مر کے بھی نہ چین پایا
تو کدھر جائیں گے ۔۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )چاند کو کیوں لگتا ہے کہ وہ اکیلا ہے
اس کے پاس آسمان ہے،ستارے ہیں۔
ایک ہم ہیں جو صرف خدا کے آسرے پہ چھوڑے ہوئے ہیں ۔😥
کہتے ہیں”یہ عورت رونے والوں میں سے نہیں رلانے والوں میں سے ہے”
ہے تو وہ ایک عورت ہی نا؟
کمزور تو وہ بھی پڑ سکتی ہے ۔{ درد اتنا کہ جان سے گزر جانا چاہا }
اس کا بھی دل چاہتا ہے کوئی اسے تب سمجھے جب وہ خود سے الجھ رہی ہو، کوئی آنکھوں سے کیفیت جان لے اور اپنا کاندھا آگے کر دے،
ہر بار اسے بتانا نہ پڑے
“I am in Pain”
اسے چیخ چیخ کر نہ کہنا پڑے
“I can’t do it anymore “
کوئی اسے سنبھالے اور وہ سنبھل جائے، کوئی گود میں سر رکھے، بال سہلائے اور وہ سو جائے۔
اتنی سی خواہش پوری کرنے کے لیے بھی ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں؟
یہ تو Basic need ہے۔
کیا میں غلط ہوں ؟
چپ رہو!
کیا بکتی رہتی ہو؟
اداسی ؟
بیزاریت؟
خاموشی؟
ویرانی؟
سُونا پن؟
دل کا بنجر ہو جانا؟
کیا ہے یہ سب؟
جاؤ دوستوں سے ملو۔
( نہیں ہیں)
پھولوں سے باتیں کرو!
چاند کو ہم راز بناؤ!
کسی غم خوار سے ملو اور دونوں مل کر مہکو!
(دونوں مرجھا چکے)
چہل قدمی کرو!
(اتنے بھاری دل کے ساتھ نہیں ہوتی)
اوہ۔۔۔تمہیں لگتا ہے یہ سب مجھے خوش کر دے گا ؟
“موت کے علاوہ ایسا کچھ نہیں جو آدمی کو غم سے نجات دے سکے”
{۔مر کے بھی نہ چین پایا تو کدھر جائیں گے۔}
کسی دن اہلِ دُنیا سے بہت دُور
خدا کے بازوؤں میں جا کے روئیں گے
خورشید رضوی
انتخاب ساون ساگر