قرآن میں ستاروں اور سیاروں کا ذکر – نظامِ کائنات کی حکمتیں
از قلم۔۔۔ ڈاکٹر اسلم علیگ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ قرآن میں ستاروں اور سیاروں کا ذکر – نظامِ کائنات کی حکمتیں۔۔۔ از قلم۔۔۔ ڈاکٹر اسلم علیگ)قرآنِ مجید میں ستارے اور سیارے صرف آسمانی مظاہر کے طور پر نہیں بلکہ اللہ کی قدرت، نظامِ کائنات، اور انسان کے لیے تدبر و غور و فکر کی دعوت کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔ یہ مظاہر انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ کائنات ایک منصوبہ بند اور متوازن نظام کے تحت چل رہی ہے، اور ہر چیز اللہ کی حکمت کا عملی مظہر ہے۔
-
ستارے اور انسان کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾ (الانعام: 97)
ترجمہ
“اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے راستہ معلوم کر سکو۔ ہم نے نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔”
ستارے انسان کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہیں، خاص طور پر رات کے اندھیرے میں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اللہ کی ہر مخلوق میں حکمت اور مقصد موجود ہے۔
اسی طرح ستاروں کا ذکر انسان کو علم اور تدبر کی طرف راغب کرتا ہے، تاکہ وہ کائنات کے نظام میں غور کرے اور اپنے رب کی قدرت کا شعور حاصل کرے۔
-
نظامِ کائنات اور اللہ کی حکمت
قرآن میں فرمایا:
﴿ وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ ﴾ (البروج: 1)
ترجمہ
“قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی۔”
یہ آیت آسمان کے نظام، سیاروں اور ستاروں کے مدار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ستارے زمین کے گرد چکر نہیں لگاتے بلکہ ایک منظم نظام کے تحت اپنے مدار میں چلتے ہیں۔
انسان جب اس نظام پر غور کرتا ہے، تو اسے یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ کائنات بے ترتیب نہیں بلکہ اللہ کے منصوبہ بندی کے مطابق چل رہی ہے۔
-
ستارے اور حفاظت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا ﴾ (الفرقان: 61)
ترجمہ
“بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور روشن چاند رکھا۔”
ستارے اور دیگر آسمانی اجسام صرف روشنی یا حسن کے لیے نہیں، بلکہ شیطانی اثرات سے حفاظت اور انسان کی رہنمائی کے لیے بھی ہیں۔ یہ انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ کائنات میں ہر چیز کا ایک مقصد ہے، اور اللہ کی قدرت ہر زاویے میں موجود ہے۔
-
ستاروں کے ذریعے تدبر
قرآن میں ستاروں اور سیاروں کے ذکر سے انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے:
-
ستاروں کی ترتیب، رنگ اور حرکت انسان کو علم اور تدبر کی تعلیم دیتی ہے،
-
آسمانوں کا نظام انسان کو توازن اور منصوبہ بندی کی اہمیت سکھاتا ہے،
-
ستارے انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ اللہ کی قدرت لا محدود ہے اور انسان محدود عقل کا مالک ہے۔
-
روحانی اور اخلاقی سبق
ستارے اور سیارے انسان کو کئی اہم سبق دیتے ہیں:
-
نظم و ضبط: ہر ستارہ اور سیارہ اپنے مقررہ مدار میں حرکت کرتا ہے، جس سے انسان سیکھتا ہے کہ زندگی میں منصوبہ بندی اور نظم ضروری ہے۔
-
ہدایت: جیسے ستارے راہنمائی کرتے ہیں، ویسے ہی علم و ایمان انسان کو صحیح راستہ دکھاتے ہیں۔
-
تدبر: کائنات کی پیچیدہ ترتیب انسان کو غور و فکر کی طرف راغب کرتی ہے۔
-
توکل: نظامِ کائنات میں ہر چیز اللہ کے حکم کے مطابق چلتی ہے، انسان کو توکل سکھاتا ہے۔
-
ستاروں اور کائنات میں حکمتیں
قرآن میں ستاروں اور سیاروں کے مظاہر سے انسان یہ سیکھتا ہے کہ:
-
کائنات میں ہر چیز اللہ کے منصوبہ بندی کے مطابق ہے،
-
علم و تدبر انسان کو اللہ کی حکمت کا ادراک دلاتا ہے،
-
نظامِ کائنات میں مطابقت انسان کی زندگی میں بھی نظم و ترتیب کے اصول سکھاتی ہے۔
-
غور و فکر اور قرآن کا جذبہ
ستاروں اور سیاروں کے ذکر سے انسان میں قرآن سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جب انسان دیکھتا ہے کہ آسمان میں لاکھوں ستارے ایک متوازن نظام میں موجود ہیں، تو اسے قرآن کی آیات میں اللہ کی قدرت، حکمت اور تدبر کا شعور حاصل ہوتا ہے۔
قرآن میں ستاروں اور سیاروں کا ذکر انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ کائنات ایک منظم نظام کے تحت چل رہی ہے، اور ہر چیز اللہ کی حکمت اور قدرت کی نشانی ہے۔
یہ انسان کو نظم، تدبر، شکرگزاری، توکل اور ایمان کی تعلیم دیتا ہے۔ ستارے اور سیارے قرآن کے ذریعے زندگی میں غور و فکر اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہیں، جو پڑھنے والے کو قرآن سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔
![]()

