Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

خواجہ آصف دھوکہ کھاگئے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف) ستمبر کا مہینہ دو اعتبار سے میرے لئے بڑی اہمیت رکھتاہے، ایک تو اس مہینے کے آغاز میں یعنی 6 ستمبر کو پاکستان کا یوم دفاع منایا جاتا ہے دوسرا یہی تاریخ میری پیدائش کا دن بھی ہے۔اس سال ستمبر کا مہینہ اپنے پیچھے کئی یادگار حوالے چھوڑ کر رخصت ہوا۔ وہ مہینہ جس میں پاکستان کا یوم دفاع منایا جاتا ہے ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک برطانوی صحافی جو آج کل امریکہ میں مقیم ہے مہدی حسن کو ایک ایسا بے مثال انٹرویو دیا جس کی باز گشت تا دیر سنائی دیتی رہے گی۔ اس انٹرویو میں ہمارے وزیر دفاع نے نہ صرف اپنا اورپاک فوج کا دفاع کیا بلکہ انٹرویو لینے والے کو بھی اپنے ”دفاع“ پر مجبور کر دیا۔ خواجہ آصف نے اس نام نہاد صحافی کے گھسے پٹے سوالوں کے ایسے شاندار جوابات دیئے کہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ وزیر دفاع ہو تو ایسا جو ملک و قوم اور پاکستان کی حقیقی جمہوریت کے دفاع میں ایسے دلائل دے کہ سننے اوردیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ صرف یہی نہیں کہ ہمارے سیالکوٹی وزیر نے ہر سوال کا ٹو دی پوائنٹ اور ٹھیک ٹھیک جواب دیا بلکہ اُن کی انگریزی سن کر اس بات کا بھی خیال آتا رہا کہ جرمنی، فرانس یا کسی اور ملک کے سربراہان یا وزیر کس قدر بے وقوف ہیں کہ ہر عالمی فورم پر اظہار خیال کرتے وقت یا کسی انگریزی بولنے والے صحافی کو انٹریودیتے ہوئے اپنی قومی زبان میں ہی بات کیوں کرتے ہیں چاہے اس کیلئے انہیں کسی ترجمان کی ہی ضرورت کیوں نہ پیش آئے۔ ہمارے وزیر دفاع بھی اگر اردو میں بات چیت کرتے تو شاید ان کے مداح اور مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز اتنی مدت بعد عمدہ انگریزی سننے سے محروم رہ جاتے۔ مہدی حسن کو دیئے جانے والے انٹر ویو میں خواجہ آصف کا اعتماد دیدنی تھا انہوں نے اپنی حکومت کی ایسے بھر پور انداز سے وکالت کی کہ اس کے بعد وہ فیلڈ مارشل اور منتخب وزیراعظم کی طرف سے شاباش اور تھپکی کے مستحق قرار دیئے جانے چاہئیں۔ برطانوی صحافی کو ہمارے وزیر دفاع سے انٹرویو کا وقت طے کر نے سے پہلے بالکل بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ خواجہ آصف انہیں اس طرح لاجواب کر دیں گے۔ وزیر موصوف نے مہدی حسن کوبھی اسی طرح لتاڑ کے رکھ دیا جس طرح وہ پاکستان کے صحافیوں یا سیالکوٹ کے اخبار نویسوں اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کو لتاڑتے رہے ہیں۔ مہدی حسن کوبھی پہلی بار اس حقیقت کا تجربہ ہوا ہوگا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے کیسے آتا ہے۔ وہ اب تک اپنے مہمانوں سے انٹرویو میں اپنی مرضی کے جوابات لینے کے عادی تھے۔ خواجہ آصف نے انہیں اپنی مرضی کے جوابات سے ایسے آڑے ہا تھوں لیا کہ صحافی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ حواس باختہ ہو کر رہ گیا۔یہ صحافی مہدی حسن کون ہے؟ 46 سالہ مہدی حسن برطانیہ کے شہر سونڈن میں پیدا ہو،ا اس کے والدین کا تعلق ساؤتھ انڈیا (حیدر آباد) سے ہے،اس کی والدہ ڈاکٹر اور والد انجینئر ہیں۔ مہدی رضا حسن آکسفورڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے اس نے برطانیہ کے بڑے بڑے ٹی وی چینلز کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کیا اور پھر امریکہ جا کر ایم ایس این بی سی سے وابستہ ہوا۔بعد ازاں اس نے اپنی میڈیا کمپنی بنائی اور اب اس کا شمار سوشل میڈیا پر ایک بے باک اور مقبول ترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ خواجہ آصف سے پہلے انگریزی میڈیا کوبہترین انٹرویو دینے کا ریکارڈ حسن نواز اور اسحاق ڈار کے پاس تھا۔ دسمبر 2020 میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے بی بی سی کے پروگرام ہار ڈٹاک میں سٹیفن سکر (Stephen Sackur)کو انٹرویو دیا تھا۔معلوم نہیں یہ انٹرویو بی بی سی کے اصرار پرکیا گیا تھا یا اسحاق ڈار از خودیہ انٹرویو دینے کے خواہش مند تھے۔ اس بات چیت میں ہمارے سابق وزیر خزانہ نے جس اعلیٰ معیارکی انگریزبولی اورجس انداز سے اپنی موقف کا دفاع کیا اس کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ یہ انٹرویو آج بھی مذکورہ نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پر موجود ہے جس کسی کو یہ دیکھناہو کہ ہمارا کوئی پاکستانی سیاستدان کس طرح ایک انگریز صحافی یا اینکر پرسن کو لتاڑ سکتا ہے، اُسے یہ انٹرویو تجزیاتی نقطہئ نظر سے ضرور دیکھنا چاہئے۔شاید اسی شاندار انٹرویو کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اسحاق ڈار کو ترقی دے کر نائب وزیر اعظم بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نوازنے  2016 میں بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں ہی ایک انٹرویو کے دوران اپنی منی لانڈرنگ کے حوالے سے انگریزی میں جو گفتگو کی تھی وہ بھی دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پروگرام میں خواجہ آصف کی طرح حسن نواز نے بھی انٹرویو لینے والے کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی تھی۔ ٹم سباسچیئن جیسا نامور صحافی بھی حسن نواز کی جرأت اظہار اور کھرے کھرے جوابات سن کر لاجواب ہو گیا تھا۔ خواجہ آصف ہوں، اسحاق ڈار ہوں، مریم نواز ہوں، شہباز شریف ہوں یا مسلم لیگ(ن) کا کوئی اور رہنما، یہ سیاستدان جب بھی کسی صحافی اور خاص طور پر امریکی یا برطانوی صحافی کو انٹرویو دیتے ہیں تو پوری تیاری اور اپنا ہوم ورک کر کے کیمرے کے سامنے آتے ہیں جس کا اندازہ دیکھنے اور سننے والوں کو بات چیت کے آغاز سے ہی ہو نے لگتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے تمام بڑے رہنماؤں کی انگریزی زبان پر گرفت اتنی مستحکم ہے کہ وہ اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانے کے لئے امریکی اور برطانوی صحافیوں اور اینکرز کو انٹرویودینا زیادہ پسند کرتے ہیں، اردو میڈیا کو منہ لگانا ویسے ہی وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ انٹرنیشنل اور انگلش میڈیا پر ہمارے ان لیڈرز کی جو”عزت افزائی“ ہوتی ہے اردو میڈیا ان سیاستدانوں سے ایسے سلوک اور عزت افزائی کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ جب جرمن چانسلر، فرانسیسی صدر یا سکینڈے نیویا ممالک کا کوئی سربراہ مملکت لندن آتا ہے تو وہ اپنے کسی انٹرویو، خطاب یا مذاکرات میں انگریزی کی بجائے اپنی قومی زبان بولنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے چاہے اسے اپنی بات چیت کے ابلاغ کے لئے ترجمان کی ہی سہولت کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ غلط انگریزی بولنے کی بجائے اپنی قومی زبان میں اپنا نقطہ نظر اور موقف بیان کرنے میں زیادہ آسانی اور سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رہنماا نگریزی زبان کے معاملے میں کسی قسم کے نفسیاتی مسئلے یا احساس کمتری میں بھی مبتلا نہیں ہوتے۔

برطانوی دارالحکومت لندن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے لئے ایک طویل مدت سے توجہ کا مرکز ہے جس کی ایک بڑی وجہ نواز شریف فیملی کی لندن میں موجودگی ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب میاں برادران جلا وطن تھے تو وطن واپسی سے پہلے انہوں نے میثاق جمہوریت کے معاملات بھی لندن میں ہی طے کئے، ان کے دونوں بیٹے اور انکی اولاد یں بھی اسی شہر میں موجود ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف اپنے علاج معالجے کے لئے لندن کو ہی ترجیح دیتے ہیں، مریم نواز نے اپنے بیٹے کی شادی کے لئے بھی اسی شہر کا انتخاب کیا،شاپنگ/ خریداری کے لئے بھی یہی ان کا پسندیدہ شہر ہے، نواز شریف خاندان کی قیمتی جائیدادیں،کا روبار اور سرمایہ کاری بھی لندن میں ہی ہے۔ پاکستان میں جب بھی سیاسی حالات بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں میاں نواز شریف لندن کو اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اس لئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی لندن یا ترا ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ نواز شریف کی لندن آمد پر ان کی قیام گاہ کے باہرپی ٹی آٹی کے احتجاجی کارکنوں کا تانتا بندھ جاتا تھا مگر اب یہاں مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز بھی بڑی تعداد میں جمع ہو کر میاں فیملی کو کسی نا خوشگوار رد عمل سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔

امریکی صحافی مہدی حسن کو دیئے جانے والے خواجہ آصف کے انٹر ویو کے بعد لندن میں مسلم  لیگ (ن) کے سپورٹرز بھی بہت خوش ہیں کہ اُن کے وزیر دفاع نے جس انداز سے ملک کے عدالتی نظام، اپنی حکومت، پاکستان کے سیاسی حالات، پی ٹی آئی کے خلاف کاروائیوں، فوج کی بالا دستی اور اپنے اختیارات کے بارے میں کھل کر بات کی اس پر پاکستانی تارکین وطن کے بہت خوش اور سرشار ہیں۔ خواجہ آصف نے جس مقصد کے لئے یہ انٹرویو دیا تھا وہ مقصد بخوبی پورا ہو گیا یعنی نہ صرف ہمارے وزیر خارجہ کی انگریزی زبان پر دسترس ثابت ہو گئی بلکہ پاکستان کی عزت اوروقار میں بھی اضافہ ہوا۔ خاص طور پر جب خواجہ صاحب سے پو چھا گیا کہ وزیر دفاع کے طور پر کیاوہ آرمی چیف سے زیادہ با اختیار ہیں تو انہوں نے یہ جواب دے کر اپنی سیاسی عاجزی کی انتہا کر دی کہ میں تو ایک سیاسی کارکن ہوں۔ خواجہ آصف کے اس انٹرویو کو لندن اور برطانیہ کے علاوہ دنیا بھر کے لاکھوں پاکستانی تارکین وطن دیکھ کر اُن کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کے معترف ہو چکے ہیں جبکہ انٹر نیشنل میڈیا کے بڑے بڑے نامور صحافی اور اینکرز خواجہ آصف سے رابطے کرکے انٹرویو کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ سیالکوٹ میں عالمی معیار کے سپورٹس کے سامان کے علاوہ بھی اور بہت کچھ بنتاہے۔ جس طرح خواجہ آصف کو انٹرویو دینے سے پہلے اندازہ نہیں تھا اور وہ نام سے دھوکہ کھاگئے کہ سارے مہدی حسن گانے والے نہیں ہوتے، کچھ بجانے والے بھی ہوتے ہیں

***********************۔

Loading