Daily Roshni News

*لیمَن میگزین کے کارٹونسٹ کی گرفتاری، توہینِ مذہب کے الزام میں تحقیقات شروع

*لیمَن میگزین کے کارٹونسٹ کی گرفتاری، توہینِ مذہب کے الزام میں تحقیقات شروع

پیغمبر اسلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصویر کشی پر شدید ردعمل، مظاہرے اور گرفتاری*

استنبول، ترکیے(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔نامہ نگار خصوصی۔۔۔سید رضوان حیدر بخاری) ترک حکومت نے معروف طنزیہ جریدے لیمَن کے کارٹونسٹ کو حراست میں لے لیا ہے، جس نے اپنے حالیہ کارٹون میں پیغمبر محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جنگ زدہ علاقے میں ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا ہے جبکہ پس منظر میں میزائل برس رہے ہیں۔

ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر اعلان کیا کہ کارٹونسٹ — جس کی شناخت صرف ابتدائی حروف “D.P.” سے کی گئی — کو گرفتار کر کے تفتیش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں مذکورہ شخص کو ہتھکڑی لگا کر ایک سیڑھی پر لے جایا جا رہا ہے۔

وزیر داخلہ نے اپنے پیغام میں لکھا:

“میں ایک بار پھر ان لوگوں کی مذمت کرتا ہوں جو ہمارے پیغمبر ﷺ کی توہین کر کے معاشرتی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ناپاک خاکہ بنانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ بے شرم لوگ قانون کے کٹہرے میں ضرور لائے جائیں گے۔”

ترک وزیر انصاف یلماز تُنچ نے بھی کہا ہے کہ کارٹون پر “عوامی طور پر مذہبی اقدار کی توہین” کے تحت تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ:

“کوئی بھی آزادی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کسی عقیدے کی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑایا جائے، یا انہیں بدصورت انداز میں طنز کا نشانہ بنایا جائے۔”

لیمَن کے دفتر کے باہر درجنوں نوجوانوں نے مظاہرہ کیا، جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ایک اسلام پسند گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مظاہرین نے جریدے کے ہیڈکوارٹر پر پتھراؤ کیا۔

سوشل میڈیا پر یہ متنازعہ کارٹون تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، جس کے دفاع میں کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ:

“یہ ایک کارٹون ہے — ایک فن پارہ جو کسی شخصیت، واقعے یا صورتحال کو طنزیہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ توہین یا مذاق مقصود نہیں لگتا۔”

یہ واقعہ 2015 کے شارلی ایبدو حملے کی یاد دلاتا ہے، جب فرانس کے طنزیہ جریدے کے دفتر پر دو مسلح افراد نے حملہ کر کے 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں معروف کارٹونسٹ بھی شامل تھے۔ وہ حملہ بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی تصویر کشی پر کیا گیا تھا۔

اسی سال 7 جنوری کو اس دلخراش واقعے کی دسویں برسی کے موقع پر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور پیرس کی میئر آن ہدالگو نے سابق دفتر کے مقام پر پھول چڑھائے اور شہداء کو یاد کیا۔ میکرون نے لکھا:

“ہم انہیں بھولے نہیں ہیں۔”

واضح رہے کہ بہت سے سنی مسلمان اسلامی تعلیمات کی سخت تعبیر پر یقین رکھتے ہیں، جس کے مطابق انبیاء کرام، انسانوں اور جانوروں کی تصویری عکاسی مکمل طور پر ممنوع اور گناہ تصور کی جاتی ہے۔

Loading