Daily Roshni News

لہروں کے دوش پر۔۔۔قسط نمبر2

لہروں کے دوش پر

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ لہروں کے دوش پر)مگر یہ سنتاہی نہیں۔ بات رفت گزشت ہو گئی۔ ایک روز صبح بیدار ہونے کے بعد دیکھا کہ درخت غائب ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی کہ اتنا بڑا اور مخت راتوں رات کہاں غائب ہو گیا۔ باہر جا کر دیکھا کہ درخت کو جڑ سے اکھاڑ لیا گیا ہے۔ آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ اتنے بڑے در بخت کو کس نے کاٹا اور کیسے لے گیا۔ نیز درخت کاٹنے میں جب اس پر کلہاڑی پڑی ہو گی تو آواز بھی ہوئی ہوگی۔ لیکن کسی کی آنکھ بھی نہیں کھلی۔ میں نے اس سلسلے میں حضور بابا صاحب سے پو چھا تو وہ مسکرا کر خاموش ہو گئے“۔ اللہ کے پیارے بندے نزدیک و دور کی چیزیں دیکھتے ہیں اور دور کی ماورائے سماعت آواز بھی باذن الہی سنتے ہیں۔ اکثر بزرگوں سے متعلق واقعات میں یہ تصریح ملتی ہے کہ کئی روحانی بزرگ لوگوں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہیں در پیش مسئلہ کا حل بتا دیتے۔ اس ضمن میں انبیائے کرام، صحابہ اور اولیاء اللہ کے سینکڑوں واقعات روایتوں اور کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان تمام واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا درختوں ، جانوروں جیسی جاندار یہاں تک کی ، جمادات ، سیاروں ستاروں اور دریاؤں سے بھی تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔ حضرت قلندر بابا اولیاء اپنی تصنیف تذکرہ بابا تاج الدین میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری فرماتے ہیں: کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو مخیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعائیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں تو ہم، خیال، تصور اور تظر وغیر ہ کا نام دیتے ہیں “۔

ابدال حق قلندر بابا اولیات کے اس فرمان سے واضح ہو جاتا ہے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟

جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی کا کاتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوتی ہے۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو

ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں“۔

اس موضوع پر حضور قلندر بابا اولیانہ نے اپنی کتاب لوح و قلم میں نہایت مفضل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

آپ اپنی ایک رباعی میں فرماتے ہیں۔ ہر چیز خیالات کی ہے پیمائش ہیں نام کے دنیا میں غم و آسائش تبدیل ہوئی جو خاک گورستان میں ب کوچه و بازار کی تھی زیبائش حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اس رباعی کی تشریح یوں کی ہے:

ہم کسی چیز کو پہچانتے ہیں یا کوئی کام کرتے ہیں، خوش ہوتے ہیں یا غم کے بادل ہمارے اوپر چھا جاتے ہیں…. سب کا دارو مدار خیال پر ہے….. یہ خیال درجہ بدرجہ گہرا ہو کر، تصور سے گزر کر احساس میں جلوہ گر ہوتا ہے اور مظہر بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے….. خیالات میں جذبات واحساسات بنتے ہیں …. خیال ہی زندگی ہے !… مخیال ہی کائنات کی اساس ہے!… خیال کی قوت سے آگاہ بندہ کائنات کے ذرے ذرے سے اس کی اصل حقیقت کے ساتھ واقف ہو سکتا ہے مگر آج کا انسان ایک حیرت انگیز طاقت کا حامل ہونے کے باوجود کنوئیں کے سامنے پیاسا کھڑا نظر آتا ہے۔

خیال یا اطلاع کے علم سے واقفیت قرآن پر نظر کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔

حواس خمسہ سے بڑھ کر اورا کی قوت عموماً ایک خداداد صلاحیت ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ قوت غیر ارادی طور پر سلام ہوتی ہے۔ وہ عام حواس خمسہ سے ماورا کسی اور طریقہ سے ان باتوں کا ادراک کر لیتے ہیں جو ابھی واقع نہ ہوئی ہوں یا عام ذرائع سے ان تک اس کا ذکر نہ پہنچا ہو۔ بعض لوگوں کو یہ قوت زیادہ منتقل ہوتی ہے اور بعض کو صرف ایک یادو خاصیتیں ملتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس خداداد صلاحیت کو شاذ ہی استعمال کر پاتے ہیں۔

جن لوگوں میں ایسی صلاحیت موجود ہوتی ہے ،ان میں سے اکثر اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے بعض کو اپنی غیر معمولی صلاحیت کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ توجہ، اعتماد اور ذہنی یکسوئی کی کمی کی وجہ سے بعض لوگوں میں موجود یہ انوکھی صلاحیت معدوم بھی ہو جاتی ہے۔

روحانی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ہمارے در میان تبادله مخیال در حقیقت الفاظ کی صورت میں نہیں ہو تا بلکہ ہم نے اپنے خیال کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کچھ کو ڈ بنالئے ہیں اس کو ہم زبان کہتے ہیں حقیقتاً تبادلہ لہروں کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

کئی حیوانات بھی آواز کے بغیر انہی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ در مختوں میں بھی تبادلہ خیال کا یہی قانون پایا جاتا ہے۔ درختوں میں گفتگو کے لئے ان کا آمنے سامنے ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی درخت ایک دوسرے کے خیال سے واقف ہو جاتےہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں ، مٹی کے ڈروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہو تا ہے۔ خیال کی لہر میں تنظر اور توجہ کر کے ہم ان تحریکات کو سمجھ سکتے ہیں۔

ایک آدمی کے اچھے جذبات کا اثر جلد یا بدیر دوسرے آدمی پر ضرور ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کے لیے مخلصانہ جذبات رکھتے ہیں، اس کے لیے اچھا چاہتے ہیں تو وہ شخص آپ کے بتائے بغیر بھی آپ کے جذبات سے آگاہ ہو سکتا ہے۔

یہ کام کیسے ہو گا….؟

اس کے بارے میں اہل روحانیت کا نقطہ نظر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس شخص کے لیے اچھا سوچیں ۔ اس کی بھلائی ، اس کی کامیابی اور اس کی خوشیوں کے لیے دعائیں کرنے لگیں۔

جو لوگ دوسروں کے لیے اچھے جذبات رکھتے ہیں ان کے وجود سے مثبت اور لطیف لہروں کا اخراج ہوتا ہے۔ ان لطیف لہروں کے اخراج سے ماحول کو بھی لطافت اور سکون میسر آتا ہے اور یہ لطیف لہریں دوسرے کئی لوگوں کو بھی مسرت اور اطمینان بخشی ہیں۔ اگر یہ اچھے خیالات کسی ایک خاص شخص کے لیے ہوں تو اس کے لیے ضرور خوشی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ دوسروں کے لیے بڑے جذبات رکھتے ہیں ، تنگ دلی محسوس کرتے ہیں ان کے وجود سے منفی اور کثیف لہروں کا اخراج ہونے لگتا ہے۔ انسانی وجود سے خارج ہونے والی یہ کثیف لہریں ماحول کو بو حجل بنا دیتی ہیں۔ یہ کثیف لہریں کسی ایک یا زیادہ لوگوں کے لیے تکلیف ، پریشانیوں ، بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ نظر بد اور حسد وغیرہ میں بھی انسانوں اور دوسری مخلوقات کے لیے نقصان دہ کثیف لہروں کا اخراج ہوتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2016

Loading