Daily Roshni News

لوہا اور پیاز۔۔۔تحریر۔۔۔حسن زمان

لوہا اور پیاز

تحریر۔۔۔حسن زمان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لوہا اور پیاز۔۔۔تحریر۔۔۔حسن زمان)خلیفہ ہارون رشید عباسی دور کے پانچویں خلیفہ تھے۔ ان کے عہد میں بغداد میں علمی اعتبار سے بہت ترقی ہوئی۔ اس دور میں مسلمان علمی میدان میں بہت آگے نکل گئے ۔ خلیفہ ہارون ان کے بیٹے مامون الرشید نے عظیم الشان لائبریری ” بیت الحکما بنائی جو اپنی مثال آپ تھی۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے 1258ء میں بغداد پر حملہ کیا تو اس لائبریری کو تباہ کر دیا گیا۔ بیت الحکما میں ہزاروں کتابیں تھیں۔ پیارے بچو! کسی قوم کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس کے پاس علم کی دولت ہو لیکن وہ غور و فکر نہ کرے اور علم سے لا پروائی برتے ۔ خلیفہ ہارون کی بیگم کا نام ملکہ زبیدہ تھا۔ انہوں نے حاجیوں کی آسانی کے لئے مکہ سے بغداد تک طویل نہر کھدوائی جو نہر زبیدہ کے نام سے مشہور ہے۔ انجینیروں نے بتایا کہ نہر پر بہت خرچہ آئے گا لیکن ملکہ زبیدہ نے پروانہیں کی اور کہا، نہر کی تعمیر کے لئے اگر کدال کی ایک ضرب پر ایک دینار دیناپڑے تو میں پیچھے نہیں ہٹوں گی ۔ ملکہ کے عزم کی وجہ سے نہر کی تعمیر مکمل ہوئی اس زمانہ میں ایک مجذوب بزرگ بہلول دانا کے نام سے مشہور تھے۔ لوگوں سے بے نیاز ہمیشہ حق بات کہتے تھے۔ لوگوں کو ان کی باتیں سمجھ میں نہ آتیں تو کہتے کہ بہلول مجنوں ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود ہر طبقہ کے لوگ حضرت بہلول دانا سے مشورہ لینے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ملکہ زبیدہ اور خلیفہ ہارون رشید دریا کنارے سیر کر رہے تھے ۔ حضرت بہلول دانا بھی وہاں موجود تھے اور ریت سے گھر بنارہے تھے ۔ ملکہ زبیدہ ان سے واقف تھیں ۔

پوچھا، بابا بہلول! کیا بنارہے ہو؟ حضرت بہلول دانا نے فرمایا: میں جنت میں گھربنا رہا ہوں۔

 یہ سن کر ملکہ نے پوچھا: کیا یہ گھر بیچو گے؟ حضرت بہلول دانا نے فرمایا: ہاں بیچوں گا۔ پوچھا: ایک گھر کی کیا قیمت ہے؟

جواب دیا: گھر کی قیمت ایک دینار ہے۔ ہارون رشید نے ملکہ زبیدہ کا مذاق اڑایا کہ جنت میں گھر خرید رہی ہو ، وہ بھی ایک فقیر سے اور ایک دینار میں ۔ ملکہ نے خلیفہ کی بات نظر انداز کر دی اور حضرت بہلول کو ایک دینار دے کر واپس ہوئیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے خواب دیکھا … جنت میں انتہائی خوب صورت محل ہے جس پر زبیدہ خاتون کا نام لکھا ہوا ہے ۔ اپنی ملکہ کا نام دیکھ کر محل میں داخل ہونا چاہا مگر در بانوں نے روک دیا کہ زبیدہ خاتون کی اجازت کے بغیر محل میں داخلہ منع ہے۔“ خلیفہ ہارون الرشید کی آنکھ کھل گئی ۔ اگلے روز دریا کنارے گئے ۔ حضرت بہلول کل کی طرح آج بھی ریت سے گھر بنارہے تھے۔ خلیفہ نے پوچھا، کیا کر رہے ہو؟ فرمایا ، جنت میں گھر بنا رہا ہوں۔ پوچھا، کیا اسے فروخت کرو گے؟ فرمایا ، ہاں فروخت کروں گا۔ پوچھا، کتنے میں؟

فرمایا ، دس دینار میں ۔ خلیفہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا، مگر کل تو ایک دینار کا بچا تھا۔ آج دس دینار میں کیوں؟ حضرت بہلول دانا نے فرمایا، کل کے خریدار نے دیکھے بغیر سودا کیا۔ آج کا خریدار دیکھ کر آیا ہے۔

روایت ہے کہ ایک بار حضرت بہلول دانا محل کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ دروازہ پر پہرہ دار ہے نہ کوئی محافظ وہ اندر چلے گئے ۔ خلیفہ کا تخت خالی تھا، اس پر بیٹھ گئے۔ ملازموں نے تخت پر بیٹھے دیکھا تو غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ بہلول دانا ناراض ہوئے۔ خلیفہ ہارون رشید دربار میں آئے اور منظر دیکھا تو سخت لہجہ میں پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ خادموں نے تفصیل بتائی ۔خلیفہ نے سب کو ڈ انشا اور حضرت بہلول کو منانے لگے۔ حضرت بہلول دانا نے فرمایا ، میں اس بات پر ناراض نہیں کہ تمہارے لوگوں نے میرے ساتھ گستاخی کی ، میں تو اس بات پر افسوس کر رہا ہوں کہ تھوڑی دیر خلافت کے تخت پر بیٹھنے سے میرا یہ حشرہوا۔ تم جو اس پر پوری زندگی بیٹھو گے تمہارے

ساتھ کیا ہوگا! کیا تمہیں احساس ہے؟

خلیفہ گہری سوچ میں گم ہو گیا۔

حضرت بہلولؒ دانا کے پاس تاجر آیا اور عرض کیا، شیخ بہلول! نصیحت کیجئے کہ مجھے کیا خریدنا چاہئے جس سے زیادہ منافع ملے۔

 انہوں نے کہا، لوہا اور روئی۔

 تاجر نے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بڑی مقدار میں لوہا اور روئی خرید کر ذخیرہ کرلی ۔ کچھ مہینہ کے بعد کاروبار میں بہت منافع ہوا۔ پیسہ آیا تو تاجر ایک مرتبہ پھر حضرت بہلول کے پاس آیا اور اس بار کہا، او مجنوں بہلول! مجھے کیا خریدنا چاہئے جس سے زیادہ منافع ملے؟ بچو! غور سے پڑھئے۔ پہلی بار تاجر نے ادب سے شیخ بہلول کہا۔ دوسری بار گستاخی کی ) حضرت بہلول دانا ؒنے فرمایا، پیاز اور تربوز ! تاجر لالچی تھا۔ دولت کے نشہ میں خوب پیسہ لگایا اور پیاز اور تربوز ذخیرہ کر لئے ۔ چند دنوں میں مال سڑنا شروع ہوا اور بد بو آنے لگی۔ پریشان ہو گیا۔

فوراً حضرت بہلول دانا کے پاس آیا اور کہا،

پہلی بار آپ نے مجھے روئی اور لوہا خریدنے کا مشورہ دیا تھا جس سے فائدہ ہوا اور میں دولت مند ہو گیا ۔ دوسری بار آپ نے مجھے کس قسم کا مشورہ دیا کہ مجھے نقصان ہو گیا۔ حضرت بہلول دانا نے فرمایا ، پہلی دفعہ تم نے مجھے احترام سے شیخ کہہ کر پکارا تھا۔ چوں کہ تم نے بحیثیت عالم مخاطب کیا تھا ، اس لئے میں نے اپنے علم کے مطابق تمہیں مشورہ دیا۔ دوسری بار تم نے مجھے ”او مجنوں بہلول“ کہہ کر پکارا اس لئے مشورہ بھی اسی مناسبت سے دیا۔ تاجر بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگی۔ عزیز بچو! اس کہانی میں کئی کہانیاں ہیں۔ بتائیے آپ نے ان کہانیوں سے کیا سبق سیکھا؟

بشکریہ قلند ر شعورستمبر 2019

Loading