Daily Roshni News

لوھا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ہے۔۔۔ انتخاب  ۔۔۔ ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل

لوھا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ہے

انتخاب  ۔۔۔۔۔ ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ لوھا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ہے۔۔۔ انتخاب  ۔۔۔ ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)قرآن پاک کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ہے جس کا مطلب لوھا ہے۔ لوھے کے نام پر پوری سورة موجود ہے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ہے :–

🔹 ھم نے لوھا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں۔‘‘ سورۃ الحدید (25)

🔹وہ ھی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی یے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔ -سورۃ الحدید آیت (٤)

ایک بات قابل ذکر ہے کے قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورۃ الحدید کا نمبر 57 ہے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ہے۔ اور لوھا بھی اسی طرح زمین کے درمیان پایا جاتا ہے۔

اس آیت کو ایک یہودی سائنسدان “اعتمار ولنر“ جو یروشلم یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہے پڑھا اور غور کیا کے لوھے کو اتارنے کا کیا مقصد ہے، یعنی آسمان سے نازل کیا گیا اس نے ناسا کے ساتھ ملکر بہت سال اس پر تحقیق کی، اور پھر ایک نظریہ پیش کیا ، :–

لوھا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ھونے کے لیئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ہے جو ھمارے نظام شمسی کے اندر موجود ھی نہیں۔ لوھا صرف سوپر نووا (Supernova) کی صورت میں ھی بن سکتا ہے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب(Meteorite) کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ایسا ھوا۔

موجودہ تحقیق کے مطابق کائنات میں پائی جانے والی بھاری کثافتی دھاتیں بڑے ستاروں کے مرکز (Nucleus) میں پیدا ھوتی ہیں، تاھم ھمارے شمسی نظام کے اندر از خود لوھا پیدا کرنے کے لیئے موزوں ڈھانچہ موجود ھی نہیں ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ سورج سے بہت بڑے سائز کے ستاروں کے اندر ھی پیدا ھو سکتا ہے۔ چونکہ اسے ھمارے سورج کی حدت سے کہیں زیادہ درجہ حرارت مطلوب ھوتا ہے اس لیئے اس ڈھانچے کا ھمارے نظام شمسی میں تشکیل پانا ناممکن تھا۔

اگر ھمارے نظام شمسی سے باہر کی بات کریں تو جب بھی کسی ستارے جو کہ ھمارے سورج سے کئی سو گنا زیادہ گرم ہے۔ اُن میں بننے والے لوھے کی مقدار ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو وہ اسے زیادہ دیر نہیں سنبھالتا اور ایک بڑے دھماکے کے ساتھ ”نووا‘‘ (Nova) یا ”سپرنووا‘‘ (Super Nova) کی شکل میں خارج کرتا ہے جو ایک مخصوص قسم کے شہابیے (Meteorites) ھوتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلا میں پھیل جاتی ہے اور یہ اس وقت تک حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کسی اجرامِ فلکی (Celestial Body) کی قوت جاذبہ یا کشش ثقل انہیں اپنی طرف نہ کھینچ لے۔

سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا ہے۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب (Meteorites) اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

ناسا کی تحقیق کے مطابق جب ستارہ کی موت کی وجہ اس کے ماخذ میں کیمیائی تبدیلیوں اور بتدریج درجہ حرارت کی کمی کی وجہ سے، اس کے ماخذ میں کسی دھات کا عنصر بننا ہے اور آہستہ آہستہ یہ عنصر اس ستارہ پر پھیلتا چلا جاتا ہے جو ہزاروں یا لاکھوں سالوں پر محیط ھوتا ہے،

آخر میں جب وہ ستارہ مکمل اس دھات میں تبدیل ھو جاتا ہے تو پھٹ جاتا ہے جس کی طاقت شائد کئی لاکھ ایٹم بموں کے برابر ھوتی ہے (سپر نوا)  اور اس کے ذرے پتھر یا چٹانیں پورے خلاء میں بکھر جاتے ہیں، جو پتھر زمین کی طرف آتے ہیں دھنس جاتے ہیں یا سمندر میں گر جاتے ہیں، اس ھی طرح آج سے 3300 سال قبل وفات پانے والے طوطن خامن جو کہ ایک مشہور فرعون کے نام سے جانا جاتا تھا، یہ موضوع بھی کسی حد تک اس کے ایک خنجر سے بھی جڑا ھوا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ مصر کے معروف فرعون طوطن خامن کو وفات کے بعد قدیم شاھی رواج کے مطابق ممی بنا دیا گیا تھا۔

رسم کے مطابق شاھی استعمال میں رہنے والی کچھ چیزیں بھی ساتھ دفن کردی جاتی تھیں جن میں سے قابل ذکر کچھ ہتھیار تھے اور ان کے ساتھ دفن کیئے جانے والا خنجر تحقیقات کے مطابق ایک شہابیے سے حاصل ھونے والے لوھے سے بنایا گیا تھا۔ یہ ہتھیار ان دو خنجروں میں سے ایک ہے جنہیں سنہ 1925 میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر نے دریافت کیا تھا۔

اور یہ بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ اس خنجر کو زنگ نہ لگنے والے پھل نے تمام محققین کو چکرا کر رکھ دیا کیونکہ اس قسم کی دھات کی قدیم مصر میں موجودگی کوئی معمولی سی بات ہرگز نہیں تھی۔ میٹیوریٹکس اینڈ پلانیٹری سائنس جریدے میں شائع ھونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مصر اور اٹلی کے محققین نے اس خنجر کے لوھے کی بناوٹ کی تصدیق کرنے کے لیئے بیرونی ایکس رے کی تکنیک کو استعمال کیا اور اس تحقیق کی مرکزی کردار مصنف ڈینیئلا کومیلی کا کہنا ہے کہ ’شہابی لوھے میں واضح طور پر بڑے پیمانے پر ایک دھاتی عنصر جست موجود بھی ہے‘‘۔

یہ تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ ’لوھے کے ساتھ جست اور کوبالٹ کی موجودگی سے معلوم ھوتا ہے کہ اس کی ابتداء زمین سے باہر کہیں ھوئی۔ اب کسی حد تک اس دھات کا موازنہ اس شہابیے سے کیا جا رہا ہے جو مصری بحیرہ احمر والے ساحل پر دو ہزار کلومیٹر کے دائرے میں کبھی گرا تھا اور خصوصاً ایک اور شہابیہ جو اسکندریہ سے 240 کلومیٹر دور مغرب میں پایا گیا تھا۔ اس میں بھی اسی مقدار میں جست اور کوبالٹ موجود تھا اور اگر آپ اس شائع ھونے والی تحقیق کا مطالعہ کریں تو آپ یقیناً حیران ھوں گے کہ قدیم مصری 13 سو قبل مسیح ھی سے جانتے تھے کہ لوھے کے یہ ٹکڑے آسمان سے گرے ہیں جبکہ یہ بات مغرب کو دو ہزار سال بعد  معلوم ھوئی.

نوٹ:– ( یہ تمام تحقیقات یا مختلف ریسرچ کی معلومات قلمکار نے اپنی حد تک یکجا کرنے کی کوشش ضرور کی ہے تاھم ھو سکتا ہے کہ کسی جگہ یا کسی نقطے پر آپکا کسی نقطے پر متفق ھونا ضروری بھی نہیں)

🕳️🔥⛓️‍💥

(Copied)

Loading