لندن کی فضاؤں سے
فیضان عارف
امیگریشن پالیسی اور شبانہ محمود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف) برطانوی پارلیمنٹ کی رکن شبانہ محمود کو حال ہی میں ہوم سیکرٹری بنائے جانے پر پاکستانی اورکشمیری کمیونٹی کی طرف سے مسرت اور خوشگوار تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی مسلمان سیاستدان ہیں انہیں ایک ایسے وقت پر اس عہدے کے لئے چنا گیا ہے جب پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں امیگرنٹس کے مسئلے کو آئندہ انتخابات میں ایک اہم سیاسی مسئلے کے طور پر اجاگر کیا جائے گااور اس معاملے میں برسر اقتدارلیبر پارٹی اپنی امیگریشن پالیسی کا از سر نو جائزہ لے کر تارکین وطن اور خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات اور قوانین بنارہی ہے۔ یوکے میں انگریز گوروں کی انتہا پسند جماعتیں نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کے لئے سرگرم عمل ہیں بلکہ اب وہ امیگرنٹس کے معاملے کو بھی ہوا دے کر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے لندن میں گورے انتہا پسندوں نے ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا جس میں پورے ملک سے تقریبا ایک لاکھ انگریزوں نے برطانیہ اور انگلینڈ کے جھنڈے اٹھا کر شرکت کی۔ اس ریلی کی قیادت ایک اینٹی اسلام انتہا پسند ٹومی رابنس نے کی۔یہ وہی شخص ہے جس کا پیدائشی نام سٹیفن کرسٹوفر یکسلی ہے اور یہ مختلف انتہا پسند تنظیموں کے لئے اینڈریو میک ماسٹر،پال ہیرس، ویان کنگ اور سٹیفن لینن وغیرہ کے نام سے کام کرتا رہا ہے۔ نفرت انگیز اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یہ 2005 اور 2025 کے دوران پانچ بار جیل کی سزا بھگت چکا ہے۔ انگلش ڈیفنس لیگ کے بانی اس شخص کے جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے اور اس کے پیرو کاروں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو اسی طرح کا مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ شخص شراب نوشی اور جوئے کی لت میں بھی مبتلا ہے۔اسے 2013 میں جعلی پاسپورٹ پر امریکہ میں داخلے پر بھی قانونی کار روائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہفتہ13 ستمبر کو وسطی لندن میں یو نائٹ دی کنگڈم کے نام ہے ہونے والی انتہاپسندوں کی ریلی کے خلاف وائٹ ہال کے باہر کئی ہزار امن پسندوں نے بھی مظاہرہ کیا۔ انتہا پسندوں کے خلاف اس مظاہرے کا اہتمام سٹینڈ اپ ٹوریسزم تنظیم نے کیا تھا۔ انتہا پسندوں کی ریلی کو کنٹرول کرنے کے لئے لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی پولیس اور سکیورٹی فورس کو برطانوی دارالحکومت بلا کر متعین کیا گیا تھا۔ ریلی کے دوران کچھ بے قابو انتہاپسندوں نے پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس اینٹی اسلام اور اینٹی امیگرنٹس ریلی سے ایلون مسک نے بھی ویڈ لنک پر خطاب کیا جس کی دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔ برطانیہ کی پونے سات کروڑ آبادی میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا اور اس پر کئے جانے والے پر اپیگنڈے کی وجہ سے ان کا نسلی منافرت کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ ٹومی رابنس کی طرح اگر برطانیہ کے دیگر انتہا پسندوں اور مسلمان دشمنوں کے مجرمانہ ریکارڈ کا سراغ لگایا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئی گی کہ یہ لوگ اپنی محرومیوں اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے اور امیگرنٹس اور اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔دنیا بھر میں انتہا پسندوں اور نسلی منافرت پھیلانے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چاہے اُن کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ ایسے لوگوں کی اکثریت قانون شکن اور جرائم میں ملوث ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر پرامن لوگوں کی زندگی حرام کرنے کے جنون میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ امیگریشن اور نسلی منافرت کو اپنی سیاست کی بنیادبنانے والے انگریزوں کے وراثتی ماضی کو کھنگالا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کے اپنے آباؤ اجداد یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں سے ہجرت کر کے برطانیہ آئے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ آنے والے امیگرنٹس ہر وہ ملازمت اور مشقت طلب کام کرنے کے لئے مستعد رہتے ہیں جن کومقامی انگریز کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اسی لئے برطانیہ میں معاشی ترقی کیلئے ہر دور میں امیگرنٹس کی ضرورت رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جہاں تک غیرقانونی تارکین وطن کا معاملہ ہے اس سلسلے میں ہربر طانوی شہری موثر امیگریشن پالیسی کا حامی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک گورے انتہا پسند کی ویڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے جس سے ایک صحافی نے پوچھا کہ تم امیگرنٹس کے خلاف کیوں ہو تو وہ جواب دیتا ہے کہ ان تارکین وطن نے ہم مقامی لوگوں کی ملازمتیں لے لی ہیں جس کے بعد صحافی اس سے سوال کرتا ہے کہ تمہاری کو الیفکیشن (تعلیمی استعداد) کیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ امیگرنٹس نے ہماری کوالیفکیشن بھی لے لی ہے۔ جہاں تک اسلاموفوبیا کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ پورے یونائیٹڈ کنگڈم کی پونے سات کروڑ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب صرف چھ فیصد ہے۔ یہ چھ فیصد مسلمان امیگرنٹس نہ تو برطانیہ کو مسلم سٹیٹ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی شریعت نافذ کر سکتے ہیں۔کسی بھی ملک کے مٹھی بھر دماغی مریضوں اور انتہا پسندوں کے طرز عمل سے پوری کمیونٹی کے بارے میں ایک جیسی رائے قائم کرنا بالکل درست نہیں۔
اگر ہم صرف پاکستانی اور انڈین امیگرنٹس کی بات کریں تو ان ملکوں کے تارکین وطن کی اکثریت نے یونائیٹڈکنگڈم میں آکر نہ صرف دن رات محنت کر کے اس معاشرے میں اپنے لئے جگہ بنائی ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے امیگرنٹس کی نئی نسل اعلی تعلیم یافتہ ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر فائز ہو کہ برطانیہ کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جو امیگرنٹس اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غافل رہے اُن کی نئی نسل بے روزگارگوروں کی طرح حکومتی امداد پر گزارہ کرتی ہے یا پھر ناجائز ذرائع سے مال بنانے کے چکر میں پڑی رہتی ہے۔ صرف سیاست کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں 29 ارکان ایسے ہیں جن کے آبا ؤ اجداد انڈیا سے ہجرت کرکے یو کے آئے تھے جبکہ 15اراکین پاکستان نژاد ہیں۔نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے یہ تمام ار کان اُن پارلیمانی حلقوں سے منتخب ہو کرہاؤس آف کامنز کا حصہ بنے ہیں جہاں انگریزوں کی اکثریت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں انگریز ووٹرز نے منتخب کرکے پارلیمنٹ تک پہنچایا ہے۔ عام انتخابات میں اگر کوئی انتہا پسند یا اسلام دشمن انگریز کسی حلقے سے امیدوار بنتا ہے تو اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھتا ہے جس سے اس حقیقت کی بھی تصدیق ہوتی ہے کے انگریزوں کی اکثریت امیگرنٹس کے خلاف اور اسلام دشمن نہیں ہے۔صادق خان کا تیسری بارمیئر آف لندن منتخب ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی شہری اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت اُن کے رنگ ونسل کو دیکھنے کی بجائے اُن کی کار کردگی کو پرکھتے ہیں۔ ویسے بھی جب کوئی امیگرنٹ یا مسلمان منتخب ہو کر برطانوی پارلیمنٹ پہنچتا ہے یا حکومت میں کابینہ کا حصہ بنتا ہے تو اُسے اپنی پارٹی اور حکومت کی پالیسی کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کے جو لوگ شبانہ محمود کے ہوم سیکرٹری(وزیر داخلہ) بنائے جانے پراس لئے خوش ہیں کہ اُن کے اس منصب پر فائز ہونے سے اوور سیز پاکستانیوں کو کوئی فائدہ ہوگا تو یہ اُن کی خوش فہمی ہے۔جس طرح ٹوری پارٹی نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں پریتی پٹیل، سویلا بریور مین اورساجد جاوید کو ہوم سیکرٹری بنا کر اپنی امیگریشن پالیسی میں ایسی تبدیلیاں یا اصلاحات کی تھیں جن کی وجہ سے امیگرنٹس کے لئے کئی طرح کی مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر پریتی پٹیل کے دور وزارت میں امیگرنٹس کو روانڈا بھیجنے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا اس کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ شبانہ محمود کو ہوم سیکرٹری بنائے جانے کے بعد اس بات کے امکانات اور خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ لیبر پارٹی کی حکومت بھی اپنی امیگریشن پالیسی میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جن سے حکومت پر امیگرنٹس اور خاص طور پر غیرقانونی امیگرنٹس کا معاشی بوجھ کم ہو۔ ٹوری پارٹی کی طرح لیبر پارٹی بھی چاہتی ہے کہ امیگریشن پالیسی میں یہ تبدیلیاں ایک ایسی ہوم سیکر ٹری کے دوروزارت میں کی جائیں جس کا اپنا تعلق بھی امیگرنٹس کے خاندان سے ہو۔
شبانہ محمود آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں، پیشے کے اعتبار سے قانون دان اور بیرسٹر ہیں۔ وہ 2010 سے برمنگھم کے پار لیمانی حلقے لیڈی ووڈ سے ہاؤس آف کامنز کی رکن منتخب ہوئی چلی آرہی ہیں جہاں سے پہلے کلیر شار ٹ برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بنتی تھیں۔ 44 سالہ شبانہ محمود موجودہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے لار ڈ چانسلر اور وزیر انصاف کے منصب پر بھی فائز رہی ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے انہیں یہودی لابی کی طرف سے کئی سیاسی مراحل پر مخالفت کا بھی سامنا رہا۔ شبانہ محمود ایک کامیاب اور قابل سیاستدان ہیں، ایک باوقار قانون دان اور ایک شاندار شخصیت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے دورِ وزرات میں لیبر پارٹی کی امیگریشن پالیسی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
٭٭٭
https://akhbar-e-jehan.com/detail/61032/immigration-policy-and-shabana-mahmood