مراقبہ برائے خاتون خانہ
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مراقبہ برائے خاتون خانہ)شوہر و بیوی کاروان حیات کے دو اہم رکن ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں شوہر اگر سائبان کا کردار ادا کرتا ہے تو بیوی اس سائبان کا اہم ستون ہے۔ شوہر اپنے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے اور بیوی بحیثیت خاتون خانہ اپنی لیاقت سے شوہر کی محنت و مشقت کی کمائی ہوئی رقم کا بجٹ ترتیب دیتی ہے۔
شوہر و بیوی مل کر اپنی نئی نسل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اچھی تربیت کے ذریعے معاشرے کو مفید شہری بہم پہنچاتے ہیں۔ اگلی نسل میں اپنی مذ ہیں، معاشرتی اور فکری اقدار منتقل کرتے ہیں۔ ان تمام اہداف GOALS کو پورا کرنا اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں میں ذہنی و جذباتی ہم آہنگی ہو، نیز ذہنی لحاظ سے دونوں پر سکون ہوں۔
قرآن مجید نے میاں بیوی کے تعلقات میں سکون اور محبت کی واضح نشاندہی کی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں عناصر گھر یلو تعلقات میں کس قدر ضروری اور اہمیت کے حامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری قسم سے جوڑے تخلیق کئے تاکہ تم تسکین پاؤ اور تمہارے مابین محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ بلاشبہ اس میں نشانی ہے ان کے لئے جو تفکر کرتے ہیں“۔(الروم۔ آیت ۲۱)
جب آپس میں سکون و محبت ہو تو دونوں زندگی میں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کر سکیں گے اور انہیں معاشرے کا مثالی اور مفید شہری بنا سکیں گے۔
سکون اور محبت کی ضد بے سکونی اور نفرت ہے۔ جہاں بے سکونی و بے چینی ہو وہاں وہاں غصہ ہوتا ہے۔ جب غصہ غالب آتا ہے تو عقل و شعور ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کیفیات میں جو حالات پیش آتے ہیں ان کے مظاہرے ہم اپنے معاشر ہ میں اکثر دیکھتے ہیں۔
میاں بیوی کے تعلقات میں بیوی کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ شوہر کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا ہے۔ گھریلو معاملات سے عورت کا تعلق زیادہ رہتا ہے مرد اس بارے میں کم جانتے ہیں۔
گھر میں وفا شعار، سلیقہ مند اور سمجھ دار بیوی کا وجود سراپا رحمت ہے۔ میاں بیوی کی محبت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شوہر باغ لگاتا ہے بیوی اسے سنوارتی اور آراستہ کرتی ہے۔
ایک مرتبہ سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کیا میں تمہیں بہترین خزانے کا پتہ نہ بتاؤں“ پھر فرمایا “وہ خزانہ نیک صالح بیوی ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو مسرت حاصل ہو۔ اسے کوئی حکم دو تو وہ اسے مان لے اور جب اس سے دور ہو تو وہ اپنی اور تمہاری ناموس اور گھر بار کی حفاظت کرے“۔ ایک اور حدیث ہے “دنیا سامان زینت ہے اور اس کی بہترین متاع صالح عورت ہے“۔
گھر کے فرائض کی خوش اسلوبی سے انجام دہی مستقل ایک کام ہے جس کا تمام تر بوجھ خاتون خانہ کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے کاموں کی اتنی لمبی لسٹ ہوتی ہے کہ صبح سے لے کر شام تک کام میں لگے رہنے کے باوجود کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے….. شوہر اور بچوں کے لئے ناشتہ بنانا، بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنا پھر شوہر کا ضروری سامان تیار رکھنا ، جوتے، موزے اور لباس کا مخیال رکھنا، شوہر کو دفتر پینے کے بعد گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا، دو پہر کے کھانے کی فکر کہ کیا پکے گا، کون سی ایسی ڈش پکائی جائے کہ سب خوشی خوشی کھالیں۔ کپڑوں کی دھلائی، رات کا کھانا اور دیگر کام انجام دینا پڑتے ہیں جن سے ذہن اور جسم دونوں تھک جاتے ہیں۔ جن گھروں میں ملازمین موجود ہوتے ہیں وہاں بھی خاتون خانہ کی ذمہ داریوں کو کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خاتون خانہ کو اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ بیماری سے تنہا وہی نہیں بلکہ گھر کے تمام افراد اور تمام کام متاثر ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ورزش بھی ضرور کرنا چاہئے۔ اب ورزش کے لیے کہاں سے وقت نکالیں….؟ غرض خاتون خانہ بہت سی ذمہ داریوں سے کم وقت میں نبرد آزما ہوتی ہیں۔ ایک خاتون خانہ کے سامنے بیک وقت دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
1۔ گھر یلو تعلقات 2- گھریلو کام
بعض خواتین خانہ گھریلو کاموں کی انجام دہی میں ذہنی و جسمانی طور پر اتنی تھک جاتی ہیں کہ بہتر گھر یلو تعلقات کے لئے انہیں وقت ہی نہیں ملتا۔ گھر یلو تعلقات میں ایک خاتون خانہ کا واسطہ سب سے پہلے شوہر سے پڑتا ہے۔ بچے بھی اس کی ممتا بھری توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر کمبائنڈ فیملی ہے تو ساس سسر اور دیور لند یا دیگر سے بھی اخلاقی وابستگی ضروری ہے۔ دوسرے رشتہ داروں اور ہمسایوں سے میل ملاپ کے لئے بھی وقت چاہئے ہوتا ہے۔ ایک زیرک اور سمجھ دار خاتونِ خانہ گھریلو امور اور تعلقات کے توازن کا خیال رکھتی ہے۔ ان تمام باتوں میں توازن کے لئے چند امور ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں۔
1۔ وقت کا صحیح استعمال یاد رکھئے ….! گھر کی دیکھ بھال عورت کے کاندھوں پر ہے پھر ڈھیر سارے کاموں کے بعد خاتون خانہ کو فراغت کے چند لمحے بھی نکالنے ہیں۔ تاکہ تھوڑی دیر تھکن اتار سکیں۔ اس لئے وقت کا صحیح استعمال سیکھیں۔ دنیا میں سب سے قیمتی چیز وقت ہے۔
2 نظم و ضبط کا خیال
وقت کا درست استعمال اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام دیا جائے۔ ایک ہی وقت میں سارے کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ آپ روز مرہ کاموں کا ٹائم ٹیبل بنائیں۔ شروع میں تو آپ کو الجھن ہو گی اور عجیب سما محسوس ہو گا مگر چند ہفتوں میں آپ خود میں نمایاں تبدیلی اور پابندی محسوس کریں گی۔
مختلف کاموں کو ایک ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ نمٹانے سے آپ کسی مرحلہ میں وقت اور کام کے بوجھ سے دو چار نہیں ہوں گی۔
-3 قوت برداشت پیدا کیجیے
گھر میں آپ کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد بھی رہتے ہیں۔ ان میں بچے اور بڑے سب ہی شامل ہیں۔ انہیں بھی آرام کرنے ، کھیلنے کودنے اور ستانے کا حق ہے۔ بچوں والے گھروں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ نے سفید براق بیڈ شیٹ بچھائی، چند گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ بچوں نے بیڈ شیٹ پر داغ دھبے لگادیئے ، آپ کمرے کی جھاڑ پونچھ کے بعد نکلی ہی تھیں کہ بچوں نے کاغذ کے ٹکڑے فرش پر پھیلا دیئے ، گندے پاؤں لے کر صوفے یا کرسیوں پر چڑھ گئے ، فرش پر چلغوزے، مونگ پھلی کے چھلکے پھینک دیئے وغیر وغیرہ۔ ایسی صورتوں میں غصہ سے بے حال نہ ہو جائیے
، بچوں کو مناسب سرزنش کی جاسکتی ہے مگر یہ توقع کرنا کہ بچے آپ کے دیئے گئے فریم ورک میں ہی زندگی گزاریں، ممکن نہیں ہے۔ بچے بہر حال بچے ہیں اگر شرارتیں نہ کریں ، کھیل کو د نہ کریں اور بڑوں کی طرح کام کریں تو وہ بچے کہاں رہے ….؟ ایک مرتبہ قلندر بابا اولیاء کے پاس ایک صاحب اپنے دو معصوم بچوں کے ہمراہ آئے۔ وہ صاحب پاس ادب میں بچوں کو اتنا سمجھا بجھا کر لائے تھے کہ وہ تک تک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق بیٹھے رہے۔ ان صاحب نے کچھ دیر کے بعد بابا صاحب سے کہا ” حضور یہ میرے بچے ہیں“۔
بابا صاحب بچوں کی خوف کی حد تک بڑھی ہوئی خاموشی کو کافی دیر سے ملاحظہ کر رہے تھے۔ آپ نے ان صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
ہمیں تو یہ بچوں کے بجائے بزرگ لگ رہے ہیں۔ بچوں کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ شرارتیں اور کھیل کود کرتے ہیں مگر ہم نے تو ان میں ابھی تک ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی”۔
بچوں کا شرارتیں کرنا تو ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ بچے شرارتیں کر رہے ہوں تو کیوں بلاوجہ غصہ کا اظہار کر کے اپنی توانائی ضائع کی جائے۔ اگر کبھی سختی بھی کرنا پڑے تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس میں بچوں کی اصلاح مقصود ہے۔
4- زندگی کو خوشگوار بنائیے سورہ روم کی آیت کا پچھلی سطروں میں ذکر کیا گیا جس میں تذکرہ ہے کہ جوڑے تخلیق کئے تاکہ تم تسکین پاؤ اور تمہارے مابین محبت اور رحمت پیدا کر دی“۔ قرآن مجید کی ایک اور آیت ہے: ” پھر وہ ان۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2019