مسٹر جناح کا آخری سفر
“فاطمی مجھے اب زندہ رہنے میں دل چسپی نہیں ہے۔ جتنا جلد میں چلا جاؤں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا میں زندہ رہوں یا مر جاؤں۔ مسٹر جناح کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جسے عام طور پر غیر جذباتی اور مضبوط سمجھا جاتا تھا۔ جذبات کے اس مظاہرہ سے ہم سب حیرت زدہ رہ گئے۔ میں تجربہ سے جانتا تھا کہ جب ایک مریض ہمت ہار دے تو کوئی علاج چاہے کتنا ہی بھر پور کیوں نہ ہو زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتا اوراس لیے یہ بات جان کر کہ اس آہنی قوت ارادی کے شخص نے ہمت ہار دی تھی۔ سخت مایوسی ہوئی۔
ستمبر کے آغاز تک مسٹر جناح کو نمونیا کے علاوہ تب دق اور پھیپھڑوں کا سرطان بھی ہو چکاتھا۔ ان کا بخار سو درجہ تھا. وزن صرف ستر پونڈ (35 کلو گرام)رہ گیا تھا. ان کی نبض غیر معمولی طور پر تیز اور بے ربط ہوگئی تھی. ان کی حرکتِ قلب بے ترتیب ہو چکی تھی. سانس لینے کے لیے اِنھیں آکسیجن کی ضرورت تھی. کراچی سے ڈاکٹر ایم اے مستری کو کوئٹہ بلا بھیجا گیا. ڈاکٹر مستری نے معائنہ کے بعد کہا اب کچھ نہیں رہ گیا. جناح کو بے آرامی سے بستر پر کروٹیں لیتے ہوئے یہ کہتے سنا گیا. کشمیر کمیشن کے ساتھ آج میرا اپائنمنٹ تھا. وہ کیوں نہیں آئے. کہاں ہیں وہ.
مسٹر جناح کو اب واپس کراچی لے جانا تھا. کیونکہ وہ جس مقصد سے کوئٹہ زیارت آئے تھے. اب مزید اس کی ضرورت نہ تھی. مسٹر جناح کو ١١ستمبر ١٩٤٨ دوپہر دو بجے “ڈکوڈا” ہوائی جہاز سے کوئٹہ سے کراچی لے جانا تھا. جب اِنھیں اسٹریچر پر لٹا کر جہاز کی طرف لے جایا جانے لگا. جہاز کے عملہ نے ایک طرف قطار میں کھڑا ہو کر اِنھیں سلیوٹ کیا. جواب میں اِنھوں نے نقاہت سے آپنا ہاتھ بلند کیا. ایک بستر جہاز میں لگا دیا گیا. فاطمہ جناح، ڈاکٹر مستری اور نرس سسٹر ڈنہم قریب بیٹھ گئے. آکسیجن سلنڈر اور گیس ماسک تیار تھا. جہاز فضا میں بلند ہوا. کوئی دو گھنٹے کی پرواز کے بعد شام ٤ بجکر ١٥ منٹ پر ماڑی پور اُترا. یہ وہی ہوائی اڈا تھا جہاں آج سے ایک سال سے کچھ عرصہ پہلے بھی اُترے تھے، اُمید و اعتماد سے بھر پور کہ وہ پاکستان کو ایک عظیم مملکت بننے میں مدد دیں گے۔ تب ہزاروں افراد انھیں خوش آمدید کہنے آئے تھے. مگر آج یہاں کوئی بھی نہ تھا. ہدایت کے مطابق مسٹر جناح کی آمد کو خفیہ رکھا گیا تھا. جہاز سے باہر رن وے پر ایک ملٹری ایمبولنس کھڑی تھی. جسے جناح کے ملٹری سیکرٹری کرنل نول لے کر آئے تھے۔ جناح کے اسٹریچر کو ایمبولنس کے پچھلے حصہ میں رکھا گیا. جہاں مس فاطمہ جناح، نرس سسٹر ڈنہم بیٹھیں. ڈاکٹر مستری پیچھے جناح کی نئی کیڈلاک کار میں تھے. کوئی چار یا پانچ میل کا فاصلہ طے کر کے ایمبولینس کے انجن نے کچھ آواز نکالی اور وہ رک گئی پانچ منٹ بعد فاطمہ جناح باہر نکلیں کہ ایمبولینس کیوں رک گئی ہے ؟ انھیں بتایا گیا کہ ایمبولینس میں پٹرول ختم ہو گیا ہے. مگر ڈرائیور انجن میں الجھا ہوا تھا. ماحول میں ایک حبس تھا. جان لیوا گرمی پڑ رہی تھی. مکھیاں جناح صاحب کی چہرے پر بھنبھنا رہی تھیں. جناح صاحب میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اپنے ہاتھ سے انھیں ہنکا سکیں. سسٹر ڈنہم اور فاطمہ جناح انھیں باری باری پنکھا جھلتی رہیں. اور دوسری ایمبولینس کا انتظار کرتی رہیں. ہر منٹ اذیت کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا.
ڈاکٹر مستری کار سے باہر نکلے کہ دیکھیں مسٹر جناح کی کیا کیفیت ہے؟ وہ یہ جان کر دہشت ذدہ رہ گئے کہ مسٹر جناح کی بنض بدستور ڈوبتی جا رہی تھی. وہ بھاگ کر گرم چائے کا تھرموس اٹھا لایا. مس جناح نے انھیں ایک کپ گرم چائے پلائی. یہ کتنا بڑا المیہ تھا کہ ہوائی جہاز کا سفر کرنے کے باوجود یوں ہی سڑک کے کنارے بابائے قوم و گورنر جنرل پاکستان کو دم توڑنا پڑے گا. قریب ہی مہاجروں کی سینکڑوں جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں. جنھیں پتہ نہ تھا کہ جس ہستی نے ان کے لیے پاکستان بنایا وہ آج یہاں یوں سڑک کے کنارے زمانے کے رحم و کرم پر بے بس پڑی ہے. پاس سے ہارن بجاتی گزرتی کاریں انھیں نہیں پتہ کہ سڑک کے کنارے جو ایمبولینس کھڑی ہے اس میں بابائے قوم موجود ہیں اور بے یار و مدد گار پڑے ہیں. ٹرک بھی آتے گڑگڑاتے گزر جاتے. ایمبولینس کا ڈرائیور انجن کو مرمت کرنے پر لگا ہوا تھا. اور ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی تسلیاں دے رہا تھا. بس بس ابھی ٹھیک ہوجاتا ہے.
ہوائی اڈے سے پہنچنے میں جتنا وقت لگا اتنا وقت کوئٹہ سے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچنے میں نہیں لگا تھا. خیر جناح صاحب اپنے گھر پہنچ کر کوئی دو گھنٹہ سکون سے سوئے. پھر انھوں نے آنکھیں کھولیں. اور سرگوشی میں پکارے” فاطمی”. سنتے ہی فاطمہ جناح قریب آئیں کہ ١١ستمبر ١٩٤٨ رات ١٠بجکر ٢٠ منٹ پر جناح صاحب کا سر داہنی طرف لڑھک گیا. فاطمہ جناح یہ نظارہ دیکھ کر چیخ پڑیں. ڈاکٹر مستری بھاگے آئے اور فاطمہ جناح نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ بابائے قوم کو سر سے پاؤں تک سفید چادر سے ڈھانپا جا رہا ہے. فاطمہ جناح یہ منظر برداشت نہ کر سکیں بے ہوش کر زمین پر گر پڑیں.
قائدِ اعظم 11ستمبر، 1948 رات 10 بجکر 20 منٹ پر انتقال فرما گئے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ❤️
ایک سادہ کفن میں لپیٹ کے، انھیں اگلے دن کراچی میں دفن کر دیاگیا۔ (جناح فادر آف دی نیشن ، اسٹینلے ولپرٹ، صفحہ411۔ 413)
نہ بیرون ملک علاج کے لیے گئے نہ کسی دورے پر قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا، یہ تھا بابائے قوم کو ملنے والا صلہ پاکستان بنانے پر.
![]()

