Daily Roshni News

قصہِ موسیؑ و فرعون کا مختصر تعارف

قصہِ موسیؑ و فرعون کا مختصر تعارف

اور

عَصَا کی لغوی و قرآنی تحقیق

عَصَا۔۔۔کا سہ حرفی مادہ۔۔۔ع،ص،و ہے۔

عَصَا ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔

اس لفظ کا لغوی معنی لاٹھی یا ڈنڈا ہے۔جو مدد،جماعت سہارے اور اتھارٹی کی علامت ہے۔

اس لفظ کا بنیادی معنی اجتماع یعنی اکٹھا ہونے کے ہیں۔لاٹھی کو عصا اسی لئے کہتے ہیں کہ اسے پکڑنے کے لئے ہاتھ کی انگلیوں کو اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ایک معنی جماعت بھی ہے۔

مزید لغات میں اس کے متعدد معنی بیان کئے گئے ہیں، لاٹھی،سہارا،زبان،پنڈلی کی ہڈی،عورتوں کا سربند،

گروہ،جماعت اور قانون وغیرہ

لفظ عَصَا قرآن کریم میں تین معنوں میں بیان ہوا ہے۔

اب اس لفظ کا عربی ادب میں معنی اور قرآنی استعمال ملاحظہ فرمائیں۔

1۔۔۔(سہارا)

عَشَزَ علَى عَصَاهُ  لاٹھی کا سہارا لینا ۔

(قرآنی استعمال۔۔سہارا )👇

الہی ضابطے کا سہارا،جس پر تکیہ کر کے موسیؑ نے اپنی جماعت بنی اسرائیل کے لئے تحریکِ ربوبیت کو کامیاب بنایا۔

عصا۔۔۔سہارا

قَالَ هِىَ عَصَاىَ‌ۚ اَتَوَكَّؤُا عَلَيۡهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَـنَمِىۡ(20/18)

۔۔۔۔۔

2۔۔۔(جماعت)

انْشَقَّتِ العَصَا ۔۔جماعت کا شیرازہ بکھیرنا۔

(قرآنی استعمال،جماعت)             👇

 اپنی جماعت کو پتھریلی زمین/سمندر کی آبناء کی طرف لے جائیں۔

بِّعَصَاكَ ۔۔۔

عصا بمعنی جماعت (2/60+26/63)

۔۔۔۔۔

3۔۔۔(قانون)

عَبيدُ العَصَا..ڈنڈے یعنی قانون کے بندے، لاتوں کے بھوت۔

(قرآنی استعمال ۔۔ قانون)👇

جب موسی نے تحریک کا سہارا،قانون ربوبیت پیش کیا،تو وہ دیکھنے والوں کے لئے اچانک بمثل صریح اژدھا تھا۔

عصا۔۔۔۔قانون

فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ‌(7/107)

۔۔۔۔

عَصَا۔۔۔کے صحیح معنی سمجھنے میں بنیادی رکاوٹ

بنیادی رکاوٹ محرف کتابوں سے درآمد اور کتب الروایات سے  نقل در نقل وہ روایتی نظریہ ہے کہ جس کے مطابق پہلے موسیؑ کو معاذ اللہ چرواہا بنا کر پیش کیا گیا ہے پھر عصاء سے مراد لاٹھی لے کر اس لاٹھی سے جادو اور معجزات منسوب کر دیئے گئے ہیں۔

پھر وہ لاٹھی کبھی جادو سے سانپ بن جاتی تھی،کبھی مارنے سے پہاڑ سے چشمے جاری ہو جاتے تھے تو کبھی وہ لاٹھی سمندر جیسی عظیم الشان تخلیق کو دو ٹکڑے کر دیتی تھی۔

پہلے نمبر پر معجزہ کا لفظ پورے قرآن میں موجود نہیں،بلکہ آیات اللہ/اللہ کی نشانیاں ہیں،

اور نہ اللہ تعالٰی معجزات سےلوگوں کی عقلوں کو عاجز کرانا چاہتا ہے۔

 بمطابق قرآن آیات اللہ،جغرافیہ اور سائنس اللہ کی نشانیاں ہیں(30/20تا28)

اللہ تعالٰی کی تخلیق  مکمل، تبدیلی سے پاک ہے(30/30)اور ہر چیز کے اندازے و پیمانے مقرر ہیں۔

جبکہ روایتی معجزات پر یقین سنت منکرین ہے(10/20)

اور بمطابق قرآن تقابل ضدین میں سحر کا معنی بھی جادو نہیں بلکہ جھوٹ اور فریب ہے، جو الحق کے مقابل آیا ہے(10/76)

جادو کا تو روئے زمین پر وجود ہی نہیں۔

انبیاء کرام جو بندے بشر تھے نہ تو غیب جانتے تھے اور نہ ہی ظہور خوارق کی طاقت رکھتے تھے۔

اور نہ ہی پورے قرآن میں عقل و بصیرت کے خلاف چھوئی موئی اور جنتر منتر ٹائپ طریقہ کی کوئی بات درج ہے(13/31)

اس کے برعکس عالم اسباب میں اللہ تعالٰی نے تسخیر کائنات کا حکم دے رکھا ہے(45/13)

یاد رہے کہ قصہ موسیؑ و فرعون 37 سورتوں میں بیان ہوا ہے،اور یہ تحریک متعدد سالوں کے عرصہ پر محیط ہے۔

محل تک رسائی، منصب نبوت،مدین کی طرف سفر،جدوجہدِ آزادی اور امدادی و احتجاجی کارروائیوں کے لئے الگ بستی بسانا اور ذہنی آزادی و نعمت الہی/ اسلامی حکومت کے لئے عسکری ٹریننگ کے ساتھ ایک طویل عرصہ اور جدوجہد اس میں شامل ہے۔

 پس منظر و پیش منظر

قرآن کریم میں درج اس نصیحت آموز قصے کا بنیادی نقطہ طبقاتی فسادی فرعونی نظام کے خلاف حقوق ربوبیت کی جدوجہد ہے۔(28/4)

یوسف سلام علیہ کے دور اقتدار میں ان کے خاندان پر مشتمل یہ  قبائل جو مصر میں مستقل آباد ہو گئے تھے،وہاں ان کی پشتیں گزر گئیں، لیکن عرصہ دراز کے بعد ان کو غیر ملکی قرار دے کر ان سے قانونی حقوق مطلقا چھین لئے گئے، پھر موسی سلام علیہ کے ذریعے بذریعہ تحریک ان کو ان کا قانونی حق دلوایا گیا28/5

کیونکہ ضروریات زندگی اور تکریم انسانیت کے لحاظ سے نہ تو کوئی فرق ہے اور نہ ہی ملکی و غیر ملکی کی تقسیم اس راہ میں کوئی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

ؑاسی الہی تحریک کے دوران موسی نے تباہ شدہ قوم کو بطور مشاہدہ احتجاج کے طور پر پیش بھی کیا،اور ہڑتالیں کر کے فرعونیوں پر قحط کا عذاب بھی مسلط کیا(7/130)

 اور فرعون کے جادو بیان علماء کو الہی دلائل بھی دیئے۔

 جن دلائل/جادوگروں کی رسیوں اور سوٹیوں(غضب ربوبیت کی بودی دلیلوں) کو عصاء موسیؑ(ربوبیت کا قانون،ضابطہ الہی)بآسانی نگل گیا۔

 قرآن میں صرف دو مقامات پر عصا کے سانپ بننے کی خبر كَاَنَّهَا جَآنٌّ حرف تشبیہ کاف کے ساتھ آئی ہے سانپ جیسا نہ کہ حقیقی سانپ بننے کی۔

وَاَنۡ اَ لۡقِ عَصَاكَ‌ ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهۡتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ

27/10+28/31

 اَ لۡقِ عَصَاكَ‌ میں اَ لۡقِ کا معنی پھینکنا بھی ہے اور پیش کرنا بھی۔پھینکنے کا مفہوم لیا جائے تو ڈنڈا ہو گا،لیکن اگر اصطلاحی معنی پیش کرنا لیا جائے تو مراد الہی قانون ہے۔جس سے ربوبیت عامہ کے دلائل پیش کئے گئے تھے۔

حاصل کلام

انبیاء کرام کی تحریک ہمیشہ نایقینی جیسی صورت حال کے ساتھ بےسروسامانی سے شروع ہو کر انتھک جدوجہد سے کامیاب و کامران ہوتی تھی۔اور ان مشکلات کے پیش نظر بعد والے انہیں مافوق البشر ہستیاں قرار دے کر قسم قسم کے تصورات چسپاں کر دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس نصیحت آموز  قصے میں سارا مقابلہ ربوبیتی دلائل اور احتجاجی مظاہروں کا تھا نہ کہ شعبدہ بازی سے سانپوں کے مقابل سانپ پیدا کرنے اور سانپوں کے سانپوں کو کھانے کا۔اس پر مدد کے لئے موسی سلام علیہ کو اپنے بھائی کا ساتھ بھی مانگنا پڑا۔

پھر

غور طلب بات یہ ہے کہ مخلوق کو زندگی دینا صرف اللہ کا کام ہے۔

بقول روایات اگر سانپوں کا تقابل ہی مراد لیا جائے تو موسیؑ نے بقول ان کے ڈنڈے میں اللہ کے حکم سے زندگی پیدا کر دی۔

لیکن ساحرین فرعون کس طرح الہی اختیارات میں شامل ہو کر زندگی دینے لگ گئے،اور کس کے حکم سے ایک نہیں درجنوں سوٹیوں اوررسیوں میں جان ڈال دی؟؟؟

اور اگر اس تحریک کا مقصد ڈنڈوں کی اہمیت بیان کرنے کے لئے ہی قرآن میں درج ہے تو فرعون کے دماغ پر بھی ایک معجزاتی ڈنڈا ہی مار کر اس کی اصلاح کیوں نہ کر دی گئی؟؟

حد تو یہ ہے کہ اتنی کرامات کے بعد بھی فرعون اور اس کی قوم موسی و ہارون سلام علیہما پر ایمان پھر بھی نہ لائی۔ثم تتفکروا

وما علینا الا البلاغ المبین

Loading