مردوں کی نازک مگر پیچیدہ فطرت
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک خاتون مجھ سے کہنے لگیں، “سر، میرے شوہر غصے میں جو باتیں کہتے ہیں، وہ دل کو بہت چبھتی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اگر یہی بات کوئی اور کہے، تو اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟”
میں نے نرمی سے جواب دیا، “دیکھیے، جس سے ہمیں محبت ہو، جس سے دل کا رشتہ جڑا ہو، اُس کے الفاظ براہِ راست دل پر اثر کرتے ہیں۔ وہی انسان اگر سخت بات کہہ دے، تو وہ ہمیں اندر سے توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ ہم اُس سے صرف محبت ہی نہیں کرتے، بلکہ اُس سے توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نرمی سے پیش آئے گا۔”
وہ کچھ لمحے خاموش رہیں، پھر آہستہ سے بولیں، “بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے۔”
میں نے اُس کے چہرے پر سوچ کی گہرائی دیکھی، اور مزید کہا، “مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر غصے میں کہی باتیں ہم اتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں، تو محبت میں کہی باتیں ہمیں کیوں یاد نہیں رہتیں؟ جب کوئی ہماری پرواہ کرتا ہے، ہمارے لیے راتوں کو جاگتا ہے، چھوٹی چھوٹی خوشیاں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو ہم وہ سب لمحے کیوں بھول جاتے ہیں؟”
“جب وہ پیار سے ہمیں کہیں باہر لے جائے، ہمارے پسندیدہ پھل لے کر آئے، یا بنا کسی وجہ کے صرف ہمارے چہرے کی مسکراہٹ کے لیے کچھ اچھا کرے، تو وہ لمحے ہمارے دل میں ہمیشہ کے لیے کیوں نقش نہیں ہو جاتے؟”
“ہم اکثر ایک لمحے کی تلخی کو، برسوں کی محبت پر بھاری رکھ دیتے ہیں۔ شاید یہ انسان کی فطرت ہے۔ مگر اگر ہم سمجھ جائیں کہ انسان مکمل نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھی غصہ کرتا ہے، تو کبھی بے تحاشا محبت بھی کرتا ہے… تو ہم بہت سی الجھنوں سے بچ سکتے ہیں۔”
وہ غور سے میری بات سن رہی تھیں، ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آ گئی۔ میں نے موقع جان کر بات جاری رکھی:
“جب شوہر غصے میں کچھ سخت کہے، تو اُس وقت خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ بس مسکرا کر کہنا، ‘آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں’ یا ‘چلیں، آئندہ ایسا نہیں ہوگا’۔ مگر جب اُن کا موڈ اچھا ہو، تو نرمی سے اپنی بات رکھیں، وہی بات جسے غصے میں وہ رد کر چکے ہوں، پیار سے کریں گی تو وہ فوراً مان بھی جائیں گے۔”
“مرد تھوڑے الجھے ہوئے ضرور ہوتے ہیں، مگر بہت نرم دل بھی ہوتے ہیں۔ بس صحیح وقت پہ بات کی جائے، تو وہ آپ کی ہر بات سننے کو تیار ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کے پسندیدہ انداز میں—چائے، کافی یا کسی خاص کھانے کے ساتھ—تو بات اور بھی جلدی دل میں اتر جاتی ہے۔”
“یاد رکھیے، شادی کے بعد، والدین کے بعد سب سے زیادہ آپ کا خیر خواہ اور اپ کا ساتھ دینے والا آپ کا شریکِ حیات ہی ہوتا ہے۔”
یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔ وہ بھی سر ہلا کر ہلکے سے مسکرائی اور کہنے لگیں، “سر، آپ نے بالکل دل کی بات کی ہے… سچ میں، بات دل کو لگ گئی۔