Daily Roshni News

مسلم اُمّت کے زوال کی اصل وجوہات اور نجات کا راستہ

مسلم اُمّت کے زوال کی اصل وجوہات اور نجات کا راستہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) حصہ اوّل   (قرآن سے دوری، اخلاقی زوال، علم کی تباہی، اور روحانی انحطاط)تمہیدی کلمات:ہم کہاں تھے، اور کہاں آ گئے؟

یہ سوال صرف تاریخ کا نہیں، **ضمیر کا سوال** ہے۔ ایک وقت تھا جب: * مسلمان **دنیا کا ضمیر** تھا * علم کا **مرکز** تھا * عدل کا **نمونہ** تھا * اخلاق کا **معیار** تھا * اور طاقت کا **توازن** تھا اور آج: * ہم مظلوم بھی ہیں * منتشر بھی ہیں * کمزور بھی * محتاج بھی * اور فکری طور پر غلام بھی یہ زوال: * نہ راتوں رات آیا * نہ صرف بیرونی سازش کا نتیجہ ہے یہ ایک **روحانی، اخلاقی اور فکری انہدام** کا انجام ہے جو صدیوں میں مکمل ہوا۔

باب اوّل: قرآن سے عملی دوری — زوال کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی وجہ

  1. قرآن: انقلاب کی کتاب سے ثواب کی کتاب تک

قرآن جب نازل ہوا تو: * وہ صرف تلاوت کے لیے نہیں تھا * وہ **انقلاب کی دستاویز** تھا * وہ **نظامِ حیات** تھا * وہ **ریاست کا آئین** تھا * وہ **کردار کی بنیاد** تھا

صحابہؓ کا طریقہ یہ تھا: * ایک آیت سیکھتے * اس پر عمل کرتے * پھر اگلی آیت سیکھتے آج ہمارا حال یہ ہے: * ہم پورا قرآن پڑھ لیتے ہیں * مگر ایک آیت بھی زندگی میں داخل نہیں ہوتی قرآن کہتا ہے: “یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، متقیوں کے لیے ہدایت ہے” لیکن ہم نے اسے: * قبروں تک محدود کر دیا * تعویذ بنا دیا * رسموں کا حصہ بنا دیا

نتیجہ: جب ہدایت کی کتاب کو برکت کی رسم بنا دیا جائے، تو قوم اندھی ہو جاتی ہے۔

  1. سیرت: نقشۂ انقلاب سے صرف میلاد کی تقریر تک

نبی کریم ﷺ کی سیرت: * صرف عبادت کا نمونہ نہیں * وہ **ریاست، عدل، جنگ، صلح، معیشت، سیاست، خاندان** سب کچھ ہے لیکن آج: * سیرت کا ذکر صرف: * جلوس   * نعت   * چند جذباتی تقاریر     تک محدود رہ گیا ہے

ہم نے: * نبی ﷺ کے کردار سے اخلاق نہیں لیا * ان کے نظام سے ریاست نہیں لی

* ان کی دیانت سے معیشت نہیں لی ہم نے صرف: * نام پر جذبات رکھے * نظام سے فرار اختیار کیا

  1. قرآن کی زبان اور شعور سے غفلت

ابتدائی مسلمان: * قرآن **سمجھ کر** پڑھتے تھے * ہر حکم زندگی میں نافذ ہوتا تھا

آج: * اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ:   * وہ روز کیا پڑھ رہی ہے   * اس کا مفہوم کیا ہے   * حکم کیا ہے     یہ وہ مرحلہ تھا جہاں سے: قرآن دلوں سے نکلا اور صرف ہونٹوں پر رہ گیا۔ اور جب: قرآن دل سے نکل جائے، تو اللہ کی نصرت بھی نکل جاتی ہے۔

باب دوم: اخلاقی زوال — جب کردار ٹوٹتا ہے تو استقامت بھی ٹوٹ جاتی ہے

  1. صداقت کا خاتمہ

نبی ﷺ نے فرمایا: “سچ آدمی کو نیکی تک لے جاتا ہے، اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے” آج: * جھوٹ سیاست میں کامیابی * جھوٹ تجارت میں ہنر * جھوٹ سوشل میڈیا کی شناخت یہ وہ مقام ہے جہاں: قوم سچ سے نہیں، فائدے سے حق طے کرنے لگتی ہے۔

  1. امانت کا قتل

نبی ﷺ نے فرمایا: “جب امانت ضائع ہو جائے تو قیامت کا انتظار کرو” آج: * خزانے خالی * حساب جھوٹا * ادارے لوٹ مار کے اڈے * عوام صرف استعمال کی شے

امانت: * سیاست سے گئی * تجارت سے گئی * تعلیم سے گئی * مذہب کی تبلیغ سے بھی کمزور پڑ گئی

  1. ظلم کا عام ہو جانا

اسلام میں: * ایک انسان پر ظلم، پوری انسانیت پر ظلم ہے آج: * باپ بیٹے پر ظلم کرتا ہے

* مالک مزدور کا حق کھاتا ہے * حاکم عوام کو روندتا ہے * اور کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں قرآن کہتا ہے: “ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے” لیکن ہم: * ظلم کو چالاکی سمجھنے لگے ہیں

باب سوم: علم کا زوال — جب قوم نے سوال کرنا چھوڑ دیا

  1. ایک وقت تھا: مسلمان علم کے امام تھے

مسلمانوں کے: * ہسپتال تھے * آبزرویٹریاں تھیں * یونیورسٹیاں تھیں * ریسرچ لیبارٹریاں تھیں اور یورپ: * اندھیروں میں تھا * کلیسا کے جبر میں تھا مسلمانوں کے کتب خانوں سے: * یورپ نے علم چرایا * نشاۃِ ثانیہ شروع ہوئی * اور آج وہ ہم پر حاوی ہے

  1. پھر ہم نے علم کو دو حصوں میں بانٹ دیا

ہم نے کہا: * یہ دینی علم ہے * یہ دنیاوی علم ہے اور پھر: * دینی علم صرف مسجد تک

* دنیاوی علم صرف روزگار تک

نتیجہ: * دین عمل سے خالی * دنیا اخلاق سے خالی     یہی اصل تباہی تھی۔

  1. تحقیق سے فرار

آج مسلم دنیا میں: * اصل تحقیق کم * نقل زیادہ * ایجاد کم * درآمد زیادہ ہم: * دوسروں کی ٹیکنالوجی خریدتے ہیں * دوسروں کی دوائیں کھاتے ہیں * دوسروں کا نظام استعمال کرتے ہیں * پھر انہی کو گالیاں دیتے ہیں یہ اصل فکری غلامی ہے۔

باب چہارم: روحانی موت — جب دل زندہ نہ رہے

  1. عبادت رہ گئی، روح نکل گئی

نماز: * جسم سے ہوتی ہے * دل شامل نہیں ہوتا روزہ: * بھوک ہے * مگر تقویٰ نہیں

حج: * سفر ہے * مگر تبدیلی نہیں یہ وہ مرحلہ ہے جہاں: عبادت رسم بن جاتی ہے، اور رسم کبھی انقلاب نہیں لاتی۔

  1. ذکر سے غفلت

پہلے: * دل اللہ کے ذکر سے آباد تھے * خوف بھی تھا * محبت بھی تھی آج: * دل خواہشات سے بھرا ہے * خوف صرف دنیا کا * محبت صرف مفاد کی

✦ حصہ اوّل کا خلاصہ

اس پہلے حصے میں ہم نے دیکھا کہ:

  1. قرآن زندگی سے نکل گیا

  2. سیرت نظام سے ہٹ گئی

  3. اخلاق ٹوٹ گیا

  4. سچ اور امانت ختم ہونے لگے

  5. علم چھوڑ دیا گیا

  6. تحقیق ختم ہو گئی

  7. عبادت روح سے خالی ہو گئی

  8. دل مردہ ہونے لگے

یہ سب: زوال کی بنیاد تھے، عمارت بعد میں گری۔

🔔 ابتدائی Wake-Up Call (حصہ اوّل کا)

اگر آج بھی: * ہم قرآن کو صرف پڑھتے رہے * مگر نافذ نہ کیا * اخلاق پر بات کی * مگر خود بدلے نہیں * علم پر لیکچر دیے * مگر سیکھا نہیں تو یاد رکھیں: ہمیں کوئی دشمن تباہ نہیں کرے گا، ہم خود اپنے ہاتھوں سے خود کو مٹاتے رہیں گے۔

✦ حصہ دوم

فرقہ واریت، قیادت کا بحران، سیاسی انحطاط، عدل کا خاتمہ، خاندانی نظام کی تباہی اور بیرونی سازشوں کی حقیقت

تمہیدی گفتگو (حصہ دوم کی سمت)

پہلے حصے میں ہم نے دیکھا کہ: * قرآن سے عملی دوری * اخلاقی زوال * علم و تحقیق سے فرار * روحانی موت   کس طرح اُمّت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر چکے۔ اب اس دوسرے حصے میں ہم **وہ سماجی اور سیاسی کینسر** دیکھیں گے جنہوں نے اس کھوکھلی عمارت کو مکمل زمین بوس کر دیا: * فرقہ واریت * قیادت کی نااہلی * سیاست کا اخلاق سے جدا ہو جانا * عدل کا مٹ جانا * خاندان کا ٹوٹ جانا * اور بیرونی سازشوں کا کھیل  یہ وہ مرحلہ ہے جہاں زوال صرف **روحانی نہیں رہا، بلکہ اجتماعی، ریاستی اور عالمی** بن گیا۔

باب پنجم:   فرقہ واریت — اُمّت کی رگوں میں اترا ہوا زہر

  1. قرآن کا حکم: اتحاد

اللہ تعالیٰ صاف حکم دیتا ہے: “اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔” لیکن تاریخ کا المناک المیہ یہ ہے کہ: * ہم نے **اللہ کی رسی کو چھوڑا** * اور **اپنی اپنی رسیاں مضبوطی سے پکڑ لیں**

فقہی اختلاف:  * رحمت تھا * علمی وسعت تھا لیکن جب: * یہ اختلاف نفرت بنا * اور نفرت تشدد میں بدلی تو یہ اختلاف نہیں رہا، **فرقہ واریت** بن گیا۔

  1. فرقہ واریت کب تباہ کن بنتی ہے؟

فرقہ واریت اُس وقت قاتل بن جاتی ہے جب: * ہم دلیل کے بجائے گالی استعمال کریں * ہم اصلاح کے بجائے تکفیر کریں * ہم مکالمے کے بجائے قتل کو ترجیح دیں * ہم دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کو گرانا شروع کریں تاریخ گواہ ہے: * بغداد تاتاریوں سے صرف اس لیے نہیں ٹوٹا کہ دشمن طاقتور تھا * بلکہ اس لیے کہ **مسلمان آپس میں ٹوٹے ہوئے تھے** یہی اصول: * اندلس میں لاگو ہوا * یہی شام میں ہوا * یہی پاکستان، عراق، شام، یمن، لیبیا میں آج ہو رہا ہے

  1. فرقہ واریت کا سب سے بڑا فائدہ کس کو ہوا؟

یہ بہت تلخ حقیقت ہے: * فرقہ واریت کا فائدہ:   * یہودی لابی کو ہوا   * استعماری طاقتوں کو ہوا   * سامراجی نظام کو ہوا

کیونکہ: جو قوم آپس میں لڑ رہی ہو، اس پر حکومت کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔

ہم: * ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں لگے رہے * اور دوسرے ہمیں غلام بنانے میں لگے رہے

باب ششم:   قیادت کا بحران — جب قوم کے سر پر نااہل لوگ سوار ہو جائیں

  1. قیادت قوم کا آئینہ ہوتی ہے

جیسے لوگ ہوتے ہیں، ویسی ہی قیادت پیدا ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: “جس قوم میں قیادت نااہل کے ہاتھ میں چلی جائے، اس کے ہلاک ہونے کا انتظار کرو۔” آج مسلم دنیا کی قیادت کا عمومی نقشہ: * اخلاق سے خالی * ذاتی مفاد سے بھری ہوئی * کرپشن میں ڈوبی ہوئی * طاقت کے نشے میں مست * عوام سے کٹی ہوئی

  1. خلافت سے آمریت تک کا سفر

ابتدائی دور میں: * خلیفہ عوام کے سامنے جواب دہ تھا * خلیفہ سادہ زندگی گزارتا تھا

* خلیفہ احتساب سے نہیں بھاگتا تھا پھر آہستہ آہستہ: * خلافت، ملوکیت میں بدلی

* ملوکیت، آمریت میں بدلی * اور آج یہ خاندانی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں تک پہنچ گیا

جہاں: * عوام صرف تماشائی * اور حکمران مقدر لکھنے والے بن گئے

  1. کرپشن — قیادت کی سب سے بڑی پہچان

مسلم ممالک میں: * خزانے لوٹ لیے گئے * قرض پر قرض لیا گیا * ادارے تباہ ہوئے

* عوام بھوکے رہے * اور حکمران محلات میں رہے یہ وہ مقام ہے جہاں: ریاست عبادت گاہ نہیں، لوٹ مار کا مرکز بن جاتی ہے۔

باب ہفتم:   سیاست کا اخلاق سے جدا ہو جانا

  1. اسلامی سیاست کا تصور

اسلامی سیاست کا مطلب تھا: * مشاورت * انصاف * عوام کی خدمت * کمزور کا تحفظ

* طاقتور کا احتساب لیکن آج کی سیاست: * جھوٹ کا کاروبار * وعدوں کی نیلامی

* ضمیر کی خرید و فروخت * اور عوام کے نام پر اقتدار کی لوٹ

  1. سیاست عبادت کے بجائے کاروبار بن گئی

آج: * سیاست میں آنے والا اکثر:   * مال بنانے آتا ہے   * اختیارات سمیٹنے آتا ہے

  * خاندان کو سیٹ کرنے آتا ہے نہ اسے: * قوم کی فکر * نہ دین کا درد * نہ آخرت کا خوف

باب ہشتم: عدل کا خاتمہ — جب انصاف بکتا ہے تو قوم مرتی ہے

  1. عدل اسلام کی روح ہے

قرآن کہتا ہے: “اللہ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔” عدل نہ ہو تو: * عبادات بے وزن ہو جاتی ہیں * دعائیں آسمان تک نہیں پہنچتیں * قیادت ظالم بن جاتی ہے * عوام باغی بن جاتے ہیں

  1. آج کا تلخ منظرنامہ

آج مسلم معاشرے میں: * طاقتور کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا * غریب عدالت کے چکر کاٹ کاٹ کر مر جاتا ہے * سفارش انصاف سے زیادہ طاقتور ہے یہ وہ مقام ہے جہاں: عدل کا جنازہ اٹھتا ہے اور ظلم ریاستی پالیسی بن جاتا ہے۔

باب نہم: عورت اور خاندانی نظام کی تباہی — اُمّت کے اندرونی قلعے کا ٹوٹ جانا

  1. خاندان: اُمّت کی بنیادی اکائی

اسلام میں: * خاندان کو معاشرے کی بنیاد بنایا گیا * ماں کو تربیت کی فیکٹری قرار دیا گیا

* باپ کو ذمہ داری کا ستون بنایا گیا جب خاندان مضبوط تھا: * اُمّت مضبوط تھی

  1. مغربی تہذیب کی اندھی نقالی

مسلم دنیا میں: * آزادی کے نام پر فحاشی * ماڈرن ہونے کے نام پر بے حیائی * عورت کو ماں کے بجائے “مارکیٹ پروڈکٹ” بنا دینا * مرد کو ذمہ داری کے بجائے عیاشی کی راہ پر ڈال دینا یہ سب: صرف اخلاقی جرم نہیں، **تہذیبی خودکشی** ہے۔

  1. طلاق، بے راہ روی اور اولاد کا بگاڑ

آج: * طلاق عام * بدکاری عام * والدین کا احترام کم * اولاد بغاوت پر آمادہ جب: گھر میں نظام ٹوٹ جائے، تو ریاست کا نظام کیسے بچے؟

باب دہم:   بیرونی سازشیں — حقیقت، مگر مکمل سبب نہیں

اب ایک نہایت حساس اور توازن والی بات: ہاں! یہ سچ ہے کہ: * استعماری طاقتوں نے:   * مسلم وسائل لوٹے   * سرحدیں مصنوعی بنائیں   * غلام حکومتیں مسلط کیں   * تعلیم، میڈیا اور معیشت پر قبضہ کیا  لیکن قرآن کا اصول اٹل ہے: “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔” یعنی: دشمن صرف وہاں گھستا ہے جہاں دروازہ اندر سے کمزور ہو۔

  1. ہمیں ہمیشہ “سازش تھیوری” کیوں پسند آتی ہے؟

اس لیے کہ: * اس میں اپنی غلطی ماننا نہیں پڑتی * سارا الزام دوسروں پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے: دشمن نے تیر چلایا، مگر ڈھال تو ہم نے خود گرائی تھی۔

✦ حصہ دوم کا جامع خلاصہ

اس حصے میں ہم نے دیکھا کہ:

  1. فرقہ واریت نے اُمّت کو اندر سے کھوکھلا کیا

  2. نااہل قیادت نے اجتماعی شعور کو مفلوج کیا

  3. سیاست اخلاق سے جدا ہو گئی

  4. عدل بکتا رہا اور ظلم بکتا رہا

  5. خاندان ٹوٹا تو سماج بکھر گیا

  6. بیرونی دشمن نے اسی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھایا

یہ سب مل کر: اُمّت کے اجتماعی زوال کا مکمل نقشہ بناتے ہیں۔

🔔 Wake-Up Call (حصہ دوم کا اختتامی جھٹکا)

اگر آج بھی:

* ہم فرقے کی پہچان کو “اسلام” سے بڑا سمجھتے رہے

* ہم ووٹ ذات اور برادری پر دیتے رہے، کردار پر نہیں

* ہم رشوت دے کر کام نکلوانے کو “ہنر” سمجھتے رہے

* ہم بیٹی کو آزادی کے نام پر تحفظ سے محروم کرتے رہے

* اور ہر ناکامی کا الزام صرف “یہودی سازش” پر ڈالتے رہے

تو اللہ کی قسم: نہ ہماری نسل بچ سکے گی نہ ہماری ریاست نہ ہمارا نام نہ ہماری تاریخ

ہم صرف: ایک مظلوم یادداشت بن کر رہ جائیں گے۔

✦ حصہ سوم (حتمی حصہ)

نفسیاتی غلامی، دنیا پرستی، معاشی جکڑ بند، ذہنی یلغار، اور اُمّت کی عملی بحالی کا مکمل منصوبہ

تمہید (حصہ سوم کی فکری سمت)

پہلے دو حصوں میں ہم نے دیکھا کہ: * قرآن سے دوری * اخلاقی زوال * فرقہ واریت

* نااہل قیادت * عدل کا خاتمہ * سیاست کی تباہی * خاندان کا ٹوٹنا * بیرونی سازشیں

کس طرح اُمّت کو اندر سے توڑ چکے ہیں۔ اب اس تیسرے حصے میں ہم اُس **گہرے نفسیاتی، فکری اور معاشی قید خانے** میں جھانکیں گے جہاں آج کی مسلمان قوم قید ہے، مگر اسے اپنی زنجیریں بھی زیور لگتی ہیں۔ یہ حصہ دراصل: اُمّت کے زوال کی آخری تہہ اور اُمّت کی بحالی کی پہلی اینٹ دونوں کو بے نقاب کرتا ہے۔

باب یازدہم: دنیا کی محبت اور موت کا خوف — اُمّت کی سب سے خاموش قاتل بیماری

  1. نبی ﷺ کی پیش گوئی

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “قریب ہے کہ دوسری قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔” صحابہؓ نے پوچھا: کیا اُس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ فرمایا: “نہیں، تم تعداد میں بہت زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہو گے، اور اللہ تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا رعب نکال دے گا، اور تمہارے دل میں ‘وہن’ ڈال دے گا۔” پوچھا گیا: وہن کیا ہے؟ فرمایا: “دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔” یہ حدیث آج کی مسلم دنیا کی **سو فیصد تشخیص (Diagnosis)** ہے۔

  1. دنیا کی محبت کیسے ہمارا قبلہ بدل دیتی ہے؟

دنیا کی محبت یہ نہیں کہ آدمی رزق کمائے، گھر بنائے، کاروبار کرے۔ دنیا کی محبت یہ ہے کہ: * حلال و حرام کی تمیز مٹ جائے * دولت مقصدِ حیات بن جائے * عزت کردار کے بجائے پیسے سے ناپی جائے * فساد پر خاموشی کو “دانشمندی” سمجھا جائے * ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کو “بے وقوفی” کہا جائے آج: * مولوی بھی پیسے کے حساب سے خاموش یا گویا ہو جاتا ہے * صحافی بھی مفاد کے مطابق سچ بدل لیتا ہے * سیاست دان بھی اقتدار بچانے کے لیے نظریہ بیچ دیتا ہے یہ سب: دنیا کی محبت کی مختلف شکلیں ہیں۔

  1. موت کا خوف اور بزدلی

آج مسلم دنیا کا سب سے سنگین بحران: “زندہ رہنے کی حد سے بڑھی ہوئی ہوس”

 ہم: * جان بچانے کے لیے ایمان بیچ دیتے ہیں * نوکری بچانے کے لیے سچ چھپا لیتے ہیں * جان و مال کی حفاظت کے لیے ظالم کا ساتھ دے دیتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے: “کہہ دو! اگر تم اللہ کے راستے میں مارے جاؤ یا مر جاؤ، تو اللہ کی مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ سب جمع کرتے ہیں۔” مگر آج: ہماری بقا، ایمان سے زیادہ قیمتی ہو چکی ہے۔

باب دوازدہم: معاشی غلامی — جب اُمّت کے ہاتھ میں قرآن ہو مگر معیشت دشمن کے ہاتھ میں ہو

  1. سودی نظام — زوال کا خاموش بم

قرآن نے سود کو: اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ قرار دیا۔ لیکن آج: * ہماری حکومتیں سود پر چل رہی ہیں * ہمارے بینک سود پر قائم ہیں * ہماری معیشت سود پر زندہ ہے

* ہمارے بجٹ سود کی قسطوں میں دفن ہو جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ: مسلمان ریاستیں سیاسی نہیں، **معاشی کالونیوں** میں بدل چکی ہیں۔ ہم نام کے آزاد ہیں، لیکن معیشت کے غلام ہیں۔

  1. عالمی مالیاتی ادارے — جدید سامراج

آج: * آئی ایم ایف * ورلڈ بینک * عالمی مارکیٹ کا سودی ڈھانچہ یہ سب: جدید دور کے وہ فرعون ہیں جن کے ہاتھ میں آج کی قوموں کی گردنیں ہیں۔ مسلمان ممالک: * قرض لیتے ہیں * پھر شرائط مانتے ہیں * پھر اپنی پالیسیاں بدلتے ہیں * پھر اپنی عوام پر ٹیکس کا کوڑا برساتے ہیں اور یوں: ریاست کی رگوں میں خون نہیں، قرض دوڑتا ہے۔

  1. وسائل کی موجودگی، پھر بھی غربت

مسلم دنیا کے پاس: * تیل * گیس * معدنیات * سمندری راستے * انسانی افرادی قوت سب کچھ ہونے کے باوجود: * فلسطینی بھوکا * یمنی مر رہا * افغانی بے گھر * افریقی مسلمان ننگا * ایشیائی مسلمان مقروض اس کی وجہ: وسائل پر قبضہ اُمّت کا نہیں، اُمّت کے دشمنوں کا ہے۔

باب سیزدہم: ذہنی غلامی — جب قوم کا جسم آزاد ہو مگر دماغ قید ہو

  1. فکری یلغار کا آغاز

جب استعماری طاقتیں یہاں سے نکلیں تو: * فوجی قبضہ تو ختم ہوا * مگر فکری قبضہ شروع ہو گیا انہوں نے: * نصاب بدلا * تاریخ مسخ کی * ہیرو بدل دیے * اقدار بدل دیں

* شرم کو دقیانوسیت بنا دیا * بے حیائی کو آزادی بنا دیا آج: ہمارا نوجوان مسلمان جسم رکھتا ہے، مگر مغربی ذہن کے ساتھ سوچتا ہے۔

  1. نصاب کی تباہ کاری

آج کے نصاب میں: * ایمان “نجی شے” بن چکا ہے * جہاد “شدت پسندی” بن چکا ہے

* خلافت “پرانی کہانی” بن چکی ہے * اسلامی تاریخ “ضمناً” پڑھائی جاتی ہے * مغربی مفکرین “ہیرو” بنا دیے گئے ہیں نتیجہ: اُمّت کی نئی نسل اپنی شناخت ہی بھول چکی ہے۔

باب چهاردہم: میڈیا — وہ ہتھیار جو بغیر خون بہائے پوری قوم کو زخمی کرتا ہے

  1. میڈیا کا اصل کردار

میڈیا: * صرف خبر نہیں دیتا * وہ “سوچ” پیدا کرتا ہے * وہ “ذوق” بناتا ہے * وہ “نفرت” پیدا کرتا ہے * وہ “ہیرو” گھڑتا ہے * وہ “غدار” بھی بناتا ہے

آج مسلم دنیا کا میڈیا: * فحاشی کو فروغ دے رہا ہے * ایمان کو مذاق بنا رہا ہے * دین دار کو شدت پسند دکھا رہا ہے * بے دین کو کامیاب آئیڈیل بنا رہا ہے

  1. ڈرامہ، فلم اور اخلاقی قتل

آج کے ڈرامے: * زنا کو رومان بنا کر دکھاتے ہیں * طلاق کو معمول بنا دیتے ہیں * ماں باپ کو بوجھ بنا کر دکھاتے ہیں * شوہر کو ظالم * بیوی کو باغی یہ سب: گھروں میں خاموش فکری دہشت گردی ہے۔

باب پانزدہم: اُمّت کی بحالی کا عملی روڈمیپ — صرف نعرے نہیں، عملی مراحل

اب اصل سوال:

تباہی کی یہ کہانی تو واضح ہے، اب نجات کیسے ملے؟ یہاں چند نعرے نہیں، بلکہ **مرحلہ وار عملی راستہ** بیان کیا جا رہا ہے۔

پہلا مرحلہ: فکری و ایمانی احیا * قرآن کے ساتھ عملی تعلق * مسلکی شناخت سے پہلے “مسلم” شناخت * اللہ پر توکل * آخرت کا یقین * موت کو حقیقت ماننا یہ بنیاد بنے بغیر: کوئی سیاسی یا معاشی انقلاب ممکن نہیں۔

دوسرا مرحلہ: علم اور شعور کی واپسی

* دینی اور دنیاوی علم کا امتزاج * تحقیق، سائنس، ٹیکنالوجی میں خود کفالت * تقلید کے بجائے اجتہاد * نصاب کی اسلامی تشکیلِ نو

تیسرا مرحلہ: عدل پر مبنی معاشرہ

* صرف خطبوں میں نہیں، قانون میں عدل * طاقتور کا احتساب * غریب کی فوری داد رسی * رشوت کے خلاف زیرو ٹالرنس

چوتھا مرحلہ: خاندانی نظام کی بحالی

* نکاح کو آسان * زنا کو مشکل * والدین کا احترام * ماں کا تقدس * باپ کی ذمہ داری

پانچواں مرحلہ: معاشی خود مختاری

* سود سے بتدریج نجات * اسلامی بینکاری کی اصلاح * مقامی صنعت * وسائل پر قومی کنٹرول * قرض کے جال سے آزادی

چھٹا مرحلہ: میڈیا اور نصاب کی اصلاح

* فحاشی کے بجائے فکری مواد * اسلامی اقدار پر ڈرامہ و فلم * بچوں کے لیے ایمان پر مبنی مواد * مغربی ذہنی غلامی کا خاتمہ

ساتواں مرحلہ: قیادت کی تطہیر

* کردار کی بنیاد پر قیادت * دولت کی بنیاد پر نہیں * عوامی احتساب * کرپشن پر بے رحمانہ ہاتھ

🔔 Final Wake-Up Call — اب بھی نہ جاگے تو تاریخ ہمیں دفن کر دے گی

اے مسلمانو! اب مسئلہ یہ نہیں کہ: * دشمن طاقتور ہے * سازشیں ہیں * حالات خراب ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ: تم خود اندر سے ہار چکے ہو۔ تم: * ظلم دیکھ کر خاموش ہو

* بے حیائی دیکھ کر مسکرا دیتے ہو * جھوٹ دیکھ کر فائدہ اٹھا لیتے ہو * سود دیکھ کر کہتے ہو “مجبوری ہے” * بددیانتی دیکھ کر کہتے ہو “سب ہی کرتے ہیں” یہ سب جملے: دراصل اخلاقی خودکشی کے سرٹیفیکیٹ ہیں۔

اگر آج بھی ہم نہ بدلے: تو: * ہماری مساجد آباد رہیں گی * مگر ہمارے دل بنجر رہیں گے

* ہماری آبادی بڑھے گی * مگر ہماری طاقت ختم ہوتی جائے گی * ہمارے پاس قرآن بھی ہو گا * مگر ہمیں عزت پھر بھی نہ ملے گی کیونکہ اللہ کا اصول اٹل ہے: عزت عبادت سے نہیں، اطاعت سے ملتی ہے۔

آخری سچ

یہ زوال: * کسی ایک سازش سے نہیں آیا * کسی ایک قوم نے نہیں لایا * یہ ہماری اجتماعی بدعملی کا نتیجہ ہے اور یہ عروج: * کسی ایک لیڈر سے نہیں آئے گا * کسی ایک انقلاب سے نہیں آئے گا * یہ صرف اجتماعی توبہ، اجتماعی اصلاح اور اجتماعی قربانی سے آئے گا۔

Loading