لڑکی کی شادی
ایک اہم اور معاشرتی مسئلہ
تحریر۔۔۔سارہ اسد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ لڑکی کی شادی ایک اہم اور معاشرتی مسئلہ۔۔۔ تحریر۔۔۔سارہ اسد)شادی ایک دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی شادیاں بر وقت ہو جائیں۔ خاص کر لڑکیوں کے سلسلے میں یہ معاملہ بہت نازک اور مشکل ہوتا ہے۔ بڑے شہروں ، قصبات یا دیہی علاقے آج ہر دوسرے تیرے گھر میں والدین اپنی پیٹیوں کے لیے اچھے رشتوں کے انکار میں نظر آتے ہیں۔ اچھے رشتوں کے انتظار میں کئی لڑکیوں کے سروں پر چاندی کی تہہ
جاتی ہیں لیکن پھر بھی وہ اس امید پر ہوتی 1 ہیں کہ شاید خدا نے ان کے نصیب میں خوشیاں لکھی ہیں۔ کچھ تو ایسی بھی ہوتی ہیں جو کہ تمام امیدیں کھو چکی ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو یہ تسلی دے چکی ہوتی ہے کہ زندگی کا یہ مغر اب انہیں تنہا ہی ملے کرنا ہے۔ وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد غیر شادی شدہ ہے….؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی اقدار میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ آج سے تیس چالیس سال قبل لڑکیوں کی شادی کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا یہ کام خاندان کے بڑے بزرگ ہی کرتے تھے کیونکہ انہیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے بچوں کے اہم فیصلے خود کر سکیں۔ لیکن اب لڑکے لڑکیاں یا تو خود اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں یا پھر اپنی اپنی خواہشات اور پسند کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جیسے جیسے مشترکہ خاندانی نظام کا خاتمہ ہو رہا ہے لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگتے جارہے ہیں۔
ایک دوسرے کے لیے محبتیں بھی ختم ہو جاتی رہی ہیں۔ پہلے پورا خاندان ایک ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ بچوں کی تربیت مشرقی اقدار کے مطابق ہوتی تھی، اب رشتے تو وہی ہیں لیکن لوگوں کے رویے اور اقدار میں تبدیلی آگئی ہے۔ اکثر لوگ اپنے مفادات سے وابستہ تیں، وہ مشتر کہ خاندانی نظام چھوڑ کر فلیٹوں اور چھوٹے مکانات میں آگئے ہیں چنانچہ رشتہ کروانے کا کام جو بڑے بزرگ اور رشتہ کروانے والی خالہ کرتی تھیں۔ ان کی جگہ اب میرج بیع روز نے لے لی ہے جو کہ پیسے کے عوض لڑکیوں کے رشتے کرواتے ہیں گویا لڑکیوں کی شادی جو کہ ایک دینی و معاشرتی فریضہ تھا اب کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لوگ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پہلے سلیقہ مند لڑکیوں کا انتخاب کیا جاتا تھا، اب کم عمر خوب صورت اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو پسند کیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے کی ایک وجہ ہمیں یہ بھی نظر آتی ہے کہ اب لوگ خوب سیرت لڑکیوںکے بجائے خوبصورت اور کم عمر لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس تلاش میں کئی مائیں اور لڑکے کی بہنیں لڑکیوں کے احساسات اور جذبات کی پرواہ کیے بغیر ایک کے بعد ایک لڑکی کو ریجیکٹ (Reject) کرتی رہتی ہیں، جس کی اجازت نہ ہو تو ہمارے مذہب نے دی ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر ہی ایسا کرنا مناسب ہے۔ موجودہ دور میں کئی لڑکیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اس طرح تعلیم حاصل کرتے کرتے ہر لڑکی بائیس سال سے پچیس سال کی ہو جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کے رشتوں کو یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے۔ یوں لڑکیوں کی تعلیم بھی ان کے رشتوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی کسی بھی گھرانے کا روشن مستقبل ہوتی ہے اور ایک پڑھا لکھا خاندان بنانے میں مدد گار ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو یہی خواہشات رہیں تو شاید ہمارے معاشرے میں بھی پڑھی لکھی خواتین کی قلت ہو جائے گی اور کئی والدین اپنی لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مہنگائی کے اس دور میں جہاں غریب طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی بھاری پڑتی ہے وہاں لڑکی کی شادی کرنا آسان کام نہیں۔ ہمارے ملک میں نام و وحمود اور ظاہری نمائش کے خاطر یہ خوشی کی تقریب متوسط طبقے کے لیے مشکلات کا سبب بن کر رہ گئی ہے۔
جہیز کی لعنت بھی لڑکیوں کی شادی میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ فرسودہ رسومات نے شادی کو رحمت کے بجائے زحمت بنادیا ہے۔ جہیز کے ناسور نے ہمارے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا ہے۔ کئی لڑکے والے چاہتے ہیں کہ لڑکی والوں سے اتنا جہیز لے لیا جائے کہ ان کا گھر بھر جائے۔ ایسے گھرانوں سے با قاعدہ جہیز کی فہرست بنا کر لڑکی والوں کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے جس میں کار، زیورات، بینک بیلنس، فرنیچر، برتن، کپڑے، الیکٹرونکس کا سامان اور دنیا ہاں کی چیزوں کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ آج ہم اپنے نبی صلی الم کی سنتوں کو بھول کر مادہ پرستی کی طرف چلے گئے ہیں۔ ہم سنت رسول اللہ صلی الیکم کو بھول کر لڑکی کے خاندان اور شرافت کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی کتنا جہیز لائے گی؟ اس کا اسٹیٹس کیا ہے؟ اس کے پاس کتا بینک بیلنس ہے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط اور غریب طبقے کی بہت سی لڑکیاں جہیز کی وجہ ے سالوں انتظار کرتی ہیں خواہ وہ کتنی ہی خوب صورت اور خوب سیرت کیوں نہ ہوں۔ اس حوالے سے ایک خاتون خانہ کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی لاکھوں کا کاروبار بن گئی ہے۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس زمانے کے بے پناہ مطالبات کے باوجود ایک غریب شخص اپنی سفید پوشی کو چھپانے کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کام میں پیسہ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ لڑکے والے بنا جہیز لڑکی قبول نہیں کرتے اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو جہیز نہ دے سکے تو وہ یا تو اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہے یا پھر سسرال والوں کے طعنے سن کر نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی مرتبہ جہیز پر پابندی عائد کی گئی ہے اور سرکاری سطح پر بھی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن ان پابندیوں کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی سوچ و فکر میں مثبت تبد یلی لانے کی کوشش کریں تاکہ ہمارا معاشرہ لڑکیوں کے رشتے کو نفع و نقصان کی کسوٹی پر پر کھنے کے بجائے ان کے خاندانی بیک گراؤنڈ اور تعلیم و تربیت کو نظر میں رکھے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2015