مردہوناکافی نہیں انسان ہوناسیکھو”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ رشتے دعاؤں سے نہیں، صبر سے جڑتے ہیں۔
اور کچھ بندھن ایسے ہوتے ہیں جنہیں نبھانے کے لیے دل بڑا کرنا پڑتا ہے، دلیل نہیں۔۔۔۔۔!!
شادی وہ معاہدہ نہیں جو دو افراد کو صرف ایک چھت تلے لاتا ہے، بلکہ وہ امتحان ہے جہاں مرد کو سب سے پہلے اپنی مردانگی کو طاق پر رکھ کر انسان بننا پڑتا ہے۔ عورت کو سمجھنا آسان کام نہیں، اور شاید اللہ نے یہ آسانی مرد کے نصیب میں رکھی بھی نہیں۔ اگر وہ چاہتا تو دونوں کو ایک جیسے بناتا۔ لیکن نہیں، اس نے عورت کو جذبات کا عکس بنایا، اور مرد کو ان جذبات کا محافظ۔۔۔۔۔!!!!
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضهم علی بعض وبما أنفقوا من أموالهم”
(النساء 4:34)
ترجمہ: “مرد عورتوں کے نگہبان ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔”
تو جناب! یہ جو نگہبان والی بات ہے، یہ صرف کھانا کھلانے، بل دینے یا ڈرائیو کرنے تک محدود نہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ جب بیوی تھک جائے تو اس کے لفظوں کی تلخی نہ گنو، بلکہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دو۔
جب وہ رو دے تو آنکھوں میں آنسو نہ تلاش کرو، بلکہ بات کے پیچھے چھپی تھکن کو محسوس کرو۔
یہ حفاظت صرف جسمانی یا مالی نہیں، جذباتی، نفسیاتی اور عزتِ نفس کی بھی ہے۔ لیکن آج کے مرد کو قوامیّت صرف حاکمیت سمجھ آتی ہے، کفالت نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں شادی سب سے زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ ہم مرد جب ہر اختلاف کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ جب ہم عورت کی نرمی کو کمزوری، اور اس کے سوال کو گستاخی سمجھ لیتے ہیں۔
لیکن ہم آج بھی عورت کو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ ہم قوام ہونے کی دعویٰ میں عورت کی زبان، آنکھ، رویہ، آواز، سب پر گرفت چاہتے ہیں، لیکن اپنے صبر پر نہیں۔
ہم چاہتے ہیں وہ کبھی تھکے نہ، کبھی روئے نہ، کبھی سوال نہ کرے۔
اور اگر کسی دن وہ کچھ غلط بول دے، یا کسی بات میں کوتاہی ہو جائے، تو یاد رکھو کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“عورتوں کے بارے میں خیر خواہی کی وصیت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کا اوپر کا حصہ ہوتا ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دو گے، اور اگر اسے یوں ہی چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہے گی، پس عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔”
(صحیح بخاری: 3331)
تو بھائی! عورت ناقصُ العقل نہیں، مکمل جذبات کی تصویر ہے۔اسے بحث نہیں، محبت کی ضرورت ہے۔
اسے جیتنے کے لیے جملے نہیں، صرف تھوڑا سا صبر درکار ہے
لیکن یاد رکھو، اگر وہ سب کچھ سہہ جائے تو وہ بیوی نہیں، غلام ہوگی۔
اور غلامی میں محبت نہیں پنپتی، صرف دکھ پلتے ہیں۔
ازدواجی زندگی کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں رشتے احساس سے چلتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رشتے برداشت سے چلتے ہیں۔
عورت اگر ذرا تلخ بول دے، تو مرد اپنی “مردانگی” دکھانے بیٹھ جاتا ہے۔ حالانکہ اصل مرد وہ ہے جو عورت کے غصے میں اس کی تھکن پہچانے، اس کے لفظوں میں چھپی بے بسی سنے، اور جواب میں آواز نہیں، ہاتھ تھامے۔
مرد ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ روزی لا رہے ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ آپ روز رشتہ بھی بچا رہے ہیں۔
بیوی اگر کسی دن کچھ غلط کہہ دے، یا کوئی کمی رہ جائے، تو اسے “ناقص العقل” کہنے سے پہلے یاد رکھو کہ وہ تمہارے وجود میں محبت کا رنگ بھرنے آئی تھی۔
اور “ناقص” وہ نہیں ہوتی جو جذباتی ہو جائے، “ناقص” وہ ہوتا ہے جو محبت کو برداشت نہ کر سکے۔
شادی سمجھوتے کا نام نہیں۔
یہ وہ سفر ہے جہاں ہر روز کچھ ترک کرنا ہوتا ہے، کچھ نیا سیکھنا ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ عورت عزت سے جیتی ہے۔ تم اس کی غلطیوں پر خاموش ہو سکتے ہو، لیکن اگر تم نے اس کی عزت پر ضرب لگائی تو یقین کرو، وہ کبھی تمہاری محبت پر یقین نہیں کرے گی۔
گھڑی اگر وقت بتاتی ہے، تو ازدواجی زندگی میں وہ صبر کی علامت بھی ہے۔
جب دونوں ہاتھوں میں ایک ہاتھ ہو، اور ایک دوسرے کے زخموں کو تھامنے کی ہمت ہو، تب ہی رشتے بنتے ہیں۔ ورنہ تو ہم سب صرف “شوہر” کہلاتے ہیں، “ساتھی” کبھی نہیں بنتے۔
تو مرد ہو؟
ٹھیک ہے، مگر تھوڑا سا انسان بن کر دیکھو۔۔۔!!
رشتہ شاید وہیں سے شروع ہو۔۔۔۔۔!!!.