّ کی قربت دکھاتی ہے۔
“نام کی نسبت اور حکمت”
“الضحیٰ” کا مطلب ہے “صبح کی نرم روشنی” ۔ وہ وقت جب اندھیرا ختم ہوتا ہے مگر سورج ابھی پوری طرح نہیں چمکا ہوتا۔ یہ نام پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔۔
وَالضُّحَىٰ (آیت 1)
“قسم ہے چمکتی ہوئی صبح کی!”
یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر اندھیرا ختم ہونے سے پہلے ایک نرم روشنی آتی ہے۔ یہی روشنی ہے جو دلوں کو یقین دیتی ہے کہ اگر رات گزری ہے تو صبح ضرور آئے گی۔
وسعت مضامین
“تسلی کا وعدہ”
وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ (آیت 2)
“اور رات کی، جب وہ چھا جائے۔”
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ (آیت 3)
“تیرے رب نے نہ تجھے چھوڑا ہے، نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے۔”
یہ وہ آیات ہیں جو ہر غمگین دل کے لیے “آسمانی مرہم” ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ۔۔” جب رات پھیل جائے تو سمجھ لو، میں تمہارے قریب ہوں۔ میں تمہیں نہیں بھولا، تمہاری خاموش دعائیں سن رہا ہوں۔” یہ آیات نبی ﷺ کے لیے تھیں، مگران کا پیغام ہر مایوس دل کے لیے ہے ، کہ اللہ کبھی ترک نہیں کرتا، صرف تربیت کرتا ہے۔
“آنے والا وقت ماضی سے بہتر ہے”
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ (آیت 4)
“اور یقیناً تمہارے لیے آخرت (یا آنے والا وقت) پہلے سے بہتر ہے۔”
یہ وعدہ صرف آخرت کا نہیں، دنیا کے ہر دکھ کے بعد آنے والی آسانی کا ہے۔ یعنی “ابھی جو اندھیرا ہے، یہ اختتام نہیں یہ آغاز ہے۔” “ہر امتحان کے بعد ایک انعام ہے، اور ہر خاموشی کے بعد اللہ کی آوازہے ۔
”یہ جملہ “ہر خاموشی کے بعد اللہ کی آواز” ایک روحانی استعارہ
(spiritual metaphor)
ہے، جس کا مطلب ظاہری آواز نہیں، بلکہ دل کے اندر اللہ کی طرف سے آنے والی روشنی، ہدایت، یا اطمینان ہے۔
دل کے سفر کا راز یوں بھی سمجھ سکتے ہیں ، جیسے کبھی کبھی انسان کی زندگی میں وحی کی طرح کا وقفہ آتا ہے ۔۔ جہاں سب کچھ رک سا جاتا ہے ۔۔ دعائیں بے اثر لگتی ہیں، عبادت میں لطف نہیں رہتا، دل خالی، زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وہ “خاموشی” ہے جس کا تجربہ نبی پاک ﷺ نے بھی کیا لیکن ہم انسانوں جیسا نہیں ۔۔ بس ان کا دل اداس رہنے لگا ، جب وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی تھی۔
یقین جانئیے ہمارے اندر یہ خاموشی اللہ پاک کی غیرموجودگی نہیں ہوتی، یہ اللہ کی تربیت کا لمحہ ہوتا ہے ۔۔۔ وہ ہمیں سننے، رکنے، اور باطن کی گہرائی میں اترنے کا موقع دیتا ہے۔ اور پھر جب یہ تربیت مکمل ہو جاتی ہے، تو “آواز” آتی ہے ، یعنی دل میں ایک یقین، ایک روشنی، ایک جواب، ایک سکون۔ ۔۔ وہی احساس جو کہتا ہے “میں تمہارے ساتھ ہوں، میں نے تمہیں نہیں چھوڑا۔”یہی اللہ کی “آواز” ہے جو کانوں سے نہیں، دل کے اندر سنی جاتی ہے۔
“نعمتوں کا وعدہ”
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ (آیت 5)
“اور تیرا رب تجھے اتنا دے گا کہ تُو راضی ہو جائے گا۔”
یہ قرآن کی سب سے محبت بھری آیات میں سے ایک ہے۔ یہ آیت صرف نبی ﷺ کے لیے نہیں،ہر اس بندے کے لیے ہے جو خلوص سے رویا ہے، دعا کی ہے، اور صبر میں بھی رب پر یقین رکھا ہے۔ اللہ پاک وعدہ فرماتے ہیں کہ “میں تجھے اتنا دوں گا کہ تُو خوش ہو جائے گا ۔۔۔ بس تھوڑا سا یقین رکھ، تھوڑا سا انتظار کر۔”
“ماضی کی یاد دہانی”
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ (آیت 6)
“کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پھر ٹھکانا دیا؟”
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ (آیت 7)
“اور تجھے (رہنمائی سے پہلے) بھٹکا پایا، پھر ہدایت دی؟”
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ (آیت 8)
“اور تجھے ضرورت مند پایا، پھر غنی کر دیا؟”
یہ یاد دہانی ہے کہ اللہ ہمیشہ ساتھ تھا ، یتیمی میں پناہ دی، تنہائی میں رہنمائی دی، اور فقر میں بے نیازی دی۔ یہ تین آیات انسان کو بھی یاد دلاتی ہیں ۔۔ اگر آج تم کمزور ہو، تو یاد رکھو کل بھی اللہ نے تمہیں اٹھایا تھا۔ وہی رب آج بھی تمہیں سنبھالے گا۔
“شکر کا عملی پیغام”
فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ (آیت 9)
“پس یتیم پر ظلم نہ کرنا۔”
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (آیت 10)
“اور مانگنے والے کو مت جھڑکنا۔”
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (آیت 11)
“اور اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہو۔”
ان آیات میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ “جیسے میں نے تمہیں سنبھالا، اب تم بھی دوسروں کا سہارا بنو۔” اللہ پاک اپنے محبوب ﷺ کو بتاتا ہے شکر صرف زبان سے نہیں، کردار سے ادا ہوتا ہے۔ یتیم کے ساتھ نرمی، سائل کے ساتھ مہربانی، اور اللہ کی نعمتوں کو زبان سے یاد رکھنا ہی حقیقی بندگی ہے۔
“ سورۃ الضحیٰ کے روحانی پیغامات “
اندھیرے ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں ، روشنی ضرور لوٹتی ہے۔
رب خاموش ہو سکتا ہے، مگر غائب نہیں۔
ماضی تمہیں مضبوط بنانے کے لیے تھا، سزا دینے کے لیے نہیں۔
ہر دکھ کے پیچھے ایک تربیت، اور ہر صبر کے بعد ایک عطا ہے۔
نعمت کا شکر یہ ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچاؤ ۔۔ چاہے دولت ہو ، علم ہو یا محبت ۔
میرے عزیز دوستو!
سورۃ الضحیٰ ہر دل کے لیے وہ خط ہے جو اللہ نے خود لکھا۔۔۔ ہر اُس انسان کے نام جو کبھی خود کو اکیلا سمجھتا ہے۔ یہ سورت کہتی ہے “اگر رات چھا گئی ہے، تو مت گھبراؤ، صبح تمہارے لیے ہے۔ اگر تم روئے ہو، تو یقین رکھو، تمہارا رب تمہیں اس قدر دے گا کہ تم مسکرا دو گے۔”
یہ سورت ایک خوبصورت تسلی ہے ۔۔۔ “اللہ کبھی غیر حاضر نہیں ہوتا، وہ بس خاموش ہو کر ہمیں سننے دیتا ہے۔” جب ہم دل کی صدائیں سنتے ہیں تو تین چیزیں بہت
نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔۔۔
تسلی (Consolation)
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَی
یقین (Hope)
“وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ”
شکر (Gratitude)
“فَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ”
یہ تین مراحل مل کر انسان کو اداسی سے اطمینان کی طرف لے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے رات سے صبح، اور خاموشی سے کلامِ الٰہی سننے تک لے آتے ہیں ۔
اللَّهُمَّ اجعل في قلوبِنا ضُحًى لا يَغيب، وَاملأ أرواحَنا بنورِ رجائِك،واذكُرنا إذا نسينا، وارفعنا إذا وهَنّا، واكتب لنا سكينةَ مَن قال له ربُّه ۔
“مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ.”
اے ہمارے مہربان رب !
ہمیں کبھی اپنی یاد سے محروم نہ کرنا
ہماری راتوں کو یقین کی صبح بنا
اور ہمیں اُن میں شامل کر
جنہیں تو کہتا ہے
“میں نے تمہیں کبھی نہیں چھوڑا۔”
الہی آمین یا ربالعالمین
آپ سب کے لئے بہت محبتیں اور روشنی کی دعائیں
ڈاکٹر نگہت نسیم
![]()

