فلکیات اور خواتین
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ فلکیات اور خواتین۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم)ہر سال 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے جو دنیا بھر میں خواتین کی جدوجہد، کامیابیوں اور حقوق کے اعتراف کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی خواتین گزری ہیں جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دیں مگر اکثر ان کی محنت اور کامیابیاں پس پردہ رہ گئیں۔ خاص طور پر سائنس، فلکیات اور خلائی تحقیق جیسے شعبوں میں زیادہ کچھ غیر معمولی خواتین نے ایسے یادگار کارنامے سر انجام دیئے جو آج بھی جدید سائنس کی بنیاد قرار دئیے جا سکتے ہیں لیکن جب بھی ہم فلکیات اور خلائی سائنس کے بارے میں سوچتے ہیں تو عام طور پر آئزک نیوٹن، آئن اسٹائن ،نیل آرمسٹرانگ، ایڈون ہبل، یا اسٹیفن ہاکنگ جیسے مرد سائنس دانوں کے نام ہی ذہن میں آتے ہیں۔
اگر آج ہم کسی کو بتائیں کہ تاریخ کے صفحات میں کچھ ایسی عظیم خواتین بھی درج ہیں جن کے بغیر کائنات کے بارے میں اتنا کچھ جان پانا ممکن نہ ہوتا جتنا ہم آج جانتے ہیں تو شاید کوئی بھی اس بات پر یقین نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چند خواتین نے پس پردہ رہ کر عظیم ترین سائنسی دریافتیں کیں اور زیادہ تر لوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے۔
آج ہم ایسی ہی چار خواتین کی کہانی بیان کریں گے جن کے بغیر جدید فلکیات اور خلائی تحقیق کا موجودہ مقام تک پہنچنا شاید ممکن نہ تھا۔
- ہینریئٹا سوان لیویٹ: وہ خاتون جنہوں نے “انسانی کمپیوٹر” کے طور پر کام کرتے ہوئے انسان کو کائنات کے فاصلے ناپنے کا طریقہ سکھایا۔
انیسویں صدی کے آخر میں خواتین کو سائنسی تحقیق میں برابر کا مقام حاصل نہ تھا۔ ان کا کام محض اعداد و شمار اکٹھا کرنا یا سائنسی ڈیٹا کا تجزیہ کرنا ہوتا تھا مگر دریافتیں کرنے کا سہرا ہمیشہ مرد سائنس دانوں کے سر جاتا تھا۔ ہینریئٹا سوان لیویٹ بھی انہی غیرمعمولی مگر گمنام سائنس دانوں میں سے ایک تھیں۔
ہارورڈ کالج آبزرویٹری میں انہیں بطور تجزیاتی اور ریاضیاتی معاون یا اسسٹنٹ بھرتی کیا گیا جسے اس دور میں انسانی “کمپیوٹر” بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا کام ہزاروں ستاروں کے مشاہداتی ڈیٹا کا تجزیہ کرنا تھا لیکن انہیں بذات خود سائنسی تحقیق کی اجازت نہیں تھی۔ اس حوصلہ شکن ماحول میں بھی انہوں نے ایک ایسی دریافت کر ڈالی جس نے کائنات کی پیمائش کے اصول کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔
ہینریئٹا کی سب سے بڑی دریافت “پیریڈ-لومی نوسٹی ریلیشن شپ” Period Luminosity Relationship تھی جس کے ذریعے انہوں نے Cepheid Variable Stars کے ایک مخصوص گروہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ دریافت کیا کہ ان ستاروں کی چمک اور ان کے مدھم اور روشن ہونے کی مدت کے درمیان ایک واضح تعلق موجود ہے اور اس تعلق کو استعمال کرتے ہوئے ستاروں اور دور دراز کی کہکشاؤں کے فاصلوں کا نہایت درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ایک زبردست دریافت تھی اور سادہ الفاظ میں اس کا مطلب تھا کہ اگر کسی کہکشاں میں ایک Cepheid Variable نظر آ جائے تو اس کے ذریعے ہم اس کہکشاں کا فاصلہ بھی ناپ سکتے ہیں۔
بعد میں ایڈون ہبل نے ہینریئٹا کے دریافت کردہ تصور کو استعمال کے کے ایسے ہی متغیر ستاروں کا استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ کائنات میں ہماری کہکشاں ملکی وے کے علاوہ بھی بے شمار کہکشائیں موجود ہیں اور ساتگ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ ایڈون ہبل کی یہ دریافت جدید فلکیات میں اہم ترین درجہ رکھتی ہے اور یہ ہینریئٹا کے کام کے بغیر ممکن نہ تھی۔
مگر اس اہم دریافت کے باوجود ہینریئٹا کو اس وقت وہ رتبہ نہ مل سکا جس کی وہ حقدار تھیں۔
یہ دریافت بلاشبہ اتنی عظیم تھی کہ اگر ہینریئٹا کو ان کے وقت میں صحیح پہچان دی جاتی تو وہ نوبل انعام کی حقدار ہوتیں۔ لیکن اس وقت خواتین کو سائنسی اعزازات دینے کا رواج نہ تھا اور ان کا کام پس پردہ ہی رہا۔
بعد میں جب نوبل کمیٹی نے انہیں انعام دینے کا فیصلہ کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ کئی سال پہلے انتقال کر چکی تھیں اور نوبل انعام بعد از مرگ نہیں دیا جاتا۔
- سسیلیا پین-گاپوشکن: وہ خاتون جنہوں نے ستاروں کے اندر جھانک کر یہ بتایا کہ ستارے کس چیز سے بنے ہیں اور کیسے ستارے عناصر کی فیکٹریوں کے طور پر کام کرتے ہوئے نئے عناصر کو تشکیل دیتے ہیں۔
سسیلیا نے 1919 میں کیمبرج یونیورسٹی کے نیوہم کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کی ملاقات ایک عظیم سائنس دان ارنسٹ ردر فورڈ سے ہوئی جنہوں نے انہیں سائنس کے عملی پہلو سے روشناس کرایا۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی اس وقت خواتین کو ڈگریاں نہیں دیتی تھی یعنی سسیلیا نے مکمل تعلیم حاصل کر لی مگر انہیں باضابطہ ڈگری نہیں ملی۔
یہ ایک مایوس کن صورتحال تھی مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔
اسی دوران انہوں نے ایک لیکچر سنا جو معروف ماہر فلکیات آرتھر ایڈنگٹن نے دیا تھا۔ انہوں نے سورج کے گرد ہونے والے ایک نایاب سورج گرہن پر بات کی اور یہ بتایا کہ روشنی کے جھکاؤ سے آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت ثابت ہوا ہے۔
اس لیکچر نے سسیلیا کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا اور اس کے بعد وہ فلکیات کی دیوانی ہو گئیں۔ انہوں نے ٹھان لی کہ وہ اپنیزندگی فلکیات کے لئے وقف کریں گی۔
چونکہ انگلینڈ میں خواتین کے لیے فلکیات میں تحقیق کے مواقع محدود تھے اس لئے سسیلیا نے 1923 میں ہارورڈ یونیورسٹی کے فلکیاتی ریسرچ پروگرام میں شمولیت اختیار کر لی۔
اس دور میں ہارورڈ میں خواتین کو انسانی “کمپیوٹر” کے طور پر رکھا جاتا تھا یعنی ان کا کام صرف ڈیٹا کا تجزیہ کرنا اور مرد سائنس دانوں کے لئے پیچیدہ ریاضیاتی حساب کتاب کرنا ہوتا تھا۔ مگر سسیلیا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ محض ایک عام اسسٹنٹ نہیں بنیں گی بلکہ کچھ ایسا کریں گی جو سائنس میں انقلاب برپا کر دے۔
اس دور کے ماہرین فلکیات کا ماننا تھا کہ ستارے بھی زمین کی طرح مختلف قسم کے عناصر یعنی آکسیجن، کاربن اور لوہا وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور کائنات میں تمام عناصر شروع سے ہی موجود تھے مگر ایک نوجوان خاتون سائنس دان نے یہ نظریہ مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا۔
سسیلیا پین-گاپوشکن نے روشنی کے طیف یا اسپکٹرم پر کام کر کے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق میں یہ ثابت کیا کہ ستارے زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ ان ہی عناصر سے ستاروں کے اندر نئے عناصر تشکیل پاتے ہیں اور یوں ستارے تمام عناصر کی فیکٹریاں ہیں۔
یہ دریافت فلکیات میں ایک انقلاب سے کم نہ تھی کیونکہ اس سے ثابت ہوا کہ ہائیڈروجن کائنات کا سب سے کثرت سے پایا جانے والا عنصر ہے اور یہ وہی ایندھن ہے جو ستاروں کو چمکنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی پتا چلا کہ کائنات کی تمام ہائیڈروجن دراصل بگ بینگ کے وقت ہی ہیدا ہوئی اور پھر اسی ہائیڈروجن سے ستاروں کے مراکز میں نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے نے یکے بعد دیگرے نئے عناصر بنتے گئے۔ گویا کائنات میں تمام عناصر کی شروعات اور اساس ایک ہی ہے اور یہ تصور بگ بینگ ماڈل کے مضبوط ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔
جب سسیلیا نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق میں یہ نتائج شائع کئے تو اس وقت کے مشہور ماہر فلکیات ہنری نورس رسل نے ان کے کام کو مسترد کر دیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحقیق واپس لے لیں کیونکہ یہ “ناممکن” تصور پر مبنی تھی مگر سسیلیا اپنے نتائج پر قائم رہیں۔
چند سال بعد جب مزید تحقیق کی گئی تو ثابت ہوا کہ سسیلیا پین بالکل درست تھیں لیکن افسوسناک طور پر، چونکہ ہنری نورس رسل تصدیقی تحقیق میں شامل تھے، لہٰذا سسیلیا کی پہلی تحقیق کا کریڈٹ بھی انہیں دے دیا گیا اور کئی دہائیوں تک لوگ یہی سمجھتے رہے کہ یہ دریافت رسل نے کی تھی حالانکہ اصل کام سسیلیا پین کا تھا۔
سسیلیا نہ صرف یہ حیرت انگیز دریافت کرنے والی پہلی خاتون تھیں بلکہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں کسی بھی شعبے کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون بھی بنیں جو کہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔
ان کے کام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہر ماہر فلکیات ان کے دریافت کردہ اصولوں کو بنیاد بنا کر ستاروں کا تجزیہ کرتا ہے۔
1977 میں ناسا نے انہیں “فلکیات کی سب سے عظیم خاتون” قرار دیا اور ان کی زندگی کے آخری سالوں میں بالآخر انہیں وہ عزت اور پہچان ملی جس کی وہ حقدار تھیں۔
- مارگریٹ ہیملٹن: وہ خاتون جنہوں نے انسانوں کو چاند پر قدم رکھنے کے قابل بنایا۔
1960 کی دہائی میں ناسا چاند پر جانے کی تیاری کر رہا تھا اور ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ خلائی جہاز کو کیسے کنٹرول کیا جائے کیونکہ اس وقت کمپیوٹر پروگرامنگ ایک نئی فیلڈ تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسے مشنز کے لئے سافٹ ویئر کیسے لکھا جا سکتا ہے۔
مارگریٹ ہیملٹن ناسا کے اپالو پروگرام میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈائریکٹر تھیں اور انہوں نے ہی وہ کوڈ لکھا جس نے اپالو گائیڈنس کمپیوٹر کو چلایا۔
مارگریٹ کے بنائے ہوئے سافٹ ویئر کی سب سے خاص بات چاند کے سفر اور لینڈنگ کے دوران پیدا ہونے والے کسی بھی ممکنہ بحران سے بچنے کا وہ کوڈ تھا جس نے کمپیوٹر پروگرامنگ کے میدان میں انقلاب پربا کر دیا اور اسے ناقابل یقین جدت سے نوازا۔
جب اپالو 11 مشن چاند کے قریب پہنچا تو اچانک کمپیوٹر میں بہت سے الارمز بجنے لگے اور اس موقعے پر ایک چھوٹی سی غلطی پورے مشن کو ناکام بنا سکتی تھی کیونکہ زمین سے لاکھوں کلومیٹرز دور موجود خلاباز کمپیوٹر سافٹ ویئر کی خرابی کو دور کرنے کی حالت میں بالکل بھی نہیں تھے۔ مگر حیران کن طور پر مارگریٹ ہیملٹن کے بنائے گئے “ایرر ہینڈلنگ سسٹم” یعنی کسی پیچیدگی کی صورت میں خود کار طریقے سے کام کرنے والے الگورتھم نے غیر ضروری افعال کو بند کر دیا اور لینڈنگ کے لئے ضروری پروگرام اور حصوں کو جاری رکھنے کو ترجیح دی جس سے چاند پر پہلی انسانی لینڈنگ کامیابی کے ساتھ ممکن ہوئی۔
ان کے کام نے جدید سافٹ ویئر انجینئرنگ کی بنیاد بھی رکھی اور آج بھی جو کمپیوٹر سسٹمز ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں ان کے کئی بنیادی اصول مارگریٹ ہیملٹن کی تحقیق سے متاثر ہیں۔
مارگریٹ کے بنائے ہوئے بہترین سافٹ ویئر کی بدولت نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرین بحفاظت چاند پر اترنے میں کامیاب ہوئے اور انسان نے پہلی بار اپنے سیارے کے علاوہ کسی اور خلائی جسم پر قدم رکھا۔
- ڈاکٹر کیٹی باؤمن: وہ خاتون جنہوں نے بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے کے پیچیدہ کام کو ممکن بنایا۔
تاریخ میں پہلی بار کسی بلیک ہول کی تصویر کھینچنے کے لیے 5 پیٹا بائٹس اسٹوریج درکار تھی۔ یہ اتنی میموری ہے جتنی 5,000 سال تک مسلسل چلنے والے ایم پی 3 آڈیو میوزک کو محفوظ کرنے کے لیے چاہیئے۔
کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر کیٹی بومن نے وہ الگورتھم تیار کیا جس نے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ سے حاصل کردہ 5 پیٹا بائٹس ڈیٹا کو بلیک ہول کی پہلی تاریخی تصویر میں بدلا اور یوں 2019 میں دنیا نے پہلی بار بلیک ہول کی ایک حقیقی تصویر دیکھی۔
بلیک ہول کی تصویر لینا آسان کام نہیں تھا۔ عام دوربینیں بلیک ہول کو نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ یہ روشنی کو جذب کر لیتے ہیں۔ لیکن سائنس دانوں نے ایک منفرد حکمتِ عملی اپنائی جس کے تحت ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ نامی ایک عالمی نیٹ ورک بنایا گیا جس میں دنیا کے مختلف حصوں میں موجود 8 بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپس کو آپس میں جوڑا گیا۔ پھر ان تمام ٹیلی سکوپس نے بلیک ہول کے گرد موجود روشنی کے حلقے سے ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا۔ مگر ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اکٹھا کیا گیا ڈیٹا بصری طور پر غیر واضح تھا۔ یہاں ڈاکٹر کیٹی باؤمن کی مہارت کام آئی اور انہوں نے ایک جدید کمپیوٹر الگورتھم تیار کیا جو بلیک ہول سے حاصل کئے گئے غیر واضح ڈیٹا کو ایک مکمل تصویر میں بدل سکتا تھا۔
یہ ایسا ہی تھا جیسے آپ کے پاس ایک بہت بڑی لیکن بوسیدہ یا ٹوٹی ہھوٹی تصویر ہو اور آپ کو اس میں سے اصل تصویر اخذ کرنی ہو۔ کیٹی بومن کا تیار کردہ الگورتھم کچھ اسی انداز میں وسیع ڈیٹا سے بلیک ہول کی تصویر بنانے میں کامیاب ہوا اور پھر وہ تاریخی لمحہ آیا جب 10 اپریل 2019 کو بلیک ہول کی پہلی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی گئی۔
یہ بلیک ہول Messier 87 (M87) کہکشاں کے مرکز میں واقع تھا اور زمین سے 55 ملین نوری سال کے فاصلے پر تھا۔ تصویر میں ایک سیاہ دائرہ تھا جو دراصل بلیک ہول کا سایہ تھا اور اس کے گرد ایک روشن نارنجی رنگ کا حلقہ دکھائی دے رہا تھا جو بلیک ہول کے گرد موجود شدید گرم گیسوں سے خارج ہونے والی غیر مرئی روشنی کا اثر تھا۔
یہ تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں شہ سرخیوں میں آ گئی اور کیٹی باؤمن راتوں رات ایک “سائنس سیلیبرٹی” بن گئیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ یہ کام 200 سے زیادہ سائنس دانوں کی مشترکہ محنت کا نتیجہ تھا مگر کیٹی باؤمن کے الگورتھم کے بغیر یہ تصویر ممکن نہیں تھی۔
یہ چاروں خواتین ان بے شمار گمنام خواتین میں سے ہیں جنہوں نے سائنس اور تحقیق کے میدان میں گراں قدر خدمات کے ذریعے کائنات کے راز افشاں کرنے میں انسانیت کی مدد کی لیکن ان کے نام زیادہ تر سننے کو نہیں ملتے۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر کو ان کے وقت میں وہ عزت نہ ملی جس کی وہ حقدار تھیں مگر آج ان کا نام ہمیشہ کے لیے فلکیات اور خلائی سائنس کی تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہو چکا ہے۔
آج یومِ خواتین کے موقع پر ہم ان عظیم سائنس دان خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فلکیات اور خلائی سائنس میں ایسی حیرت انگیز معلومات فراہم کیں جن کی بدولت ہم نہ صرف کائنات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل ہوئے بلکہ ان خواتین کی محنت سے جدید فلکیات کو ایک نئی سمت بھی ملی۔
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)