Daily Roshni News

قومی اسمبلی کی اقتصادی امور کمیٹی نے حکومت کی سولر پالیسی پر سوالات اٹھا دیے

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی اقتصادی امور کمیٹی نے حکومت کی سولر پالیسی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سولر  پالیسی میں بہت تضادات ہیں۔ 

قومی اسمبلی کی اقتصادی امور کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی محمد عاطف خان کی زیر صدارت ہوا جہاں گزشتہ 30 سالوں میں پاورسیکٹر کی ناکامیوں اور اصلاحات کا معاملہ زیربحث آیا۔

اجلاس میں پاور ڈویژن حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈسکوز میں شفافیت کے لیے نجکاری کا عمل جاری ہے اور نجکاری کے لیے سیکٹر ڈیو ڈیلیجنس فائنل مرحلے میں ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں 3 تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جا رہی ہے، ان کمپنیوں کے نقصانات باقی ڈسکوز کی نسبت کم ہیں اور تینوں ڈسکوز کی نجکاری کے لیے فنانشل ایڈوائزر ہائرکر لیا گیا ہے۔

اس موقع پر کمیٹی ممبر جاوید حنیف نے سوال کیا جو ڈسکوز اچھا پرفارم کررہی ہیں ان کی پہلے نجکاری کیوں کر رہے ہیں؟ مرزا افتخار بیگ نے کہا پاور پالیسی میں ہی بہت سے تضادات ہیں، اضافی بجلی ہے اس لیے سولر کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جبکہ عاطف خان بولے پہلے سولرکی حوصلہ افزائی کی گئی اور اب نیٹ میٹرنگ ختم کی جا رہی ہے۔

اس پر پاور ڈویژن حکام نے جواب دیا کہ آج کے دن تک کسی سائیڈ سے سولر کی حوصلہ شکنی کا اشارہ نہیں دیا گیا، حکومت اور نہ ہی وزارت نے سولر کے حوالے سے کوئی ایسی بات کی۔

 اس  موقع پر مزا افتخار بیگ نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کا ریٹ 27 روپے سے کم کرکے 11 روپے کر دیا گیا ہے، سرمایہ کاری میری ہے اور فیصلہ وزیرکریں گے، یہ پیسہ کب واپس آئے گا، آپ کے ان فیصلوں کی وجہ سے لوگ اور انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے۔

پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ 2021 کی پاور پالیسی مشترکہ مفادات کونسل نے بنائی تھی، اس پر عاطف خان نے کہا کہ اس ملک کو اگر کسی سیکٹر نے سب سے زیادہ نقصان دیا وہ پاورسیکٹر ہے، بجلی کی 70 روپے قیمت عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا، کیپسٹی پیمنٹس کا بوجھ تو اگلے 30 سال تک عوام اٹھاتے رہیں گے۔

Loading