لبرل دانشور کی ’جنسی فرسٹریشن‘ اور دلیل کا جنازہ: جب ’سائنس‘ کا جواب ’گٹر‘ سے دیا جائے! – بلال شوکت آزاد۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد)دنیا میں بحث کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص “سائنسی دلیل” لاتا ہے، تو اس کا جواب “سائنسی دلیل” سے دیا جاتا ہے۔
اگر میں نے کہا کہ زنا سے ڈی این اے (DNA) متاثر ہوتا ہے اور اس کے ثبوت میں ریسرچ پیپرز پیش کیے، تو مہذب اور پڑھے لکھے انسان کا فرض تھا کہ وہ “وائزمین بیریئر” یا کسی جدید تحقیق کا حوالہ دے کر مجھے غلط ثابت کرتا۔
لیکن افسوس!
ہمارے دیسی لبرل دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ ان کا “مطالعہ” مغرب کی چند سستی ویب سائٹس تک محدود ہے اور ان کی “منطق” ان کی اپنی “ناف کے نیچے” جا کر دم توڑ دیتی ہے۔
موصوف کا تبصرہ پڑھ کر مجھے ہنسی بھی آئی اور ترس بھی۔
ہنسی ان کی “علمی سطح” پر کہ انہوں نے ایک تحقیقی مقالے کو “سائنس کا بلاتکار” کہا مگر ایک بھی سائنسی غلطی کی نشاندہی نہ کر سکے، اور ترس ان کی “نفسیاتی حالت” پر کہ ان کا پورا ورلڈ ویو (Worldview) صرف “مشت زنی”، “لڑکی کی لفٹ” اور “لونڈیوں” کے گرد گھوم رہا ہے۔
یہ تبصرہ میری تحریر کا رد نہیں، بلکہ موصوف کی اپنی “آٹو بائیوگرافی” ہے۔
نفسیات میں ایک اصطلاح ہے “Projection”۔
انسان اپنے اندر کی خامیاں اور گندگی دوسروں میں دیکھنے لگتا ہے۔
موصوف فرماتے ہیں:
“اگر بلال کو نوجوانی میں کوئی لڑکی لفٹ کراتی تو یہ ایک منٹ نہ لگاتے۔”
یہ جملہ ان کی اپنی “اخلاقی اوقات” بتا رہا ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ ان کے نزدیک عورت صرف ایک “گوشت کا ٹکڑا” ہے اور مرد صرف ایک “بھوکا کتا”۔
ان کا نظریہ یہ ہے کہ مرد صرف تب تک نیک ہے جب تک اسے موقع نہیں ملتا۔
ارے نادان دوست!
ہم “محروم” نہیں ہیں، ہم “پابند” (Disciplined) ہیں۔ محرومی وہ ہوتی ہے جب آپ کو ملے نہیں، اور پرہیزگاری وہ ہوتی ہے جب آپ کے پاس اختیار ہو مگر آپ اللہ کے خوف اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے رک جائیں۔ آپ کا دماغ چونکہ “ہوس” کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا، اس لیے آپ کو ہر پاک دامن شخص “محروم” لگتا ہے۔ آپ کے لیے عورت کا “لفٹ کرانا” زندگی کی معراج ہوگی، ہمارے لیے یہ “امتحان” ہے۔ یہی فرق ہے ایک “مومن” اور ایک “جانور” میں۔ جانور کو موقع ملے تو وہ نہیں چھوڑتا، انسان کو موقع ملے تو وہ اپنے “اصول” دیکھتا ہے۔
موصوف کو “1400 سال پہلے” کے تڑکے سے بہت تکلیف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہالت تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔
بالکل درست!
جہالت تب بھی تھی، اور اس جہالت کا نام “ابو جہل” تھا جو دلیل کے مقابلے میں گالی دیتا تھا، اور جہالت آج بھی ہے جس کا نام “دیسی لبرل” ہے جو ایپی جینیٹکس کے مقابلے میں “مشت زنی” کے طعنے دیتا ہے۔
ہم 1400 سال پیچھے اس لیے جاتے ہیں کیونکہ اس وقت ایک “حق” (Truth) آیا تھا جو “ٹائم لیس” (Timeless) ہے۔ سچائی پرانی نہیں ہوتی۔
کششِ ثقل (Gravity) نیوٹن سے پہلے بھی تھی، نیوٹن کے بعد بھی ہے، اور قیامت تک رہے گی۔
اگر 1400 سال پہلے قرآن نے کہا “زنا کے قریب نہ جاؤ” اور آج 2025 میں “ایپی جینیٹکس” کہہ رہی ہے کہ “زنا جینز کو تباہ کرتا ہے”، تو یہ اس پرانی بات کا “متروک” ہونا نہیں، بلکہ اس کا “سائنسی معجزہ” ہونا ثابت کرتا ہے۔
آپ کی تکلیف یہ نہیں ہے کہ بات پرانی ہے، آپ کی تکلیف یہ ہے کہ وہ پرانی بات آج کی جدید سائنس کے عین مطابق کیوں نکل آئی؟
اب آتے ہیں ان کے سب سے بڑے اور گھسے پٹے اعتراض کی طرف:
“تب لونڈیوں سے تعلق جائز تھا، آج رضامندی کا سیکس زنا کیوں ہے؟”
یہ دلیل ان کی تاریخ اور سوشیالوجی سے مکمل جہالت کا ثبوت ہے۔
ذمہ داری بمقابلہ ٹشو پیپر:
اسلام میں “ملکیتِ یمین” (لونڈی) کے ساتھ تعلق “زنا” نہیں تھا کیونکہ اس میں “ذمہ داری” (Responsibility) شامل تھی۔ اگر اس تعلق سے بچہ پیدا ہوتا، تو وہ بچہ آزاد ہوتا، وہ باپ کا وارث بنتا، اور وہ عورت “ام ولد” بن کر بکنے سے آزاد ہو جاتی۔ مرد اس کی چھت، روٹی اور اولاد کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
آج کا “رضامندی کا سیکس” (Consensual Sex) کیا ہے؟
یہ “ذمہ داری سے فرار” ہے۔
آپ کی لبرل اقدار میں مرد عورت کو استعمال کرتا ہے، “رضامندی” کا نام دیتا ہے، اور جب وہ حاملہ ہو جائے یا ذمہ داری کا وقت آئے، تو اسے “بلاک” کر کے بھاگ جاتا ہے یا ابارشن کلینک بھیج دیتا ہے۔
اسلام نے “نکاح” اور “ذمہ داری” کے بغیر ہر تعلق کو حرام قرار دیا ہے۔ وہ تعلق جس میں مرد صرف “لذت” لے اور “بوجھ” نہ اٹھائے، وہ زنا ہے۔ چاہے وہ 1400 سال پہلے ہو یا آج۔
رضامندی کا ڈھونگ:
موصوف کہتے ہیں تب “رضامندی” کا سوال نہیں ہوتا تھا۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیے جو یورپ نے 20ویں صدی میں دیے۔ لیکن اسلام کی نظر میں “رضامندی” حلال ہونے کی واحد شرط نہیں ہے۔
اگر دو بہن بھائی “رضامندی” سے سیکس کریں (Incest)، تو کیا آپ کا لبرل ازم اسے قبول کر لے گا؟
اگر نہیں، تو کیوں؟
کیونکہ “معاشرتی اور جینیاتی اصول” رضامندی سے اوپر ہوتے ہیں۔ زنا اس لیے حرام نہیں کہ اس میں رضامندی نہیں، بلکہ اس لیے حرام ہے کہ یہ “نسب” (Lineage)، “معاشرے” اور “جینیات” کو تباہ کرتا ہے۔
آپ نے میری تحریر کو “سائنس کا بلاتکار” کہا۔
میں چیلنج کرتا ہوں!
میری تحریر میں University of Pennsylvania کی ریسرچ تھی، Nature Neuroscience کا حوالہ تھا، Coolidge Effect کا ذکر تھا۔
آپ نے اس کے جواب میں کیا دیا؟
“99 فیصد لوگ مشت زنی کرتے ہیں”؟
واہ! کیا سائنسی دلیل ہے!
کیا یہ آپ کی ریسرچ کا لیول ہے؟
آپ نے سائنس کا نہیں، بلکہ “منطق” (Logic) کا بلاتکار کیا ہے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ کے پاس میری سائنسی تحقیق کا کوئی جواب نہیں ہے، اس لیے آپ نے “شماریات” (Statistics) کا سہارا لے کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔
اگر 99 فیصد لوگ زہر کھا لیں، تو کیا زہر “شفاء” بن جائے گا؟
اگر دنیا کی اکثریت پورن دیکھتی ہے، تو کیا پورن کے “نیورولوجیکل نقصانات” ختم ہو جائیں گے؟
اکثریت کا عمل “حق” کا معیار نہیں ہوتا۔
میرے دوست!
آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم “اختلاف” کو علمیت کیوں نہیں سمجھتے؟
کیونکہ آپ اختلاف نہیں کر رہے، آپ “تعفن” پھیلا رہے ہیں۔
اختلاف وہ ہوتا ہے جب آپ کہیں:
“بلال صاحب! آپ نے جو ایپی جینیٹکس کا حوالہ دیا، اس میں فلاں ریسرچ پیپر یہ بھی کہتا ہے…”
یہ ہوتا ہے علمی اختلاف۔
لیکن جب آپ کہتے ہیں:
“تمہیں لڑکی نہیں ملی اس لیے تم یہ لکھ رہے ہو”
تو یہ اختلاف نہیں، یہ آپ کی “ذہنی غلاظت” ہے۔
آپ جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مغرب میں بیٹھ کر وہاں کی “آزادی” (آوارگی) کو انجوائے کر رہے ہیں، لیکن آپ کے اندر کا “ضمیر” آپ کو ملامت کرتا ہے۔
اس ملامت کو خاموش کرانے کے لیے آپ دین، تاریخ اور سائنس پر حملے کرتے ہیں تاکہ آپ خود کو یقین دلا سکیں کہ
“میں ٹھیک کر رہا ہوں، یہ مسلمان پاگل ہیں”۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ سائنس اب “مسلمانوں” کی تائید کر رہی ہے، اور آپ جیسے “روشن خیال” اب اندھیرے میں کھڑے چیخ رہے ہیں۔
آپ کی گالی، آپ کا طنز، اور آپ کا ذاتی حملہ اس بات کا سرٹیفکیٹ ہے کہ میری تحریر نے آپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔
آپ جاری رکھیں، ہم دلیل سے بات کریں گے، آپ گٹر ابلتے رہیں، ہم خوشبو پھیلاتے رہیں گے۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

