پیدائش:14مارچ 1882ء
لکھنؤ، ہندستان
وفات:30جولائی 1935ء
لکھنؤ، ہندستان
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) عزیزلکھنوی اپنے عہد میں اردو فارسی کے چند بڑے عالموں میں تصور کیے جاتے تھے ۔ ان کا نام مرزا محمد ہادی تھا ، 14 مارچ 1882 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے اسلاف شیراز سے ہندستان آئے تھے ، پہلے کشمیر میں سکونت اختیار کی بعد میں شاہان اودھ کے دور حکومت میں لکھنؤ منتقل ہوگئے ۔ عزیز کا خاندان علم وفضل کیلئے مشہور تھا ۔ عزیزنے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ سات برس کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا لیکن تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ۔ امین آباد ہائی اسکول میں اردو و فارسی پڑھائی بعد میں وہ علی محمد خاں مہاراجہ محمودآباد کے بچوں کے اتالیق مامور ہوئے اور ساری زندگی اسی سے وابستہ رہے ۔
عزیز نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ غزل کے علاوہ نظم اور قصیدہ ان کے تخلیقی اظہار کی اہم صورتیں ہیں ۔ قصیدے میں وہ ایک امتیازی حثیت کے مالک ہیں ۔ شکوہ الفاظ ، علوتخیل ان کے قصائد کی خصوصیات ہیں ۔ شاعری میں صفی لکھنوی سے شاگردی کا شرف حاصل رہا ۔
عزیز لکھنوی کا یہ شعر اتنا مشہور ہوا کہ ایک طرح سے یہ ان کی پہچان بن گیا۔
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
۔۔۔۔۔
کی قصیدہ نگاری
۔۔۔۔۔
حسن رضا کمیلی
۔۔۔۔۔
عزیز لکھنوی کا اردو شعر و ادب میں ایک اہم مقام ہے۔ آج کی اردو نسل انھیں حافظے میں محض جوش ملیح آبادی کے استاد کے طور پر جگہ دیتی ہے۔
مرزا محمد ہادی ان کا نام اور عزیز تخلص تھا۔ 5 ربیع الاوّل 1300 ھ مطابق 1882 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی ہے جو اپنے زمانے میں فضل و کمال کے اعتبار سے ایک مرتبہ رکھتے تھے۔ خاندان میں علمی مذاق کئی پشتوں سے ثابت ہے چنانچہ عزیز نے بھی اس سنت خاندانی کو قائم رکھا اور پھر متعدد استادوں سے جن میں مولوی محمدحسین، پیارے مرزا، شمس العلما مولوی عبدالحمید وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، تحصیل علم کی۔ ان بزرگوں سے صرف و نحو، فقہ و اصول، ادبیات، کتب معقول اور درسیات فارسی پڑھی اس لیے شاعری کے ساتھ ساتھ علمی فضل و کمال کے جوہر بھی رکھتے تھے۔
عزیز کو لکھنؤ کے قدیم رنگ تغزل کی آخری یادگار قرار دیا گیا ہے۔ وہ میر و غالب کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اپنا خاص رنگ ہر جگہ نمایاں رہتا ہے۔ ان کی زبان لکھنؤ کی اصلاح شدہ مستند ٹکسالی زبان ہے۔ عزیز کے یہاں غالب اور میر کی ہم رنگی پر ابواللیث 1 صدیقی نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ موصوف کے مطابق عزیز کے قصیدوں میں سودا اور ذوق کا سا زور اور طنطنہ موجود ہے لیکن ان کی زبان ان دونوں سے زیادہ صاف اور رواں ہے۔ عزیز کی قادرالکلامی یہ ہے کہ انھوں نے رنگ تغزل کو جو حقیقتاً قصیدے کا نقص ہے قصیدے کی خوبی بنا کر حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
عزیز کے قصیدوں کی تشبیب سے متعلق ابواللیث صدیقی نے بہت مختصر اور جامع انداز میں اظہار خیال کیا ہے:
’’عزیز کی تشبیبیں عموماً تین انداز رکھتی ہیں۔ (1)تو بہاریہ ہیں (2) یا تغزل کا رنگ ہے (3) یا مکالمہ یا اپنے علم و فضل کا اظہار ہے۔2
’صحیفۂ ولا‘ عزیز کے قصیدوں کا مجموعہ ہے جس میں پچاس سے زیادہ قصیدے ہیں۔ لیکن علی جواد زیدی3 کے مطابق مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے قصیدوں اور دوسرے غیرمطبوعہ قصیدوں کو ملا کر عزیز نے تقریباً پچہتر قصیدے کہے ہیں۔ انھوں نے اپنی زبان کو درباری مدح سے آلودہ نہیں کیا اور صرف ائمہ طاہرین کی مدح سرائی کی ہے۔
عزیز کے قصائد کی دنیا وسیع اور دلکش ہے۔ وہ عموماً رواں بحروں کو منتخب کرتے ہیں اور سنگلاخ زمینوں میں ان کے چند ہی قصائد ہیں۔ گریز و مدح سے زیادہ ان کا زور تشبیبوں پر ہوتا ہے جن میں علمی اصطلاحات اور تلمیحات کا وسیع خزانہ ہے ۔ ان کی تشبیبوں میں حسن و عشق، رندی و مستی، مناظر فطرت، درس اخلاق وغیرہ مضامین بکثرت موجود ہیں۔
جن قصیدوں کی تشبیب میں عزیز نے گلشن و بہار کے مرقعے پیش کیے ہیں ان میں سادگی و سلاست ہونے کے باوجود کہیں کہیں فارسی کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ خصوصاً ’قوت نامیہ‘ کی کرشمہ سازیوں میں خاصا مبالغہ ہے۔ عزیز نے ’قصیدہ غزل طور‘ کے نظریے کو بڑی چابک دستی سے برتا ہے ۔ قصیدۂ معراجیہ کی تشبیب میں ذرا اس رنگ کی گلکاریاں دیکھیے:
توڑی اثر نالہ نے جب مہرِ لب ضبط
کس شوق سے کھلنے لگا طومار شکایات
کام آہی گیا گریۂ بیتابیِ فرقت
اک عمر سے نکلے ہی نہ تھے دل کے بخارات
اللہ رے وہ بے خودی شوق کا عالم
کوشش تھی کہ ہوجائے کہیں تم سے ملاقات
مذکورہ اشعار میں تغزل کی شیرینی میر حسن کے قصیدوں کی تشبیب کی یاد دلاتی ہے۔ اگر اس طرح کے اشعار کو سامنے رکھا جائے تو بآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ میر حسن اور میر تقی میر کی طرح عزیز کے یہاں بھی خیال اور بیان کی چستی حاوی ہے۔ لیکن عزیز کے یہاں تشبیب کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ علو مضامین، خوشنما الفاظ اور جدید تراکیب سے سودا و ذوق کے ہم پلہ نظر آتے ہیں۔
اسی قصیدے میں غزلیہ اشعار کے بعد عاشق و معشوق میں سوال و جواب کا سلسلہ شرو ع ہوتا ہے۔ مکالمہ کے اس انداز نے دلچسپی اور جاذبیت میں اضافہ کیا ہے:
تجھ کو اثر جذبۂ عاشق کی قسم ہے
اب دے مرے ان چند سوالوں کے جوابات
کیا عشق کی تقدیر میں ہے ذلت و خواری
کیا شان نہیں ہے مری شایان مراعات
میں نے یہ کہا ہوگا ستم مجھ پہ کہاں تک
فرمایا کہ جب تک رہیں تجھ پر یہ عنایات
میں نے یہ کہا آئے ہو مقتل میں تہی دست
فرمایا کہ کافی ہیں مرے چند اشارات
میں نے کہا زندہ ہیں شہیدانِ محبت
فرمایا تجھے قتل کروں گا پئے اثبات
عزیز کی ان عاشقانہ تشبیبوں میں بہت معنویت اور گہرائی ہے۔ ان کی فکر رسا انھیں اس منزل تک لے جاتی ہے جہاں یہ راز افشا ہوجاتا ہے کہ حسن و عشق ایک ہی دریا کے گوہر ہیں اور ان میں ایک اتحاد معنوی پایا جاتا ہے:
غبار اس کا ابھی تک ڈھونڈتا پھرتا ہے لیلیٰ کو
الٰہی کیا تعلق تھا دل مجنوں کو لیلیٰ سے
وہ محوِ بے خودی تھے دیکھتے کچھ ہوش ہی کب تھا
عبث ہے پرسش انداز حسنِ یار موسیٰ سے
بہار آنے پہ جب کوئی کلی کھلتی ہے لالے کی
شکستِ قلب مجنوں کی صدا آتی ہے صحرا سے
جمال شاہد وحدت نے باندھی ہے ہوا ایسی
اڑا جاتا ہے دل بن بن کے ہر اک ذرہ صحرا سے
ہے حسن و عشق میں اک اتحاد معنوی باہم
برآمد دونوں یہ گوہر ہوئے ہیں ایک دریا سے
وہ اس عشق حقیقی کے متلاشی ہیں جو ہر عاشق کی قوت ارادی کا سرچشمہ ہے اور اسے ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ دیکھیے دعائیہ تشبیب کے یہ اشعار جو نظم طباطبائی کی زمین میں ہیں:
مجھے اس بحر عشقِ سرمدی کا ایک قطرہ دے
کہ جس نے انبیاء کے چشمۂ دل میں جگہ پائی
بوقت ذبح اسمٰعیل جس نے دلدہی کی تھی
خلیل اللہ کو دے دے کے تعلیم شکیبائی
یہی تھا باعث چاکِ قمیصِ حضرت یوسف
اِسی نے تھی گواہی پاک دامانی پہ دلوائی
بھلا یوں بے ستوں کیا تیشۂ فرہاد سے کٹتا
اسی نے بازوؤں میں کوہکن کے دی توانائی
مناظر فطرت کے بیان اور موسم کی کیفیات میں بھی ان کا اپنا رنگ نمایاں رہتا ہے۔ دیکھیے یہ بہاریہ تشبیب:
بہارِ برشگال آئی کہاں ہے ساقیِ مہ روٗ
جگا دے آج کی شب تو ذرا چلتا ہوا جادو
گھٹائیں ہر طرف امڈی ہوئی برسات کی راتیں
معاذ اللہ پھر اس پر دل اسیرِ حلقۂ گیسو
برستا ہے لگاتار آج پانی بھرگئے جل تھل
ستم ہے اب بھی پیمانہ ہمارا گر نہ ہو مملو
بہار آ آ کے جوش باطنی کو تیز کرتی ہے
مری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے ہیں متصل آنسو
نوید فصلِ گل سے ہوگئیں روحیں طرب آگیں
رگوں میں خونِ تازہ دوڑنے پھرنے لگا ہر سو
قصیدہ حسن و عشق در لغت کی تشبیب میں بہار کی منظرکشی ہے۔ سودا اور ذوق کی تقلید کی کامیاب کوشش ہے مگر اس پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے بھی عزیز نے اپنی انفرادیت کے نشان چھوڑے ہیں:
گھنے بال اس طرف سنبل نے کھولے بہر آرائش
گلابی مد بھری آنکھ اس طرف نرگس نے دکھلائی
نگار سبزہ نے مہد زمیں پر کروٹیں بدلیں
ادھر آغوش میں گلشن کے لی بیلوں نے انگڑائی
جماہی آئی پھولوں کو ادھر ذکر صراحی سے
ادھر غنچوں نے شاحوں پر ہر اک پور اپنی چٹکائی
نسیم عطر بیز گل نے کھولا باب مے خانہ
جہاں تک ہوسکا ساقی نے پی اور خوب پلوائی
سرور افزا چمن میں جم گھٹا ہے مہ جبینوں کا
کہیں معشوق تبریزی کہیں ترکان یغمائی
گرمی کی حدت و شدت کے بیان میں قصیدہ خورشید جہاں تاب کے یہ چند متفر ق اشعار دیکھیے۔کیا نقشہ کھینچا ہے۔ یہاں عزیز، انیس و دبیر کے مرثیوں کی منظرنگاری سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ آسمان و زمین تپ رہے ہیں اور عشاق کی حالت نہ پوچھیے باطن میں آتش عشق ہے اور خارج میں حدت آفتاب:
دیکھیے تو نفسِ گرم کی آتش خیزی
مثل شعلہ کے زباں کو ہے ذہن میں حرکت
جاتے ہیں آتشِ یاقوت کے شعلے تا چرخ
تفتگی سے یہ معاون کے ہوئی کیفیت
آتشِ عشق نے عشاق کو بس پھونک دیا
تھی ادھر حسن ادھر مہر مبیں کی حدت
درس اخلاق کو بہت سے شعرا نے تشبیب کا موضوع بنایا ہے۔ عزیز نے بھی اپنی تشبیبوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ’آئینہ عبرت‘ اور ’انقلاب ہستی‘ کی تشبیبوں میں دنیا کی بے ثباتی، اس کا جائے عبرت ہونا، سراب ہونا بیان کیا ہے اور فریب ہستی میں نہ آکر فکر آخرت کرنے اور عمل صالح بجا لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ کبھی وہ گور غریباں کا نقشہ کھینچ کر اہلِ ایمان کو دنیوی لذتوں سے احتراز کرنے کا درس دیتے ہیں۔ پند و نصیحت پر مبنی یہ اشعار انقلاب ہستی سے نقل کیے جارہے ہیں:
ہوشیار و باخبر اے سرخوش عہد شباب
تا کجا نظارۂ نیرنگیِ دارالخراب
کیا بساطِ خاک پر بستر نہ ہوگا ایک دن
میں نے مانا تو ہے زیر خیمۂ زریں طناب
تیری اس کی ایک منزل ایک بستر ہوگا کل
کیوں فقیروں سے ہے اے منعم تجھے آج اجتناب
خود پرستی سرکشی غفلت رعونت حرص و آز
نفس کو صحبت سے ان کی چاہیے ہے اجتناب
قصیدہ موسوم بہ شمع حرم میں انھوں نے مختلف مذاہب کے علما کا مناظرہ قلمبند کیا ہے۔ اس کی عالمانہ فضا عزیز کے علم و فضل کا بین ثبوت ہے:
روایت سے کوئی برہانِ ملّی پیش کرتا ہے
درایت سے کوئی لاتا ہے استدلال دعوے پر
وہ کہتا ہے خلا ممکن ہے کہیے کیوں محال اس کو
دکھاتا ہے یہ اک سربند شیشہ قطعِ حجت پر
وہ کہتا ہے نظام عہد فیثاغورس اعلیٰ ہے
ارسطو اور بطلیموس تو ناداں تھے سرتاسر
’برق تجلی‘ میں وہ ایک صوفی بزرگ معلوم ہوتے ہیں جو علم و عرفان میں یدطولیٰ رکھتا ہو:
الٰہیات کے پڑھنے سے اے غافل نتیجہ کیا
نہیں ہے دل ترا جب جلوہ گاہِ نورِ عرفانی
کتاب النفس افلاطون اگر پڑھ لی تو کیا حاصل
حقیقت نفس امّارہ کی جب اپنے نہ پہچانی
دم لغزش یدِ بیضائے دل سے لے مدد سالک
نہیں ہے دل ترا جب جلوہ گاہِ نورِ عرفانی
فنا فی العشق ہو جا جب کہیں یہ عقدہ حل ہوگا
ترا مافی الضمیر نفس ہے وہ راز پنہانی
لکھنویت کے اثرات:
لکھنویت کی اہم خصوصیت سراپا نگاری ہے۔ عزیز معشوق کا سراپا بیان کرتے ہوئے متعلقات محبوب کی تعریف بھی کرنے لگتے ہیں جو لکھنوی دبستان کا خاصہ ہے۔
غالب کی غزل کی زمین میں یہ اشعار اور بعض دیگر اشعار بھی دیکھیے۔ جن کی تشبیبوں میں لکھنویت کے آثار نمایاں ہیں:
دود پیما میں نے چند آہیں جو کی تھیں ہجر میں
وہ جواب گنبد گردونِ گرداں ہوگئیں
اُف جوانی میں کسی بدمست کی انگڑائیاں
باعث خمیازۂ چاک گریباں ہوگئیں
نہ سمجھو خال مشکیں اے حسینو اپنے عارض پر
دل شب آگیا ہے دیکھ کر انداز دلداری
ہزاروں دے دیے دشنام اپنے جذبۂ دل کو
رقیب رو سیہ کے گھراگر وہ ہوگیا مدعو
عزیز کے یہاں گریز میں برجستگی اور بے تکلفی ہے۔ گریزوں میں ربط اور حسین پیوندکاری ان کی فنکارانہ صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ زیادہ تر وہ تشبیب کے بعد ساقی نامے سے گریز کرتے ہیں۔ جب وہ حضرت رسول خدا اور حضرت علی کی مدح ایک ساتھ کرتے ہیں تو انھیں دوہری مدح کی خاطر دوہری گریزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مختصر گریز کی ایک مثال دیکھیے:
پکارتے ہیں خراباتیان مے خانہ
تجھی کو یا اسداللہ حیدر کرار
ان کے قصیدوں میں مدح کے بھی اچھے نمونے ملتے ہیں۔ بے جا مبالغہ آرائی سے وہ دامن بچاتے ہیں۔ اکثر صاف ستھری زبان میں سادگی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں۔ البتہ بعض جگہوں میں عربی و فارسی کے ادق الفاظ و اصطلاحات کی بھرمار ملتی ہے۔
قصیدہ فتح الباب در تہنیت فتح خیبر میں مدح کا انداز دیکھیے:
شعلہ ہوئیں دیواریں خیبر سے دھواں اٹھا
بجلی جو ادھر چمکی شمشیر دو پیکر کی
وہ تیغ زباں آور وہ تیغ ظفر پیکر
وہ تیغ قضا گستر جو ملک ہے حیدر کی
مذکورہ اشعار میں عزیز نے حضرت علی کی ذوالفقار کی تعریف میں بڑے جوش و خروش اور طنطنے کا ثبوت دیا ہے۔
عزیز کو فکر عقبیٰ بے چین رکھتی ہے۔ انھیں صلۂ دنیا نہیں آخرت میں سرخروئی درکار ہے۔ لہٰذا وہ خلوص و عقیدت میں ڈوب کر دعا کرتے ہیں۔ یہ مختصر دعا کبھی اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے اور کبھی قوم و ملک کے لیے۔ وہ اپنے ممدوحین کے اعلیٰ مراتب سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا یہ احساس بھی انھیں ستاتا ہے کہ ان سے حق ادا نہ ہوسکا:
خدا ہے تیرا معترف رسول تیرے جانثار
ادا ہو حقِ مدح کیا غلام کے غلام سے
حواشی
۔۔۔۔۔
.1 لکھنؤ کا دبستان شاعری: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ص 797، مکتبہ علم و فن، مٹیامحل دہلی، 1965
.2 ایضاً، ص 806
.3 قصیدہ نگاران اترپردیش: علی جوادزیدی، ص 198، اترپردیش اردو اکادمی، پہلا ایڈیشن، 1978
(بشکریہ: ماہنامہ اردو دنیا، نومبر2016)
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔
پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے
رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
خود چلے آؤ یا بلا بھیجو
رات اکیلے بسر نہیں ہوتی
زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی
کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا
آئینہ چھوڑ کے دیکھا کئے صورت میری
دل مضطر نے مرے ان کو سنورنے نہ دیا
جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی
اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا
ہجر کی رات کاٹنے والے
کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی
وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے
ہمیشہ تنکے ہی چنتے گزر گئی اپنی
مگر چمن میں کہیں آشیاں بنا نہ سکے
تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی
بات پر بات یاد آتی ہے
عزیزؔ منہ سے وہ اپنے نقاب تو الٹیں
کریں گے جبر اگر دل پہ اختیار رہا
ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو
رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں
بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی
کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا
بے پیے واعظ کو میری رائے میں
مسجد جامع میں جانا ہی نہ تھا
اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی
ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا
اسی کو حشر کہتے ہیں جہاں دنیا ہو فریادی
یہی اے میر دیوان جزا کیا تیری محفل ہے
لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار
دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا
بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے
دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے
ہم تو دل ہی پر سمجھتے تھے بتوں کا اختیار
نسب کعبہ میں بھی اب تک ایک پتھر رہ گیا
دعائیں مانگی ہیں ساقی نے کھول کر زلفیں
بسان دست کرم ابر دجلہ بار برس
مانا کہ بزم حسن کے آداب ہیں بہت
جب دل پہ اختیار نہ ہو کیا کرے کوئی
دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے
میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت نکلی
شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا
یادگار حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا
دل نہیں جب تو خاک ہے دنیا
اصل جو چیز تھی وہی نہ رہی
ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی
اب تو دن رات یاد آتی ہے
تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے جب سے
مجھے رونے کی عادت ہو گئی ہے
کبھی جنت کبھی دوزخ کبھی کعبہ کبھی دیر
عجب انداز سے تعمیر ہوا خانۂ دل
قتل اور مجھ سے سخت جاں کا قتل
تیغ دیکھو ذرا کمر دیکھو
ہمیشہ سے مزاج حسن میں دقت پسندی ہے
مری دشواریاں آسان ہونا سخت مشکل ہے
نزع کا وقت ہے بیٹھا ہے سرہانے کوئی
وقت اب وہ ہے کہ مرنا ہمیں منظور نہیں
قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر بھی مرا
یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں
جب سے زلفوں کا پڑا ہے اس میں عکس
دل مرا ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے
مرے دہن میں اگر آپ کی زباں ہوتی
تو پھر کچھ اور ہی عنوان داستاں ہوتا
مصیبت تھی ہمارے ہی لئے کیوں
یہ مانا ہم جئے لیکن جئے کیوں
میں تو ہستی کو سمجھتا ہوں سراسر اک گناہ
پاک دامانی کا دعویٰ ہو تو کس بنیاد پر
تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم
لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا
واعظوں بنیاد کعبہ میں بتوں کی ہستیاں
ہم مسلماں ہو چکے اور تم مسلماں کر چکے
تہ میں دریائے محبت کے تھی کیا چیز عزیزؔ
جو کوئی ڈوب گیا اس کو ابھرنے نہ دیا
تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں
سر منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں
مجھ کو کعبہ میں بھی ہمیشہ شیخ
یاد ایام بت پرستی تھی
آپ جس دل سے گریزاں تھے اسی دل سے ملے
دیکھیے ڈھونڈھ نکالا ہے کہاں سے میں نے
تقلید اب میں حضرت واعظ کی کیوں کروں
ساقی نے دے دیا مجھے فتویٰ جواز کا
دل کے اجزا میں نہیں ملتا کوئی جزو نشاط
اس صحیفے سے کسی نے اک ورق کم کر دیا
دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے
دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید
آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے
بنی ہیں شہر آشوب تمنا
خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی
حقارت سے نہ دیکھو ساکنان خاک کی بستی
کہ اک دنیا ہے ہر ذرہ ان اجزائے پریشاں کا
پھوٹ نکلا زہر سارے جسم میں
جب کبھی آنسو ہمارے تھم گئے
یہ تیری آرزو میں بڑھی وسعت نظر
دنیا ہے سب مری نگہ انتظار میں
حادثات دہر میں وابستۂ ارباب درد
لی جہاں کروٹ کسی نے انقلاب آ ہی گیا
حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر
کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں
شیشۂ دل کو یوں نہ اٹھاؤ
دیکھو ہاتھ سے چھوٹا ہوتا
سبق آ کے گور غریباں سے لے لو
خموشی مدرس ہے اس انجمن میں
اے سوز عشق پنہاں اب قصہ مختصر ہے
اکسیر ہو چلا ہوں اک آنچ کی کسر ہے
اداسی اب کسی کا رنگ جمنے ہی نہیں دیتی
کہاں تک پھول برسائے کوئی گور غریباں پر
منزل ہستی میں اک یوسف کی تھی مجھ کو تلاش
اب جو دیکھا کارواں کا کارواں ملتا نہیں