“ماہین کی مہارت، ماہین کی طاقت”
تحریر۔۔۔ شہلا عمرانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔”ماہین کی مہارت، ماہین کی طاقت”۔۔۔ تحریر۔۔۔ شہلا عمرانی)شہر کے ایک مصروف علاقے میں ایک نرم دل اور خاموش طبیعت کی بچی رہتی تھی، جس کا نام ماہین تھا۔ وہ پڑھائی میں اچھی تھی، مگر اس کی اصل دلچسپی رنگوں اور تصویروں میں تھی۔ اسکول سے آتے ہی وہ اپنی کاپی، رنگین پینسلیں اور برش لے کر تصویریں بنانا شروع کر دیتی—کبھی درختوں کے سائے، کبھی بارش کا منظر، اور کبھی ماں کی مسکراہٹ۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ ماہین کے والدین کو اس کا تصویریں بنانا بالکل پسند نہیں تھا۔والد کہتے، وقت ضائع مت کرو، یہ تصویریں تمھیں کوئی مقام نہیں دلائیں گی۔ ماں بھی کہتی، پڑھائی پر دھیان دو، رنگوں سے زندگی نہیں بنتی۔ ماہین چپ رہتی، مگر اس کا دل دکھی ہوتا۔ پھر بھی وہ چپکے سے تصویریں بناتی رہتی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ہاتھوں میں کچھ خاص بات ہے۔
ایک دن شہر کے مشہور آرٹ اسکول کی طرف سے ایک مقابلے کا اعلان ہوا ۔”اپنے ہیرو کی تصویر بناؤ!” بہت سے بچے شامل ہوئے۔ کسی نے مشہور شخصیات بنائیں، کسی نے فوجی اور سپاہی، کسی نے سائنسدان۔ ماہین نے بھی حصہ لیا۔
اس نے چپ چاپ ایک تصویر بنائی
“ایک ماں جو رات گئے تک اپنے بچے کا بخار کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، چہرے پر تھکن بھی تھی اور محبت بھی۔” اس نے تصویر کے نیچے لکھا:
“میری ہیرو وہ ہے جو میرے لیے ہر رات جاگتی ہے: میری ماں!”
جب ججوں نے وہ تصویر دیکھی، تو پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔
پھر ایک جج بولے: “یہ صرف تصویر نہیں ہے، یہ ایک جذبہ ہے۔ یہ بچی اپنی آنکھوں سے دل کو دیکھ سکتی ہے۔ ماہین کو پہلا انعام ملا، اور اسے آرٹ اسکالرشپ بھی مل گئی۔ جب وہ گھر واپس آئی تو اس کے والدین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ والد نے کہا، ہمیں معاف کر دو، ہم تمھاری مہارت کو نہ ۔پہچان سکے۔ آج ہمیں فخر ہے کہ تم ہماری بیٹی ہو۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اکثر لوگ بچوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نہیں پہچان پاتے۔ لیکن اگر بچہ اپنے شوق، جذبے اور مہارت پر یقین رکھے، تو ایک دن وہی چیز اس کی طاقت بن جاتی ہے۔ فن صرف رنگ نہیں، احساس بھی ہوتا ہے۔