محبت اور منافقت کا پراٹھا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )لاہور کے ایک بڑے ہال میں ازدواجی تعلقات پر ہمارا سیشن اختتام پذیر ہونے والا تھا۔ میں نے مائیک سنبھالا اور اپنی اہلیہ کی طرف دیکھا، پھر سامعین سے مخاطب ہوا: “آج ہم آپ کو ایک شخص کی کہانی سنائیں گے، جسے گاؤں میں سب شیدا کہتے تھے۔ یہ کہانی صرف ماضی کی نہیں، یہ ہر اُس گھر کی حقیقت ہے جو آج ہمارے درمیان خوشی سے آباد ہے
پراٹھے کی قیمت پر تباہی
شیدا کا کردار بڑا عجیب تھا۔ اسے زندگی میں سب سے زیادہ محبت کسی چیز سے تھی تو وہ تھی صبح کی کڑک دار چائے اور گرما گرم پراٹھے۔ لیکن وہ کبھی کسی کے گھر جا کر سیدھے طریقے سے نہیں مانگتا تھا۔
صبح سویرے، وہ کسی بھی گھر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور جھاڑو دیتی خاتون کو دور سے آواز دیتا:
“نیک بخت! تم نے ساری عمر اس گھر کو سنوارا ہے۔ تمہاری عظمت کے سامنے تو تمہارا شوہر بھی کچھ نہیں! تم اس گھر کی حقیقی بنیاد ہو!”
جب شوہر دروازے پر آتا تو شیدا فوراً اپنا رُخ بدلتا: “او بھائی صاحب! آپ خوش نصیب ہیں، خدا نے آپ کو ایسی وفادار بیوی سے نوازا ہے جس کی قدر اس معاشرے میں نہیں!”
اس دوہری تعریف کے بعد، شیدا کا اگلا وار ہوتا۔ وہ خاتون کے ساتھ ہمدردی کے الفاظ استعمال کرتے ہوۓ کہتا: “میں جانتا ہوں، تم کتنی محنت کرتی ہو، تمہیں ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں ملتی۔” اور بس! یہ سنتے ہی خاتون شوہر کی پچھلی تمام شکایتوں کا دفتر کھول دیتی، اور شیدا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر گہری ہمدردی ظاہر کرتا۔
نتیجہ وہی نکلتا جو وہ چاہتا تھا۔ شرمندہ اور نرم پڑی خاتون فوراً پوچھتی: “چائے پیو گے؟”
شیدا مسکرا کر انکار کرتا: “نہیں، صرف چائے؟ وہ بھی تمہارے ہاتھوں کے لذیذ پراٹھوں کے بغیر؟ لیکن تم تھکی ہوئی لگ رہی ہو، اس لیے زحمت نہ دو۔”
اور یوں، منافقت کی مٹھاس میں لپٹا ہوا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا۔ لذیذ پراٹھے کھاتا، چادر جھاڑتا اور اگلے گھر کا رخ کرتا۔
مگر افسوس! وہ دو پراٹھے نہ صرف شیدا کا پیٹ بھرتے، بلکہ اس گھر کے ماحول میں بداعتمادی کا ایسا زہر بھی گھول جاتے کہ میاں بیوی کے درمیان کئی سال تک رنجشیں، بدگمانیاں اور تلخیاں رہتیں۔ شیدا تو چلا جاتا، مگر وہ بے خبری میں ایک ایسی دراڑ ڈال جاتا جو برسوں کی محنت سے بنی دیوار کو ہلا کر رکھ دیتی۔
ہمارا سکھایا گیا سبق
میری اہلیہ نے مائیک تھاما اور بولیں: “عزیز دوستو! یہ شیدا آج بھی ہمارے رشتہ داروں اور دوستوں کی شکل میں زندہ ہے۔ یہ ‘مخلص’ بن کر آتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، اور جب جاتے ہیں تو پیچھے صرف پریشانی اور ٹوٹ پھوٹ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ آپ کا سکون، عزت، اور گھر صرف دو پراٹھوں کی قیمت پر برباد کر سکتے ہیں۔”
میں نے بات مکمل کی: “یہی وہ ازدواجی زندگی کا نقشہ ہے جو ہم نے آپ کو لاہور میں سکھایا ہے۔ خاندان کی مضبوطی کا راز صرف تین چیزوں میں ہے:”
داخلی اتحاد: آپ دونوں کے درمیان کی کوئی بھی شکایت دنیا کے کسی تیسرے شخص کے سامنے نہیں آنی چاہیے۔ آپ کا رشتہ پرائیویٹ ہے، پبلک پراپرٹی نہیں۔
سچ اور منافقت میں فرق: سچ کو سننے کی ہمت پیدا کریں، مگر منافقت کو شرافت کا لبادہ پہنانے سے گریز کریں۔ جو شخص آپ کے سامنے آپ کے ساتھی کی برائی کر رہا ہے، وہ کبھی آپ کا مخلص نہیں ہو سکتا۔
انتخابی دائرہ (The Selective Circle): یہ فیصلہ کریں کہ کس کو اپنے گھر کے اندر آنے دینا ہے، اور کس کو نہیں! ہر شخص آپ کے کچن کی خوشبو اور آپ کے تعلق کی نزاکت کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا۔