Daily Roshni News

مایوسی۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد۔۔۔قسط نمبر1

مایوسی

تحریر۔۔۔اشفاق احمد

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ مایوسی۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد)ایف۔اے کے زمانے میں عام طور پر یہ ہمارے زمانے کی بات ہےاسٹوڈنٹس انگریز شاعر Oscar Wilde کی محبت میں بہت میلا ہوتے تھے۔ اب زمانہ آگے نکل

گیا ہے۔ جس طرح سے ہم اس کی محبت میں گرفتار تھے ، اب اس کے نظموں

پر اس قدر توجہ نہیں دی جاتی۔ مجھے آسکر وائیلڈ کی نظم کا ایک مصرعہ یاد آرہا تھا

Suffering is very long moment You can not divide it by timeتکلیف ایک طویل لمحہ ہے لیکن وہ کسی صورت تقسیم ہو نہیں پاتا۔ پریشانی کا ایک چھوٹا سا لمحہ بھی طویل تر ہو جاتا ہے۔

انسانی زندگی میں بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ Suffering کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل ہم پر بھی کچھ ایسی ہی ! کیفیت طاری ہو چکی ہے۔

Pain Sufferingsیہ دکھ والم تو انسانی زندگی کے ساتھ چلتے ہیں لیکن مایوسی اس کے قریب نہیں  آنی چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ جب میں اپنے ملک کے دوسرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو یا تو انہیں غصہ آتا ہے اور یا انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ہماری گردن پر ہاتھ رکھ کر زبردستی ہمارے سر کو نیچا کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا کے کرم و فضل سے لوگ اس قدر مایوسی کے عالم میں نہیں ہیں جیسا کہ ہمارا دشمن اندازہ کر رہا تھا۔

مایوس ہونے کی ضرورت نہیں لیکن دکھ تک جانے کا آپ کو حق ہے۔ میں جب سکول میں داخل ہوا تو مجھے جس مس کے حوالے کیا گیا وہ بڑی خوش اخلاق تھیں۔ نہایت خوش وضع اور لمبے قد کی شفیق سی استاد میں۔ ہماری مائیں ماسیاں بڑی سخت ہوتی تھیں۔ اس استاد کی طرف سے ہماری طرف جو شفقت کا لپکا آرہا تھا وہ میرے لیے نیا تجربہ تھا۔ وہ ہمارے کھیلنے کے لیے آسائش کا سامان بھی مہیا کرتی تھیں۔ اس استاد کے لیے دل میں ایک ایسی محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا توڑ نا بڑا مشکل

ہو گیا۔ ہمیں اماں کے پاس رہنا تکلیف دہ ہو تا تھا لیکن اس مس کے پاس زیادہ آسانی محسوس ہوتی تھی۔ گو یہ ایک میری ذاتی سی بات ہے اور میں آپ کو اپنا دکھ بتاتا ہوں کہ ان کی اس سکول سے یا ٹرانسفر ہو گئی یا پھر انہوں نے خود ہی سکول چھوڑ دیا۔ بہر کیف وہ ہم سے جدا ہو گئیں۔ میں اب اس بڑھاپے میں پہنچ چکا ہوں، میں نے اب تک کی اپنی زندگی میں اتنا دکھ محسوس نہیں کیا جس قدر اس شفیق استاد کی جدائی سے مجھے ہوا۔ مجھے شاید یہ بات آپ کو بتانی چاہیے یا نہیں کہ اس جدائی میں نہ کھانا اچھا لگتا تھا نہ پینا اچھا لگتا تھا اور نہ ہی زندہ رہنا اچھا لگتا تھا۔ مجھے زبردستی سکول بھیجا جاتا تھا اور میں اپنی اس ٹیچر کی یاد اور شدید محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ میں عشق و محبت کے قصے پڑھتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس وقت کو بہت چھوٹا تھا لیکن لاشعور میں آخر کس طرح اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ میں اپنی اس استاد کو ایک بہت ہی ارفع اور اعلی مخلوق سمجھ کر اس کی پرستش کرنے لگا تھا۔ جدائی کا دکھ بہت گہر ا محسوس کرتا تھا لیکن اس دکھ کے باوصف میں مایوس نہیں تھا۔ میرے دل کے کسی نہ کسی کونے کھدرے میں یہ بات ضرور تھی کہ میں ان سے ضرور ملوں گا۔ وقت گزر گیا اور ان سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔ وہ جانے کہاں چلی گئیں لیکن دل میں ان کا دکھ بڑھتا رہا۔ میں نے پھر میٹرک کیا، ایف۔ اے ، بی۔ اے کر چکنے کے بعد یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ بنا۔ ولائیت چلا گیا اور وہاں جا کر پڑھاتا بھی رہا۔ لکھنے لکھانے کا کام بھی کر تا رہا۔

جب میں لوٹ کر آیا تو مجھے ایک خاتون میں۔ بہت سنجیدہ، سلیقہ شعار اور وہ بہت پڑھی لکھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ لکھتی ہوں اور مجھے آپ کا سٹائل بہت پسند ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کی طرز کا لکھنا مجھے بھی آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ جی میں نے لکھنا کہیں سے سیکھا تو نہیں۔ یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ میرے بارے میں ایسا فرمارہی ہیں لیکن وہ محترمہ اصرار کرنے لگیں کہ آپ مجھے اصلاح

ضرور دیں اور میرے تحریروں پر Comments ضرور دیں۔ ان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو یہ جان کر میرے دل کی کلی کھل اٹھی کہ وہ محترمہ میری وہ استاد تھیں جن کی جدائی کا دکھ میں اب تک دل میں لیے پھر تا تھا اور آج میں اپنی اس محبوب ٹیچر کا استاد بن گیا۔ میرے اس وقت مایوس نہ ہونے نے مجھے اتنابڑا اسہارا دیا اور میں ایک امید پر زندہ رہا۔ میں جب بچپن کی بات کرتا ہوں تو اگر آپ مجھے سچ بولنے کی اجازت دیں تو میں بتانا چاہوں گا کہ اس وقت دو مرتبہ مجھ پر مایوسی کا عالم بھی رہا۔ اتنامایوس جس طرح ایک مرنے کی کافی گر جائے تو وہ ہو جاتا ہے۔ میں بھی اس قدر شدید مایوسی میں رہا۔ میں سکول میں پکی یا پہلی جماعت میں تھا۔ میرے پاس سے ایک تانگہ گزرا۔ اس تانگے کا کو چوان کچھ ظالم تھا اور وہ گھوڑے کو چھانٹے مار کر چلاتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا اور چھانٹے لگنے سے بیچارہ گھوڑا کچھ تڑپا اور بے ہوش ہو کر گر گیا۔ لوگوں نے جلدی سے گھوڑے کے بند اور راسیں کھول دیں اور اُسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ اٹھ نہ سکا۔ کسی نے کہا کہ گھوڑا ڈا کٹر کو بلاؤ۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میں بہت خوش ہوا اور وہاں کھڑا ہو کر گھوڑا ڈاکٹر کا انتظار کرنے لگا کہ گھوڑا ڈاکٹر آکر کس طرح اس گھوڑے کو اٹھائے گا۔ اب میں نے گھر جانا تھا اور بستہ میرے ہاتھ میں تھا۔ گھوڑا ڈاکٹر کے انتظار میں آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پون گزر گیا اور پھر تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک تانگہ آکر وہاں رکا۔ اس میں سے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2015

Loading